پاکستان میں انصاف کا حصول ناممکن ہے۔ اسکی وجہ عدالتی نظام کو قرار دیتے ہیں۔ درست ہے کہ ناقص انصاف کی وجہ ناقص عدالتی نظام ہے لیکن ہمیں شاید یہ نہیں پتا کہ ناقص عدالتی نظام کی اصل وجہ کیا ہے۔ عدالتی نظام کو چلانے اور انصاف کا بول بالا کرنے کا اختیار جس فرد کو دیا جاتا ہے وہ جج کہلاتا ہے اور جج کے تقرر کا طریقہ کار ہی دراصل آج کے کالم کا موضوع ہے۔ عدالتی نظام کا پہلا حصہ چھوٹی ماتحت عدلیہ یعنی سول جج کی عدالت سے لے کر ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج تک کی عدالتیں کہلاتی ہیں دوسرا حصہ ہائی کورٹ، شریعت کورٹ اور سپریم کورٹ کی عدالتوں کو اعلی عدلیہ کہا جاتا ہے۔ ماتحت عدالت کی سب سے ابتدائی سیڑھی پر قدم رکھنے والے جج قانون کی ڈگری حاصل کرنے کے بعد ایک خاص مقابلے کے امتحان اور انٹرویو وغیرہ کے مشکل عمل سے گزرتے ہیں۔ اس عمل کو کامیابی سے پاس کرنے والے امیدواروں کی میرٹ لسٹ بنتی ہے اور جج صاحبان کی خالی آسامیوں کے برابر میرٹ لسٹ کے ٹاپ کے امیدواروں کو بہت ہی اہم حساس معزز ترین پروفیشن کا حصہ بنایا جاتا ہے۔ اس میرٹ کے ذریعے بھرتی ہونے والے جج صاحبان ترقی کرتے ہوئے ماتحت عدالت کی سب سے آخری سیڑھی یعنی ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج تک پہنچتے ہوئے ریٹائرمنٹ کو پہنچ جاتے ہیں۔ گویا ماتحت عدالتوں میں جج کی حیثیت سے بھرتی ہونے کےلئے کسی قسم کی اثرورسوخ والی سفارش یا لابنگ کی ضرورت نہیں ہوتی بلکہ مقابلے کا امتحان دے کر میرٹ پر اترنا شرط ہوتی ہے ۔ ہائی کورٹ میں بھرتی ہونے والے ججوں کے طریقہ کار سے عدلیہ کے معاملات میں خرابی کی ابتدا ہوتی ہے۔ ہائی کورٹ کا جج بننے کے لئے کسی مقابلے کا امتحان دے کر میرٹ پر اترنا ضروری نہیں آئین کے آرٹیکل 193 میں ہائی کورٹ کا جج بننے کے لیے سطحی سی شرائط ہیں۔ ہائی کورٹ کے جج کا امیدوار پاکستان کا شہری ہو، عمرکی کم سے کم حد 45سال ہو کم سے کم دس سال تک ہائی کورٹ میں وکالت کا تجربہ ہو کم سے کم 3 سال تک ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج کے عہدے پر فائز رہا ہو یا کم سے کم 10سال تک جوڈیشل آفس میں کام کرچکا ہو۔ دیکھا جائے تو پاکستان میں درمیانی عمر کے تقریبا ًسب وکیل ان شرائط پر کسی نہ کسی طریقے سے پورے اترتے ہیں۔ سوال ہے کہ وہ کون سی اہلیت ہے جو اِن ہزاروں وکلا میں سے چند کو ہائی کورٹ کا جج بنا دیتی ہے؟ وہ اہلیت سیاسی اثرورسوخ یا لابنگ ہے۔ہائی کورٹ میں مقرر کئے جانے والے ججوں کی اکثریت کی پشت پناہی مختلف سیاسی جماعتیں اسٹیبلشمنٹ بااختیار شخصیات کرتی ہیں۔ منطقی غور کیا جائے اگر کوئی سیاسی جماعت یا بااختیار شخصیت کسی وکیل کو ہائی کورٹ کا جج بنوانے میں مدد کرے گی تو وہ اپنا مفاد بھی حاصل کرے گی ۔ یہ تقرری دودھاری تلوار ثابت ہوگی۔ جو بااثر افراد یا سیاسی جماعت اپنا جج ہائی کورٹ میں لگوائے گی وہ اس سے مستقل فائدے اٹھاتی رہے گی۔ دوسری طرف وہی جج بہتی گنگا میں ہاتھ دھوئیں گے اور اپنے ذاتی مفادات بھی پورے کرتے رہیں گے اور یہی دودھاری تلوار پاکستان میں انصاف کے نظام کا سرقلم کرتی ہے۔ سوال ہے کہ ہائی کورٹ کے جج بنانے کےلئے مقابلے کے امتحانات کیوں نہیں ہوتے؟ اور نہ ہی انکی تقرری کے بعد انکی ریٹائرمنٹ تک کسی قسم کے ریفریشر کورسز کرائے جاتے ہیں اور نہ ہی انکی کارکردگی کے مطابق انکی ترقی یا تنزلی کی جاتی ہے بلکہ جب وہ ہائی کورٹ میں جج تعینات ہو جاتے ہیں تو انکی ترقی انکی تعیناتی کی تاریخ سے ہی شروع ہوتی ہے۔ بعدازاں انہی ہائی کورٹ کے ججوں میں سے سپریم کورٹ کے جج منتخب کرلئے جاتے ہیں۔ یعنی ہائی کورٹ اور سپریم کورٹ کے ججوں کی تعیناتی میں کسی قسم کے میرٹ کے بجائے سفارش اور لابنگ کا تعلق ہوتا ہے۔ اب اگر ہائی کورٹ میں ججوں کی تعیناتی کے طریقہ کار کو بدل دیا جائے اور اسکی جگہ وہی طریقہ کار اپنایا جائے جو فوج میں کمیشن حاصل کرنے والے افسر یا سول سروس جوائن کرنے والے افسر کےلئے اپنایا جاتا ہے تو معاملات میں بہت زیادہ سدھار پیدا ہوسکتا ہے۔ قانون کی ڈگری حاصل کرنے کے بعد جو نوجوان سول جج کے طور پر بھرتی ہوں وہی ترقی کرتے ہوئے ہائی کورٹ اور بعدازاں سپریم کورٹ کے جج بنیں۔ نہ کہ انہیں رگڑ رگڑ کر ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج پر ریٹائر کردیا جائے۔ یہ طریقہ کار ویسا ہی ہے جیسے فوج میں کمیشن حاصل کرنے والا ایک سیکنڈ لیفٹیننٹ چیف آف آرمی سٹاف کے عہدے تک ترقی کرسکتا ہے اور سول سروس جوائن کرنے والے گریڈ17کے افسر گریڈ22تک ترقی کرسکتے ہیں۔ ہائی کورٹ میں ججوں کی تعیناتی کے موجودہ طریقہ کار کی حمایت کرنے والوں کی یہ دلیل کہ وکیل کے پاس مختلف مقدمات کا تجربہ ہوتا ہے اس لیے وہ ہائی کورٹ کا اچھا جج بن سکتا ہے کتنی مضحکہ خیز ہے کیونکہ ہمارے ہاں جتنے اکثر مقدمات چلتے ہیں وہ ماتحت عدالتوں سے ہی اوپر جاتے ہیں۔ اس لحاظ سے ماتحت عدالتوں میں مقدمات نمٹانے والے جج زیادہ تجربہ کار ہوتے ہیں اور انکا کسی سیاسی جوڑتوڑ سے بھی عموما تعلق نہیں ہوتا جبکہ ہائی کورٹ اور سپریم کورٹ کے جج صاحبان کی سیاسی پسند ناپسند سب پر عیاں ہوتی ہے جسکا ثبوت سابقہ اور حالیہ برسوں میں ہونےوالے سیاسی واقعات ، مقدمات اور انکے فیصلے ہیں۔ ہائی کورٹ اور سپریم کورٹ کے ججوں کا اپنی پسند ناپسند کو انصاف کا درجہ دینا انصاف کے نظام کا گلا گھونٹنے کے مترادف ہے۔ ہائی کورٹ کے جج صاحبان کی تقرری کا طریقہ کار جب تک نہیں بدلا جائے گا اس وقت تک انصاف کے نظام سے امید رکھنا بالکل بیکار ہے۔ سوال ہے کہ اگر ایک سیکنڈ لیفٹیننٹ چیف آف آرمی سٹاف کے عہدے تک پہنچ سکتا ہے یا ایک گریڈ17کا سول سرونٹ گریڈ22کے عہدے تک پہنچ سکتا ہے تو ایک سول جج سیشن جج بننے تک ریٹائر کیوں ہو جاتا ہے؟ عدالتی نظام کے ملازمتی ڈھانچے میں ایسی تبدیلی کی جائے کہ سول جج ترقی کرتے ہوئے ہائی کورٹ اور سپریم کورٹ کے جج بنیں اور فوج اور سول سروس کے ملازمتی ڈھانچے کی طرح کسی فرد کو بھی درمیان میں جج نہ بنایا جائے۔