کالم

بھارت کا جنگی جنون

بھارت نے جوہری توانائی سے چلنے والی دو حملہ آور آبدوزوں کی خریداری کے لیے 5 ارب 40 کروڑ ڈالر کی منظوری دے دی۔ بھارت کے دفاعی حکام کا کہنا ہے کہ بحر ہند میں چین کی بڑھتی ہوئی موجودگی کے پیش نظر اپنی فوج کو جدید بنانے کے لیے کوشاں ہیں، وزیر اعظم نریندر مودی کی کابینہ نے ابتدائی طور پر 2 جوہری حملہ آور آبدوزوں کو بھارتی بحریہ میں شامل کرنے کی منظوری دی ہے۔خیال رہے کہ جوہری طاقت سے چلنے والی حملہ آور آبدوزیں دنیا کے سب سے طاقتور بحری ہتھیاروں میں شمار ہوتی ہیں۔ جوہری طاقت سے چلنے والی حملہ آور آبدوزیں چین، فرانس، روس اور امریکہ ہی بناتے ہیں۔ماضی میں بھارت نے جوہری طاقت سے چلنے والی 2 حملہ آور آبدوزیں روس سے لیز پر لی تھیں۔ لیکن انہیں واپس کرنے کے بعد سے دوسری لیز پر لینے کے لیے اس کے ساتھ بات چیت کر رہا ہے۔ دفاعی عہدیداروں نے تصدیق کی کہ منصوبے پر 5 ارب سے زائد کی لاگت آئے گی۔ واضح رہے کہ چین دنیا کی سب سے بڑی بحری قوت ہے جس کے پاس 370 سے زیادہ بحری جہاز ہیں۔ بھارت اسے اپنی سلامتی کے لیے تشویش کا باعث سمجھتا ہے۔ 2020 میں ان کے ہمالیہ کی سرحد کے ساتھ جھڑپوں میں 24 فوجیوں کی ہلاکت کے بعد تعلقات خراب ہو گئے تھے۔روایتی ڈیزل سے چلنے والے کرافٹ کے مقابلے میں تیز جوہری آبدوز پرسکون اور پانی کے اندر زیادہ دیر تک قیام کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے۔ جس کی وجہ سے ان کا پتہ لگانا زیادہ مشکل ہوتا ہے۔جوہری طاقت سے چلنے والی حملہ آور آبدوزیں دنیا کے سب سے طاقتور بحری ہتھیاروں میں شمار ہوتی ہیں۔ جوہری طاقت سے چلنے والی حملہ آور آبدوزیں چین، فرانس، روس اور امریکہ ہی بناتے ہیں۔ بھارتی فوج نے اگلے پانچ سال کے لئے270کھرب روپے مانگ لیے۔ فوج اپنا بجٹ جی ڈی پی کا چھپن اعشاریہ ایک فیصدسے بڑھاکرکم سے کم2 فیصد کرناچاہتی ہے۔پانچ سالہ منصوبہ یونیفائڈ کمانڈرز کانفرنس میں پیش کردیاگیا۔ بجٹ میں 270 کھرب روپے اضافے کامطالبہ کیا گیا ہے ۔ پاکستان اورچین کے مشترکہ خطرے سے نمٹنے کے لیے یہ رقم درکارہے۔بیرونی ممالک سے جنگی ساز و سامان خریدنے میں عالمی سطح پربھارت اس وقت اول نمبر پر ہے اور دفاعی ماہرین کا کہنا ہے کہ مستقبل میں اسے کے دفاعی اخراجات میں مزید اضافے کا امکان ہے۔ بحریہ، فضائیہ اور بری فوج کے لیے جدید ترین ہتھیار اور ساز و سامان کی خریداری اس کی مجبوری بھی ہے۔بھارت کی سٹریٹیجک صورت حال یہ ہے کہ ایک طرف تو چین ہے، جس سے 62 میں جنگ ہوئی۔ اس کے ساتھ سرحدی اختلافات ہیں اور اس کی ایک اپنی تاریخ ہے۔ دوسری جانب پاکستان ہے جس کے ساتھ چار جنگیں ہو چکی ہیں۔ تو اس پس منظر میں اسے کئی طرح کے چیلینجز اور مسائل کا سامنا ہے۔ مستقبل میںبھارت کے دفاعی اخراجات میں اور اضافے کا امکان ہے اور جلد ہی یہ 50 ارب ڈالر تک پہنچ جائے گا۔ بھارت کا دفاعی بجٹ پاک فوج کے بجٹ سے 6 گنا زیادہ ہے ۔پاک فوج کے سپائی پر سالانہ 8077 ڈالرجبکہ بھارتی فوجی پر 17554 ڈالر خرچ ہوتا ہے ۔ 2001 سے 2014-15 تک بھارت کے دفاعی بجٹ میں 11.8 بلین ڈالر سے 38.35 ارب ڈالر تک اضافہ ہواجو دنیا کے تمام ممالک کے دفاعی بجٹ کی شرح میں سب سے زیادہ اضافہ ہے۔جبکہ اسکے مقابلے میں پاکستان کا دفاعی بجٹ 3.25 ارب ڈالرہے۔بھارتی فوج کے ترقیاتی اخراجات بجٹ کا 20 فیصد ہیں اس کا مطلب ہے کہ بھارتی فوج کے صرف ترقیاتی اخراجات پاک فوج کے پورے بجٹ سے زیادہ ہیں جس کے باعث وہ زیادہ سے زیادہ جدید ترین ہتھیار اور جنگی آلات خرید سکتا ہے۔بھارت نے پچھلے 5 سالوں میں پاکستان اور چین کے مقابلے میں 3 گنا زیادہ اسلحہ خریدا۔ 08۔2004 کے درمیان بھارت دوسرے نمبر پر تھا جبکہ پہلے نمبر پر چین تھا۔ تاہم 13۔2009 کے درمیان بھارت ہتھیاروں کی درآمد میں پہلے نمبر پر چلا گیا۔ 13۔2009 کے دوران بھارت نے 75 فیصد ہتھیار روس، سات فیصد امریکہ اور چھ فیصد ہتھیار اسرائیل سے خریدے ہیں۔ 2015ء میں اسلحہ کی خریداری پر 735 ملین ڈالر خرچ کئے اس طرح پاکستان زیادہ اسلحہ درآمد کرنےوالے ممالک میں 10 ویں نمبر آ گیا۔ پاکستان کا انتہائی کم اور بھارت کا بڑھتا ہوا دفاع بجٹ اقوام عالم کیلئے لمحہ فکریہ ہونا چاہیے کیونکہ دونوں ملکوں کے دفاعی میزانیہ کے درمیان بڑھتا ہوا ہر فرق اس خطہ میںایٹمی ہتھیاروں کے حد استعمال کو مزید کم کر دیتا ہے۔پاکستان کی تمام دفاعی تیاریاں بھارت سے لاحق خطرات کے پیش نظر کی جاتی ہیں چنانچہ پاک بھارت دفاعی بجٹ کا موازنہ بھی لازمی ہوتا ہے۔معیشت کی کمزوری کے باعث وقت کے ساتھ پاکستان کا دفاع بجٹ کم ہوا ہے تو بھارتی معیشت میں مسلسل ترقی کے باعث اس کے دفاعی بجٹ میں مسلسل اور غیر معمولی اضافے کئے گئے۔ اگر 2001 میں بھارت کا دفاعی بجٹ 11.8 ارب ڈالر تھا تو 2014/15 میں اسکا دفاعی بجٹ 38.35 ارب ڈالر کی حد تک پہنچ چکا تھا۔ یوں پاکستان کے دفاعی بجٹ کا حجم پندرہ برس پہلے کے بھارتی دفاع بجٹ سے بھی کم ہے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے