کالم

پاک بھارت آبی تنازعات

پانی انسانیت کی بقا کیلئے کتنا ناگزیر ہے اس کا اندازہ صرف وہی لوگ لگا سکتے ہیں جنہوں نے پیاس کی وجہ سے موت کو قریب سے دیکھا ہو۔ کسی انسان کے بس میں نہیں کہ وہ اس موت کی شدت کو الفاظ میں بیان کر سکے۔ آپ نے افریقہ کے صحراو¿ں کی وہ تصاویر ضرور دیکھی ہوں گی جہاں ریت پر گرے ہوئے مکئی کے دانے لوگ ایک دوسرے کو کچلتے ہوئے اکٹھے کرتے ہیں کیونکہ ان کی زمینیں پانی کی کمی سے بانجھ ہو چکی ہیں۔ یہ تو اللہ ہی بہتر جانتا ہے کہ ہمارا انجام کیا ہوگا لیکن اس حقیقت سے انکار ممکن نہیں کہ بھارت نے پاکستان کو ایتھوپیا بنانے کیلئے آبی جنگ کا آغاز کردیا ہے جس کا انجام سوائے تباہی کے اور کچھ نہیں ہوگا۔پاکستان کبھی بھی بھارت سے کسی اچھے معاملے کی توقع نہیں کرسکتا۔ مسئلہ کشمیر کا پون صدی سے حل طلب ہونا بھی اسی طرف اشارہ کرتا ہے کہ بھارت نہ تو ایک اچھے ہمسایے کے طور پر رہنا چاہتا ہے اور نہ ہی وہ طاقت کا توازن قائم رہنے دینا چاہتا ہے۔ ہر سال اس کی طرف سے کی جانے والی آبی جارحیت بھی اسی جانب اشارہ کرتی ہے۔ابھی حال ہی میںمتنازعہ بھارتی آبی منصوبوں کا جائزہ لینے کے لیے پاکستان سے اعلیٰ سطح کا وفد مقبوضہ کشمیرگیا ہے۔ وفد کی سربراہی سیکرٹری آبی وسائل مرتضیٰ علی شاہ کر رہے ہیں۔ وفد میں انڈس واٹر کمشنر، نیسپاک، واپڈا اور لیگل حکام شامل ہیں۔ وفد مقبوضہ کشمیر میں مختلف متنازعہ آبی منصوبوں کا دورہ کرے گا۔ مون سون میں مقبوضہ کشمیر سے پانی سے متعلق وارننگ سسٹم پر بات چیت ہوگی۔ بھارت کی جانب سے سندھ طاس معاہدے کیخلاف ورزیوں کا بھی جائزہ لیا جائےگا۔ بھارتی متنازعہ آبی منصوبوں سے متعلق اعتراضات سے آگاہ کیا جائے گا۔ پاکستانی وفد نے دورے کے پہلے مرحلے میں کشتوڑا کا دورہ کیا۔دریائے چناب کے پانی میں سے سات سے آٹھ ہزار کیوسک پانی بھارت روزانہ چوری کررہا ہے۔ صورت حال یہ ہے کہ پنجاب کی نہروں میں پانی کی کمی ہے جس کی وجہ سے ساہیوال، اوکاڑہ، ملتان، ایسٹرن بار اور ویسٹرن بار کے 35لاکھ ایکڑ رقبے پر کھڑی فصلیں تباہ ہورہی ہیں۔ اب تک پنجاب اور سندھ کی سوا کروڑ اراضی پانی کی کمی سے دو چار ہے۔ یہی صورتحال برقرار رہی تو خدانخواستہ خدشہ ہے کہ کہیں یہاں ایتھوپیا اور صومالیہ جیسے حالات پیدا نہ ہو جائیں اور شمالی کوریا اور روانڈا کی طرح ہماری انتہائی زرخیز زرعی زمینیں اجاڑ، ویران اور بے آباد نہ ہو جائیں۔بھارت دریائے سندھ میں گرنے والے ندی نالوں پر بھی14چھوٹے ڈیم بنا رہا ہے۔ اسی طرح جہلم سے ایک اور بگلیہار سے دو نہریں نکال کر راوی میں ڈالی جارہی ہیں اور راوی کا پانی ستلج میں ڈال کر راجستھان لے جایاجارہا ہے۔جہلم پر12اور چناب پر مزید 20چھوٹے ڈیم بنائے جانے کے منصوبوں پر بھی کام جاری ہے اور یہ تمام آبی تجاوزات ان دریاو¿ں پر ہورہی ہیں جو سندھ طاس معاہدے کے تحت پاکستان کے حصے میں آئے ہیں۔معاہدے کے مطابق ان دریاو¿ں کا پانی روکنے اور ان پر ڈیم بنانے کا بھارت کو کوئی حق نہیں ہے لیکن ظاہر ہے ان چھوٹی موٹی خلاف ورزیوں سے معاہدے کی روح پر بھلا کیا اثر پڑتا ہے۔ جب ہی تو حکومت اتنی مطمئن نظر آرہی ہے۔ یہ ”سرکاری خاموشی“ بھارت کو مزید شہ دینے کے مترادف ہے جو ہمارے ملک کو دھیرے دھیرے صحرا بنانے کے منصوبے پر کام کررہا ہے۔ عرصہ دراز سے پاکستانی حکمرانوں کو بار بار خبردار کیا جاتارہا ہے کہ وہ بھارت کی طرف سے پاکستان آنے والے دریاو¿ں پر ڈیمز بنانے اور ان دریاو¿ں میں پانی کے بہاو¿ کنٹرول کرنے کے اقدامات پر ایکشن لے۔ مذاکرات کرے یا عالمی عدالت سے رجوع کرے اور ملک میں کالا باغ ڈیم سمیت تمام چھوٹے بڑے آبی ذخائر کی تعمیر جلد از جلد شروع کرے مگر ہمارے حکمران نجانے کیوں زندگی اور موت کے اس مسئلے سے جان بوجھ کر نظریں چراتے رہے ہیں۔ آج تک ہم دریائے جہلم و نیلم پربھارت کی طرف سے ڈیم بنانے کا کیس بھی ثالثی عدالت میں صحیح طریقہ سے لڑ نہیں سکے۔ کالا باغ ڈیم بنانا تو بہت دور کی بات ہے، لگتا ہے بھارت اور اسکے ایماءپر کالا باغ ڈیم بنانے کے مخالفین نے ملک کی زرعی معیشت کو تباہ کرنے پر ایکا کرلیا ہے۔ بھارت پانی روک کر اور مخالفین ڈیم نہ بنا کر پاکستان کو ریگستان میں تبدیل کرناچاہتے ہیں اسلئے پاکستانی حکمرانوں کو چاہئے کہ بروقت نوٹس لیتے ہوئے بھارت سے چناب میں پانی کی کمی کے مسئلے پہ مذاکرات کرے اور اسے عالمی قوانین اور باہمی معاہدے کے تحت اس دریا میں پانی کی مقررہ مقدار جاری کرنے پر مجبور کرے۔ پاکستان میںجب بھی کسی ڈیم کی تعمیر کی بات ہوتی ہے تو سیاسی اور جاگیردارانہ نظام کے محافظ ایسا ہنگامہ مچاتے ہیں کہ پورے ملک میں افراتفری پھیل جاتی ہے۔کاش ہم اپنی ہی جڑیں کاٹنے کے دیرینہ روایت سے سبکدوش ہونے کا گر سیکھ سکیں۔ اس سلسلے میں ہمیں بھارت سے گلہ کم اور اپنے حکمرانوں سے زیادہ کرنا چاہیئے جنھوں نے وقت گزرنے کے ساتھ قومی ضروریات کے تقاضوں کے مطابق ایسے اقدامات نہیں کیے جن کی مدد سے نہ صرف ہم اپنی آبادیوں کو بھارت کی آبی جارحیت سے محفوظ رکھ سکتے بلکہ پانی ذخیرہ کر کے اسے اپنے فائدے کے لیے استعمال بھی کرسکتے۔ اس حوالے سے حکومت کو مزید وقت ضائع کیے بغیر اہم منصوبوں پر کام کرنے کی ضرورت ہے تاکہ ملک کو ماحولیاتی تبدیلیوں کے منفی اثرات سے محفوظ رکھا جاسکے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے