بھارت نے مقبوضہ کشمیر میں 5 اگست 2019سے غیر معینہ مدت تک کے لیے کرفیو نافذ کر رکھا ہے۔ مقبوضہ وادی میں لاکھوں کی تعداد میں بھارتی فوجی تعینات اور حریت اور سیاسی قیادت گھروں میں نظر بند یا جیلوں میں قید ہے۔ مودی سرکار نے 90 لاکھ کشمیریوں کو قیدی بنا رکھا ہے اور وادی میں مسلسل آٹھ ماہ سے لاک ڈاون ہے اور بھارت کے اس رویے کو پوری دنیا دیکھ رہی ہے۔ بھارت کا رویہ خطے میں امن کے لیے خطرہ ہے اور یہ واضح نہیں کہ صورتحال کس طرف جائے۔اگلے روز امریکیوں میں مسئلہ کشمیر کے بارے میں آگاہی پیدا کرنے کے لیے امریکہ کے یوم آزادی پر واشنگٹن میں ڈیجیٹل ٹرکوں کے ذریعے مہم چلائی گئی۔ الیکٹرانک سکرینوں سے لیس ڈیجیٹل ٹرک نیشنل مال، کیپیٹل ہل، واشنگٹن مونومنٹ، وائٹ ہاو¿س، عجائب گھروں اور مختلف سفارت خانوں جیسے اہم مقامات کے اطراف میںچلائے گئے۔ ٹرکوں کی الیکڑانک سکرینوں پر ”امریکی یوم آزادی منا رہے ہیں: کشمیری بھارتی قبضے کا مسلسل شکار ہیں،انتخاب نہیں اقوام متحدہ کی قرارداد واحد حل ، کشمیر کی آزادی واحد حل، غلامی کوئی آپشن نہیں ، بھارتی فورسز قتل و غارت کر رہی ہیں، کشمیر کو آزاد کرنے کی ضرورت ہے ،کشمیر کو اپنی بقا کے خطرے کا سامنا ہے، امریکہ کو کارروائی کرنے کی ضرورت ہے ، بھارت نسل کشی میں ملوث ہے اور کشمیریوں کا واحد مطالبہ استصواب رائے “ جیسے نعرے چلائے گئے۔ورلڈ کشمیر ایوئیر نس فورم ( ڈبلیو کے اے ایف) کے صدر ڈاکٹر غلام این میر نے اس موقع پر امریکی یوم آزادی کی اہمیت پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا کہ امریکہ بھارتی قبضے کے خلاف جاری کشمیریوں کی جدوجہد کی اخلاقی اور سفارتی حمایت کر رہا جس پر ہم اسکے مشکور ہیں۔ڈبلیو کے اے ایف کے سیکرٹری جنرل ڈاکٹر غلام نبی فائی نے آزادی، مساوات اور انصاف کی امریکی بنیادی اقدار کی عالمی سطح پر توسیع کی ضرورت پر زور دیتے ہوئے کہا کہ پوری دنیا جانتی ہے کہ بھارتی فوج کشمیر میں انسانیت کے خلاف جرائم کر رہی ہے اور آج کشمیر نسل کشی کے دہانے پر ہے۔ انہوں نے حق خود ارادیت کی حمایت میں بین الاقوامی رہنماو¿ں کے بیانات کا حوالہ دیا اور امریکہ سے مطالبہ کیا کہ وہ کشمیریوں کو انکا پیدائشی حق، حق خود ارادیت دلانے کیلے کردار ادا کرے۔ایک کشمیری نژاد امریکی سکالر ڈاکٹر امتیاز خان بھارتی مظالم کا سامنا کرنے والے کشمیریوں کی حالت زار بیان کرتے ہوئے آبیدہ ہو ئے۔انہوں نے مقبوضہ علاقے میں بھارتی فوجیوں کے ہاتھوں قتل، عصمت دری اور جبری گمشدگیوں سمیت انسانی حقوق کی جاری خلاف ورزیوں کی مذمت کی اور عالمی برادری بالخصوص امریکہ پر زور دیا کہ وہ ان مظالم کے خاتمے کے لیے مداخلت کرے۔مختلف کشمیری انجمنوں سے وابستہ سردار ذوالفقار روشن خان اور سردار شعیب ارشاد نے بائیڈن انتظامیہ اور عالمی طاقتوں پر زور دیا کہ وہ تنازعہ کشمیر کے حل اور انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کو روکنے کیلئے کردار ادا کریں۔سردار زبیر خان نے کہا کہ جنوبی ایشیا میں پائیدار امن کیلئے مسئلہ کشمیر کا حل ناگزیر ہے لہٰذا عالمی رہنماو¿ں کو چاہیے کہ وہ اس حوالے سے اپنا کردار ادا کریں۔بھارت کو یہ حقیقت تسلیم کر لینی چاہیے کہ اگر اس نے کشمیریوں کے حق میں دنیا کی آوازپر کان نہ دھرے تو کشمیر سمیت خطے کے حالات مزید بگڑ جائیں گے اور پھر یہ نہ تو مودی اور نہ ہی ہمارے قابو میں رہیں گے اور ایک جوہری جنگ کا خدشہ بڑھتا جائےگا۔ مقبوضہ کشمیر میں جو ہو رہا ہے وہ بد سے بدتر ہوتا جائیگا جوکہ یہ انتہائی خطرناک ہے۔جب کرفیو ہٹے گا تو وادی کے حالات کھل کر دنیا کے سامنے آجائینگے کیونکہ بھارتی فورسز اور کشمیریوں کے درمیان تصادم ہوگا جس کی وجہ سے بھارتی فورسز کے ہاتھوں بڑے پیمانے پر کشمیریوں کا قتل عام ہوگا۔5 اگست2019 کے بعد مقبوضہ کشمیر میں اسی لاکھ کشمیریوں جن میں عورتیں اور بچے بھی شامل ہیں کو 9لاکھ فوج کے ذریعے کرفیو لگا کر محصور کردیا گیاہے۔ 80لاکھ لوگوں کو جانوروں کی طرح بند کیا ہوا ہے ۔ اسی لاکھ جانوروں کواگر ایسے قید کیا جاتا تو مغرب میں شور مچ جاتا۔ اگر 8لاکھ یہودی اس طرح محصور ہوں تو کیا ہوگا؟۔یہ تو آج کی رپورٹس ہیں ۔ ماضی میں بھی کشمیریوں نے ہمیشہ بھارتی مظالم ہی سہے ہیں۔ پچھلے تیس سالوں میں ایک لاکھ کشمیریوں کوشہید اور گیارہ ہزار خواتین کی عصمت دری کی گئی ہے اور یہ اقوام متحدہ کی رپورٹس ہیں۔ بھارت نے اقوام متحدہ کی 11قراردادوں کی خلاف وزری کرکے مقبوضہ کشمیر کی حیثیت تبدیل کی۔ دنیا نے سوچا کہ مقبوضہ کشمیر میں خونریزی کا کشمیریوں پر کیا اثر ہوگا ؟اس وقت حالات کے مطابق پاک بھارت جنگ کے دھانے پر کھڑے ہیں۔ اگر ذرا سی بھی بد احتیاطی ہوئی تو نہ صرف خطہ بلکہ پوری دنیا جنگ کی لپیٹ میں آسکتی ہے اور وہ بھی جوہری جنگ کی۔ پاکستان اور بھارت کے درمیان روایتی جنگ ہوئی تو کچھ بھی ہوسکتا ہے ۔ ہمارے پاس کوئی آپشن نہیں بچے گا اور اس کا اثر پوری دنیا پر پڑے گا۔ ہم اپنے ہمسائے سے سات گنا چھوٹے ہیں اور ایک چھوٹا ملک جب لڑتا ہے تو اس کے پاس دو آپشنز ہوتے ہیں ہتھیار ڈالے یا لڑے اور ہم آخری سانس تک لڑیں گے ، ہمارا للہ کے ایک ہونے پر یقین ہے اور ہم لڑیں گے۔