کالم

نہ نکلتے تو کسی روز نکالے جاتے

سابق آئی ایس آئی چیف کی گرفتاری کے بعد تبصروں، تجزیوں اور خبروں کا ایسا سلسلہ جاری ہے کہ ڈر ہے کہیں تجزیہ نگار، قافیہ شناس یو ٹیوبرز اور دانشوران قوم 1947 کے بعد کے تمام واقعات کا ذمہ دار ہی انہیں نہ ٹہرا دیں. باوجود اس کے کہ ان کی غالب اکثریت انہی کی فیض یافتہ مگر اب چونکہ وہ زیر عتاب، تو نامور اینکروں نے بھی ان سے ایسے آنکھیں پھیریں جیسے قائد مسلم لیگ نے اہنے محسن صدر غلام اسحاق اور پھر فاروق لغاری سے،فاروق لغاری کے معاملہ کی راوی تو محترمہ عابدہ حسین ہیں کہ جن کی وساطت سے ہی صدر لغاری سے عہد و پیماں ہوتے رہے اور پھر راز داران نے حیرت اور سکتے کے ماحول میں انہیں ٹوٹتے بھی دیکھا۔نواز شریف کے پہلے دور کا اختتام 18جولائی 1993کو ہوا کہ جب وزیر اعظم کی ایڈوائس پر قومی و صوبائی اسمبلیاں تحلیل ہوئیں اور پھر کاکڑ فارمولہ کے تحت غلام اسحاق خان بھی عہدہ صدارت سے مستعفی ہوئے۔ڈاکٹر حسن عسکری اور دیگر کے مطابق صدر، وزیر اعظم کی اس چپقلش وزیر اعظم ہاوس کا صدر سمیت اسٹیبلشمنٹ پر حاوی ہونا اور وزارت عظمیٰ کے اختیارات کو کلی طور پر بروئے کار لانا تھا۔مگر اس کوشش اور خواہش میں نواز شریف اپنے محسنوں اور سرپرستوں کو بھول کر ٹھوکر کھا گئے پھر بی بی کی دوسری حکومت کے دوران محترمہ اور صدر لغاری کے مابین چپقلش کا نواز شریف نے بیگم عابدہ کی وساطت فائدہ اٹھایا. میاں شریف نے بیگم عابدہ کی ذریعے فاروق لغاری سے عہد و پیماں کئے اور نتجیتاً کرپشن کے سنگین الزامات پر صدر نے بے نظیر حکومت برطرف کر دی اسی دور میں مسٹر ٹین پرسنٹ کی اصطلاح وجود میں آئی جو بڑھتے بڑھتے کہاں تک پہنچی شاید کوئی راوی لکھے. خیر پاکستان کی جمہوری تاریخ میں وزرائے اعظم کا گھر جانا معمول رہا ، پہلے 58 ٹو بی تھی، کبھی عدالتوں نے رخصت کیا تو کبھی عدم اعتماد.جنرل ضیا الحق کے بعد میاں شریف نے ہونہار بیٹے کا ہاتھ اس وقت کے صدر غلام اسحاق خان کے ہاتھ تھماتے ہوئے کہا کہ نواز کو اپنا بیٹا ہی سمجھیں تو نواز شریف نے بھی اپنے سیاسی استادوں کو مایوس نہ کیا کہ اس وقت اسٹیبلشمنٹ کے پاس کوئی اور چوائس بھی نہ تھی. نواز شریف پی پی پی کی مقبولیت کے آگے چٹان بن کر کھڑے ہوئے سیاسی بنیادوں پر پہلے عام انتخابات میں اگرچہ پی پی پی نے مرکز میں آئی جے آئی پر معمولی برتری حاصل کی مگر سب سے بڑے صوبے کے وزیر اعلیٰ کی حیثیت سے انہوں نے پورے عرصہ میں بے نظیر حکومت کو سکھ کا سانس نہ لینے دیا۔بے نظیر حکومت بھی اپنے منشور کے مطابق نہ تو روٹی کپڑا اور مکان کا وعدہ پورا کر سکی اور نہ کرپشن کے سلسلہ کو روک پائی. پی پی پی حکومت نواز شریف کی کوششوں سے زیادہ اپنے بوجھ سے گئی.۔ویسے بھی 80اور 90کی دہائی نواز شریف کی خوش بختی کا عرصہ رہا کہ جہاں ایک طرف انہیں جنرل حمید گل کی سرپرستی میسر آئی توحسین حقانی انکے سیاسی اتالیق ٹھہرے90کے الیکشن میں نواز شریف برسر اقتدار تو ا گیے مگر وزیر اعظم ہاﺅس کی نزاکتوں کو بھانپ نہ پائے اس زعم میں کہ وزیر اعظم ہاوس ہی طاقت کا اصل سرچشمہ ہے کے معاملہ پر خطا کھا گئے. باوجود اس کے میاں شریف نے صدر غلام اسحاق خان کو یقین دہانیاں کرائیں مگر میاں صاحب کی افتاد طبع نے ساری یقین دہانیوں پر پانی پھیر دیا۔اسی دور میں انہوں نے حکومت بذریعہ دولت اور دولت بذریعہ حکومت کا گر سیکھا اور چھانگا مانگا جیسے معروف سکینڈل وقوع پذیر ہوئے، وفاداریاں خریدنے کے ہنر نے نواز شریف کو سیاسی میدان میں خوب ترقی دی پھر اسی فن کو 2018میں جہانگیر خان ترین نے عمران خان کو وزارت عظمیٰ کے منصب تک پہنچانے کےلئے خوب استعمال کیا۔یہ تو طے ہے کہ پاکستان میں وزارت عظمیٰ جیسا اہم ترین منصب تعلیم کا محتاج ہے نہ تربیت کا، یہاں اہلیت دیکھی جاتی ہے اور نہ کردار.مقبولیت معیار اور پھر مقتدرہ کی قربت۔اسی کا فائدہ پہلے مسلم لیگ ن اٹھاتی رہی اور پھر پی ٹی آئی.ن لیگ اسٹیبلشمنٹ کے تعلق پر کبھی مشتعل نہ ہوئی مگر کھلاڑیوں کو یہ حقیقت ہضم نہیں ہوتی اور وہ ایسی بات کرنے یا لکھنے والے پر چڑھ دوڑتے ہیں اور انکی ہی نہیں بلکہ انکی قیادت کی اسی خامی نے انہیں محض چند سالوں میں اس بند گلی میں پہنچا دیا. نہ صرف کپتان ڈوبے بلکہ انکی رعونت اور غیر سیاسی رویہ نے آن کے مددگاروں کو بھی چکی کی مشقت میں ڈال دیا۔کابینہ اجلاس ہوں یا پارٹی میٹنگز ، کپتان مزاج کے خلاف بات گوارا کرتے تھے اور نہ کسی کو جرات ہوتی تھی۔اگرچہ مزاج نواز شریف کا بھی ایسا ہی، مگر پہلے ان کے والد میاں شریف معاملات سنبھالتے رہے اور بعد ازاں چوہدری نثار علی خان، راجہ ظفر الحق، مشاہد حسین سید جیسے جہاندیدہ رفقا کڑے وقت میں حکومت اور مقتدرہ کے درمیان پل کا کردار ادا کرتے رہے جبکہ عمران خان ایسی مشاورت سے محروم تھے یا پھر انکے دل و دماغ پر کسی اور کا قبضہ تھا۔یہ بھی سچ ہے کہ حد سے زیادہ مقبولیت بھی باعث زوال اور نواز شریف کیس میں بھی ایسا ہوا کہ وہ دو تہائی اکثریت کے بعد مطلق العنان بننے کے جنون میں حکومت گنوا بیٹھے۔کپتان بھی اسی جھانسے میں آ کر 2028تک کی اس لگا بیٹھے تھے۔خطا کا ہونا اچھنبا نہیں مگر اس پر ڈٹ جانا باعث زوال۔مقتدرہ سے سب کی بنتی ٹوٹتی رہی آخری بار نواز شریف کے ساتھ جو ہوا اس کا قلق انہیں اب بھی ہے جسے وہ ہر گفتگو میں مجھے کیوں نکالا کی صورت میں دہراتے ہیں۔مگر ردعمل محتاط اور حدود پار نہ کی جائیں تو راندہ درگاہ سے مقبول بارگاہ تک کا سفر چنداں مشکل نہیں. کپتان سے بھی یہی خطا ہوئی کہ زعم مقبولیت میں وہ کہہ اور کر بیٹھے کہ اب جاں خلاصی ممکن نظر نہیں آتی. اگرچہ انکے یوٹیوبرز طوطے ہر دوسرے روز کبھی انکی رہائی تو کبھی معاملات اوپر تک طے کی من گھڑت روایات بیان کر کے اپنے پیسے کھرے کرتے ہیں مگر کپتان کا حال تو اس کے مصداق کہ قید بڑھتی گئی جوں جوں دہائی دی۔نام نہاد ہی سہی جمہوریت ہر چند سال بعد الٹ پلٹ، کبھی سازشیں تو کبھی مڈبھیر کیوں ہوتی ہے اس پر سوچنے والوں نے کبھی سوچا اور عوام کا تو یہ کام ہی نہیں. یہ ہمارے نظام کی بدقسمتی ہے کہ یہاں کی ترکیب و ترتیب سیاست و حکومت نہ تو ایرانی اور نہ امریکہ کی طرز پر، کہ جہاں اہلیت، تجربہ اور فہم و فراست سے نامزدگی ہوتی ہے۔ایرانی طرز حکومت میں تو صدر کے عہدے کی نامزدگی کا معیار اور بھی کڑا کہ امیدوار کو اسلامی کردار پر پرکھا جاتا ہے اور علم کے ترازو میں تولا جاتا ہے ۔ آپ ہی بتائیے کہ نامزدگی کا اگر یہ معیار پاکستان میں ہو تو نہ صرف سارا سیاسی گند ایک ہی شق سے ختم ہو جائے بلکہ قوم کو صالح اور دیانت دار قیادت بھی میسر ہو۔میری نظر میں اقتدار کےلئے کڑا معیار ہی پاکستان کے مسائل کے حل کی پائیدار ضمانت کہ جہاں اہلیت و کردار دیکھا جائے نہ کہ مقبولیت تا کہ کوچہ جاناں سے نکلنے، نکالنے کا سلسلہ بھی تھمے۔آخر میں نواز شریف اور کپتان کی نذر یہ شعر
ہم بھی غالب کی طرح کوچہ جاناں سے اسد
نہ نکلتے تو کسی روز نکالے جاتے
خود بخود چھوڑ گئے تو چلو ٹھیک ہوا
اتنے احباب کہاں ہم سے سنبھالے جاتے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے