فلسطین انبیاءکی زمین ہے۔ فلسطین میں کئی جلیل القدر انبیاءاور ان کی ازواج المطاہرات مدفون ہیں۔فلسطین میں قبلہ اوّل مسجد اقصیٰ موجود ہے۔اللہ تعالیٰ نے حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو ایک رات مسجد حرام خانہ کعبہ سے مسجد اقصیٰ کی سیرکرائی۔اللہ تعالیٰ قرآن شریف میں فرماتا ہے۔” پاک ہے وہ جو لے گیا ایک رات اپنے بندے کو مسجد حرام سے دُور کی اس مسجد تک جس کے ماحول کواس نے برکت دی۔ تاکہ اسے اپنی کچھ نشانیوں کا مشاہدہ کر وائے۔ حقیقت میں وہی ہے سب کچھ سننے اور دیکھنے والا“(سورة بنی اسرائیل۔1) یہ معراج النبی کا واقعہ ہے۔ بیت المقدس کے بارے حدیث میں ہے رسول اللہ کی باندی حضرت میمونہؓ فرماتی ہیں۔ میں نے کہا، یا رسول اللہ ہمیں بیت المقدس کے بارے بتایئے۔” آپ نے فرمایا:۔ یہ حشر اور نشر کی سرزمین ہے ۔ یہاں آﺅ اور اس سرزمین پر نماز پڑھو۔ جہاں پڑھی گئی ایک نماز کسی اور جگہ بڑھی گئی ہزار نمازوں کے برابر ہے۔حضرت میمونہؓ فرماتی ہیں:۔ میں نے پوچھا! اگر میں وہاں تک نہ پہنچ سکوں تو، آپ کیا فرماتے ہیں؟ آپ نے فرمایا تم وہاں چراغ جلانے کے لیے تیل بھیج دیا کرو۔جس نے ایسا کیا گویا وہ وہاں پہنچ گیا۔ (امام احمد، ابوداﺅد، اور ابن ماجہ) اس حدیث سے ثابت ہوتا کہ فلسطین کے مسلمانوں کی مدد کرنی فرض ہے۔ ایک اور حدیث ہے ۔حضرت ابوذر غفاریؓ فرماتے ہیں:۔ میں نے کہا رسول اللہ روئے زمین پر سب سے پہلی کون سی مسجد بنائی گئی؟ آپ نے فرمایا:۔ مسجد حرام، میں نے کہا:۔ پھر کون سی؟ آپ نے فرمایا:۔ مسجد اقصیٰ۔ میں نے پوچھا دونوں کے درمیانی مدت کتنی ہے؟ آپ نے فرمایا 40 چالیس سال“ اس سے معلوم ہوتا کہ مسجد اقصیٰ تو پہلے سے موجود تھی ۔اور ہیکل سلیمانی کسی علیحدہ جگہ حضرت سیلمان ؑ کے دور میں تعمیر ہوا۔ این جی او، ڈی ایچ ڈی فاﺅنڈیشن اسلام آبادنے بیت المقدس کے بارے میں ایک نقشہ کے ذریعے معلومات دیں جوراقم قارئین کے سامنے پیش کر رہے ہیں۔وہ لکھتے ہیں کہ بیت المقدس میں مسجد اقصیٰ صرف سرمئی گنبدقبلی مسجد کانام نہیں، اور نہ ہی قبتہ الصخرہ کانام ہے بلکہ ایک پورے علاقہ کا نام ہے۔ اس کے ارد گرد دیوار ہے۔ مسجد اقصیٰ کے لفظی معنی”سب سے دور والی مسجد“ ہے۔ یہ مسلمانوں کا قبلہ اوّل اور خانہ کعبہ، مسجد نبوی کی طرح تیسرا مقدس ترین مقام ہے۔قبة الصخرة کو اموی خلیفہ عبدالملک نے 988ھ سے991ھ کے درمیان تعمیر کروایا۔ اس کے اندر وہ پتھر ہے جہاں سے نبی کریم صلی اللہ علی وسلم نے براق پر آسمان کی طرف سفر شروع کیا۔قبة السلسل:۔یہ اموی خلیفہ عبدلملک نے تعمیر کروایا۔ یہ مسجد اقصیٰ کے عین وسط میں ہے۔ تخت سلیمانی:۔ یہ عمارت بیت المقدس کی حدود اندر اس مقام پر ہے، جہاں کہا جاتا ہے کہ حضرت سلیمانؑ کی وفات ہوئی۔ اس وقت یہاں لڑکیوں کا مدرسہ ہے۔
باب توبہ و رحمت:۔ یہ بھی بیت المقدس کی حدود کے اندر واقع ہے۔بعض عیسائیوں کا عقیدہ ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ اسلام اپنی دوبارہ آمد پر اس دروازے سے داخل ہو نگے۔ انگریزی میں اسے گولڈن گیٹ کہا جاتا ہے۔ اسے ساتویں صدی میں بند کر دیا گیا تھا۔مقبرہ باب رحمت:۔ یہ مقبرہ مشرقی دیوار سے باہر ہے۔ اس میں دو صحابہؓ کرام حضرت عبادہ بن صامت اور حضرت شداد بن اوس کی قبریں ہیں ۔ مروانی مصلی:۔صحن کے نیچے یہ وسیع زیر زمین علاقہ آٹھویں صدی میں امویوں نے تعمیر کروایا۔ کہا جاتا ہے کہ حضرت مریمؑ نے حضرت عیسیٰ کی پیدائش کے بعد اسی جگہ پر ان کی پرورش کی۔قبلی مسجد:۔اس مسجد کو مسجد اقصیٰ کے احاطے میں قبلہ سے قریب ترین ہونے کی وجہ سے قبلی مسجد کہا جاتا ہے۔ اسے حضرت عمرؓ نے مسجد اقصیٰ کے جنوب مشرقی حصے میں نماز کے کمرے کے طور پر تعمیر کروایا تھا ۔ اس کی کئی بار تعمیر نو ہوئی۔ موجودہ عمارت 1034ءمیں تعمیر ہوئی۔ باب الغاربہ :۔ یہ وہ مقام ہے جہاں بنی کریم صلی اللہ علیہ وسلم شب معراج کو مسجد اقصیٰ میں داخل ہوئے۔ حضرت عمر ؓ کے زمانے میں مسلمانوں نے فلسطین فتح کیا تو حضرت عمرؓ بھی مسجد اقصیٰ پہنچنے پر اس طرف سے داخل ہوئے تھے۔ آج کل یہ غیر مسلموں کے داخلے کا واحد راستہ ہے۔
براق مسجد:۔ جنوب مغربی کونے میں یہ چھوٹی سی مسجد دیوار براق کے ساتھ اس مقام پر ہے جہاں بنی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے براق باندھا تھا۔ دیوار گریہ:۔ اسے مغربی دیوار یا دیوار براق بھی کہا جاتا ہے۔ اسے یہودیوں نے اپنے لیے سب سے مقدس مقام بنا لیا ہے ۔ وہ اس دیوار کے سامنے گریہ کرتے ہیں۔ مسلمان اس کو دیواربراق کہتے ہیں کیونکہ اس ویوار کے ساتھ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے براق باندھا تھا۔ اس کے علاوہ فلسطین کی بہت سے مساجد میںمسجد ابرھیم “ جو شہر الخلیل میں ہے۔ جس پر تمام لوگ متفق ہیں کہ اس میں پیغمبر اسلام حضرت ابراھیم خلیل اللہ، حضرت اسحاق علیہ السلام،حضرت یعقوب علیہ السلام، حضرت یوسف علیہ السلام اور ان کی ازواج المطرات مدفون ہیں۔ اس مسجد ابراھیم ؑ پر بھی یہودی قبضہ کرنا چاہتے تھے ۔ اس پریہودی آباد کاروں اور فلسطینی مسلمانوں کے درمیان تنازہ پیدا ہواتھا۔ فریب کی انتہا دیکھیں کہ پہلے تو اسرائیل حکومت نے 1976ءمیںیہودیوں کو اس مسجد میں داخل ہونے کی اجازت دی ۔ پھر 1971ءمیں یہودیوں کو ایک کمرہ جو حضرت ابراھیمؑ اور ان کی اہلیہ محترمہ کی قبروں کے درمیان واقع ہے، یہودیوں کو تورات کا صحیفہ نصب کرنے کی اجازت اور اختیارات دیے ۔
یہودی مذہب کے مطابق جہاں تورات کا نسخہ جہاں نصب ہو وہ ان کی عبادت گاہ تصور کی جاتی ہے ۔ 1975ءمیں دوسرے کمرے جس میں حضرت یعقوب علیہ السلام کا مقبرہ تھا ۔ اور 1979ءمیں مسجد کے آخری کمرہ پر بھی قبضہ کر لیاجو مسجد کا سب سے بڑا کمرہ اور حضرت اسحاق علیہ السلام کا جائے دفن ہے ۔ تاریخی تلخ تجربہ ہے کہ اللہ کے نبیوںؑ کو ناحق قتل کرنے والی شقی القلب دہشت گرد یہودی قوم نے ان نیک ہستیوں کی قبروں کی بے حرمتی کر کے اپنی دوزخی ہونے کا ثبوت پیش کر دیا۔ مسلمانوں کی مسجد اقصیٰ“ کا نا م ہیکل سلیمانی اور ” مسلمانوں کی دیوار براق“ کا نام دیوار گریہ رکھ دیا۔ یہودی انہیں مسمار کر کے ہیکل سلیمانی بنانے کے پروگرام پر شروع سے عمل کر رہے ہیں۔ یہودیوں نے مسجد اقصیٰ کو گرانے کےلئے اس کی دیوار ساتھ ایک لمبی سرنگ کھودی ہوئی ہے۔ کئی دفعہ مسجد کو آگ بھی لگا چکے ہیں۔ یہودی دنیا بھر سے فلسطین میں جمع ہو کر، پچھتر سالوں سے فلسطینیوں کو ان کے گھروں سے ظلم و سفاکیت کی انتہا اور دہشت گردی کر کے نکال دیا۔ان زمینوں پر قبضہ کر لیا۔ ان کا قتل عام کر کے ان کی نسل کشی کی۔
تنگ آمد بجنگ آمد ، ۵ اکتوبر2023ءکوظالم ، سفاک ، انبیاؑ کو ناحق قتل کرنے والے ، بد عہد، دنیا کی ہر برائی کے موجد شقی القلب یہودیوںپر ،طوفان اقصیٰ کے نام سے ابو عبیدہ کی کمانڈ میں حماس، اللہ کاقہر بن کر، فضائی بری اور بحری راتوں سے ٹوٹ پڑی ۔ ان کی آئرن ڈوم سیکورٹی کا نا قابل شکست ہونے کے برم کو پاش پاش کر دیا۔ ان کے سینکڑوں فوجی اور سلولین کو اسرائیل کی قید میں پینتیس سالوں سے قید،اپنے دس ہزار نہتے قیدیوں، جس میں عورتیں اور بچے شامل ہیں کو چھڑانے کےلئے قید کر لیا۔
حماس نے مسجد اقصیٰ کو آزاد کرانے کےلئے جہاد فی سبیل اللہ شروع کیا ہے۔ یہود نے حماس مجاہدین سے بدلہ لینے کے بجائے غزہ کی پٹی میں عام نہتے شہریوں پر، عرب میڈیا کے مطابق تین ایٹم بمبوں سے زیادہ75 ہزار ٹن بارود برسا کر پینتیس ہزار زاہد فلسطینیوں جس میں بچے اور عورتیں زیادہ ہیں کو شہید کر دیا۔ سوا لاکھ سے زیادہ یا ہلاک یا زخمی کیے۔ ہزاروں ملبوں تلے دبے ہوئے ہیں ۔کئی اجتماہی قبریں دریافت ہو رہیں ہیں۔ اقوام متحدہ کے مطابق غزہ کی تعمیر نو میں14 برس لگ سکتے ہیں۔ اقوام متحدہ کے امدادی ٹیم کے ایک سو پچاس کارکنوں اوراسی طرح ایک سو پچاس صحافیوں کو شہید کر دیا ہے۔پوری غزہ کے رہائشی عمارتوں، تعلیمی اداروں، مساجد، ہسپاتوں کو مسمار کر دیا۔ جو لوگ جان بچا کر رفحہ جمع ہوگئے ہیں ان پر بھی بمباری کے ختم کرنا چاہتا ہے۔ دو سوچھ دن ہو گئے ہیں روزانہ کی بنیاد غزہ کے سینکڑوں لوگوں پر ہوئی جہازوںسے بمباری، ٹینکوں سے حملے کر کے شہید کر رہا ہے۔یہودی فلسطین کے مسلمانوں کو صفحہ ہستی سے مٹا کر فلسطین کو صرف یہودیوں کےلئے مخصوص کرنا چاہتا ہے۔ مسلمان اورساری دنیا کے انصاف پسند عوام اسرائیل کے خلاف مظاہرے کر رہے۔
کالم
فلسطین انبیاءکی زمین
- by web desk
- جولائی 2, 2024
- 0 Comments
- Less than a minute
- 317 Views
- 6 مہینے ago