کالم

ترسیلات زر معیشت کا اہم ستون

ایشیائی ترقیاتی بنک نے ترسیلات زر کو پاکستانی معیشت کا اہم ستون قرار دیتے ہوئے سمندر پار پاکستانیوں کو مزید ترغیبات دینے کی سفارش کرتے ہوئے معاشی بحرانوں اتار چڑھا کے دوران ترسیلات زر پر انحصار ممکن قرار دیا ہے بنک کی رپورٹ کے مطابق پاکستانی ترسیلات قومی پیدوار کے 10فیصد کے مساوی ہیں کورونا وباءمیں ترسیلات زر 19.8فیصد اضافے سے31.1ارب ڈالر ریکارڈ کی گئیں ترسیلات زر غربت میں کمی اور زرمبادلہ بڑھانے کا کلیدی ذریعہ ہے اے ڈی بی رپورٹ میں ترسیلات زر کو بحرانوں میں ایک حفاظتی ڈھال اور پائیدار کا ممکنہ محرک قرار دیتے ہوئے کہا گیا ہے کہ ترسیلات زر کا سماجی تحفظ اور گھریلو اخراجات بر قرار رکھنے میں اہم کردار ہے1990کی دہائی اور 2007-08 کے عالمی بحران میں پاکستان کو اس کا بہت فائدہ ہوا اقوام متحدہ کی ایک رپورٹ کے مطابق دنیا بھر میں تقریبا 200 ملین لوگ بیرونی ممالک سے اپنے گھروں میں پیسے بھجواتے ہیں جس سے تقریبا 800 ملین لوگ مستفید ہوتے ہیں یہ رقوم اکثر ترقی پذیر ممالک کی اقتصادی حالت میں بہتری کےلئے انتہائی اہم سمجھی جاتی ہیں پاکستان کا شمار بھی انہی ممالک میں ہوتا ہے جہاں کے شہری ہر سال دنیا بھر سے بڑے پیمانے پر اپنے گھر والوں اور عزیز و اقارب کو اربوں ڈالر کے برابر رقوم بھجواتے ہیں دنیا بھر میں مقیم پاکستانیوں کی جانب سے ہر سال بھجوائی جانے والی یہ رقوم ملکی معیشت کےلئے ریڑھ کی ہڈی ہیں 2017سے 2022تک 5سال کے دوران بیرون ملک مقیم پاکستانیوں نے 150ارب ڈالر کی ترسیلات زر اپنے وطن بھیجیں اور 2022میں پاکستان دنیا میں ترسیلات زر بھیجنے والا پانچواں بڑا ملک قرار پایا جبکہ مالی سال 2023میں ملکی ترسیلات زر میں تقریبا 4ارب ڈالر کی کمی دیکھنے میں آئی جس کی وجہ انٹربینک( آفیشل)اور اوپن مارکیٹ(غیر آفیشل)نرخوں میں 30روپے کا بڑا فرق تھا یعنی اگر بیرون ملک سے بینکوں کے ذریعے ترسیلات زر پاکستان بھیجی جاتی تھیں تو اس وقت ڈالر کے مقابلے میں 300روپے جبکہ ہنڈی حوالہ کے ذریعے بھیجنے پر 330روپے مل رہے تھے ڈالر کے ریٹ میں اتنا بڑا فرق ایک غریب مزدور کیلئے پرکشش تھا جس کی وجہ سے بیرون ملک سے پاکستانیوں نے حوالہ اور ہنڈی کے ذریعے بھی اپنی رقوم بھیجیں جس سے آفیشل ترسیلات زر میں کمی ہوئی مگر نگراں حکومت نے کریک ڈاﺅن کرکے حوالہ ہنڈی اور ڈالر کی سٹہ بازی کو ختم کردیا جس کے باعث گزشتہ کئی مہینوں سے روپے کی قدر مستحکم اور حکومتی اقدامات کے نتیجے میں حوالہ ہنڈی کے ذریعے ترسیلات زر بھیجنے کی حوصلہ شکنی ہوئی ہے کسی ملک کے زرمبادلہ کے ذخائر 4 ذرائع سے بنتے ہیں پہلے نمبر پر ملکی ایکسپورٹس دوسرے نمبر پر ترسیلات زر تیسرے نمبر پر بیرونی سرمایہ کاری اور چوتھے نمبر پر عالمی مالیاتی اداروں کی مالی امداد۔ہمارے ملک کی برآمدات گزشتہ کئی برسوں سے 30اور 33ارب ڈالرز کے درمیان جمود کا شکار ہیں حالانکہ برآمدات میں اضافے کا بے حد پوٹینشل موجود ہے جبکہ اسٹیٹ بینک کے اقدامات کے باعث ملکی ترسیلات زر میں خاطر خواہ اضافہ ہوا ہے رواں سال جون میں ختم ہونے والے مالی سال کے دوران ملکِ عزیز کی برآمدات 30ارب 64کروڑ ڈالر رہیں اور ترسیلاتِ زر 30ارب 30کروڑ ڈالر یعنی اس وقت زرِمبادلہ کے ان دونوں بڑے وسائل کا پلڑا تقریبا برابر ہے ملک میں سیاسی عدم استحکام اور امن و امان کی صورتحال کے باعث بیرونی سرمایہ کاری نہ ہونے کے برابر ہے لہٰذا ہمیں قرضوں کی ادائیگیوں اور کرنٹ اکاﺅنٹ خسارے کو پورا کرنے کیلئے عالمی اداروں کے پاس جانا پڑ رہا ہے اور ہم آئی ایم ایف کی سخت شرائط ماننے پر مجبور ہیں جو ملک میں مہنگائی بجلی اور گیس کی قیمتوں میںاضافے اور سست معاشی گروتھ کا ذمہ دار ہے زرمبادلہ کے ذخائر اور بیرونی قرضوں کی ادائیگیوں کیلئے ہمیں ملکی برآمدات اور ترسیلات زر میں اضافے کے ساتھ بیرونی سرمایہ کاری میں اضافہ کرنا ہوگا تاکہ ہمیں آئی ایم ایف کے پاس بار بار قرضوں کیلئے نہ جانا پڑے ترسیلات زر غربت میں کمی اور زرمبادلہ بڑھانے کا کلیدی ذریعہ ہیں پالیسی اقدامات ترسیلات زر کو سرمایہ کاری میں تبدیل معیشت کی پیداواری صلاحیت معاشی ترقی کی شرح میں اضافہ کرنٹ اکانٹ خسارے کو کم کرنے میں مدد فراہم کرتی ہیں کسی ملک کی ترقی کےلئے لیبر فورس انتہائی اہم کردار ادا کرتی ہے اسکے ذریعے کئی طرح کی مصنوعات اور خدمات کے شعبوں کو استوار کیا جا سکتا ہے لیبر فورس کا معیار کاروباری و معاشی ترقی خدمات کے معیارات اور مجموعی طور پر مستحکم متحرک ترقی پر براہ راست اثر انداز ہوتا ہے ہنر مند افرادی قوت میں مسائل کو حل کرنے اور دنیا میں ہونےوالی تبدیلیوں کو موثر طریقے سے قومی فائدے میںڈھالنے کی صلاحیت ہوتی ہے یہ ملک کی ڈومیسٹک پیداوار کی ترقی میں حصہ ڈالتا ہے، ساتھ ہی غیر ملکی براہ راست سرمایہ کاری کو راغب کرنے میں بھی اہم کردار ادا کرتا ہے ڈیجیٹل اور آرٹیفیشل انٹیلی جنس سے چلنے والی ٹیکنالوجی دنیا کو تبدیل کر رہی ہیں افرادی قوت کو طلب میں نئی نئی مہارتیں سیکھنے اور مستقبل کی ملازمتوں کے مطابق خود کوڈھالنے کی ضرورت کی ضرورت ہو رہی ہے ورلڈ اکنامک فورم کی فیوچر آف جابز رپورٹ کے مطابق 2025تک تمام ملازمین میں سے 50فیصد کو ٹیکنالوجی کو اپنا نے کےساتھ دوبارہ ہنر سیکھنے کی ضرورت ہوگی تمام ملازمین کو ڈیجیٹل تبدیلی کا ساتھ دینے اور خود کو ملازمت کے قابل رکھنے کےلئے مکمل طور پر نئی ان ڈیمانڈ مہارتیں اور قابلیت حاصل کرنے کی ضرورت ہوگی۔پاکستان میں ووکیشنل تعلیم سے وابستہ ماہرین کا کہنا ہے کہ موجودہ معاشی سست روی کے دوران ہنر مندی کی ترقی ایک ناقابل تردید آپشن ہے جو پاکستان کےلئے اربوں ڈالر کی غیر ملکی ترسیلات کمانے میں مدد دے سکتا ہے ہنر ملک کی درآمدات پر منحصر صنعت کو بھی تقویت دے سکتا ہے ۔ ہنر مند افرادی قوت پاکستان کی اقتصادی ترقی کو تیز اور مقامی صنعتوں کو مضبوط کر سکتی ہے جن کا بہت زیادہ انحصار درآمد شدہ خام مال پر ہے۔حکومت اگر افرادی قوت کی برآمد بڑھانے پر توجہ دے تو پاکستانی ہنر مندوں کیلئے دنیا کے دروازے کھل سکتے ہیں۔ حکومت کو چاہئے کہ پاکستان کی افرادی قوت کو ووکیشنل ٹریننگ کے ذریعے ہنرمند بناکر بیرون ملک بھیجے تاکہ انہیں زیادہ سے زیادہ اجرتوں پر ملازمتیں مل سکیں جس سے ہماری ترسیلات زر میں مزید اضافہ ہوسکتا ہے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے