78 سالہ ڈونلڈ ٹرمپ دوسری مدت کے لیے انتخابات کا بھاری معرکہ جیت کرامریکا کے 47ویں صدر بن گئے ہیں۔ٹرمپ جن کی مہم آزمائش کی ایک عظیم ترکیب تھی نے نہ صرف الیکٹورل کالج کے 270اہم ووٹ حاصل کرکے سیاسی پنڈتوں کو حیران کر دیا بلکہ سینیٹ میں بھی میدان مار لیا۔ پاکستان سمیت دنیا بھر کے رہنماو¿ں کی جانب سے مبارکباد کے پیغامات دیے جا رہے ہیں،جس سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ عالمی برادری اب ٹرمپ کی صدارت سے ڈیل کرنے کی تیاری مصروف ہو گئی ہے ۔نو منتخب امریکی صدر نے وکٹری اسپیچ کرتے ہوئے اپنے ووٹرز اور حامیوں کا شکریہ ادا کیا اور کہا کہ میں کوئی نئی جنگ شروع نہیں کروں گا بلکہ جاری جنگوں کو روکوں گا ، ریاست فلوریڈا میں اپنے انتخابی ہیڈ کوارٹر میں خطاب کرتے ہوئے ڈونلڈ ٹرمپ نے کہا کہ وہ سب سے پہلے امریکا کی پالیسی پر عمل پیرا رہیں گے ، امریکا کو پھر سے عظیم تر بنائیں گے۔ ان کا کہنا تھا کہ سرحدوں کو سیل کرنا پڑے گا، ہم چاہتے ہیں کہ لوگ قانونی طریقے سے امریکا آئیں، امریکا کو محفوظ بنائیں گے۔انہوں نے کہا کہ کئی لوگوں نے مجھے کہا کہ خدا نے کسی مقصد کے لئے میری زندگی بچائی اور وہ مقصد اپنے ملک کو بچانا تھا اور امریکا کے وقار کو بحال کرنا تھا اور اب ہم مل کر اس مقصد کو پورا کرنے جا رہے ہیں۔امریکی میڈیا کے مطابق کملا ہیرس نے شکست تسلیم کرلی ہے،کملا ہیرس نے ڈونلڈ ٹرمپ کو فون کرکے انہیں مبارکباد بھی پیش کی ہے ، انہوں نے ہاورڈ یونیورسٹی میں اپنے حامیوں سے خطاب بھی کیا ۔ امریکی صدر جوبائیڈن نے بھی ٹرمپ کو مبارکباد پیش کی اور انہیں ملاقات کی دعوت بھی دی ، انہوں نے اقتدار کی پرامن منتقلی کے عمل کو یقینی بنانے کے عزم کا اظہار بھی کیا ۔ ڈونلڈ ٹرمپ کا کہنا تھا کہ میرے حامیوں نے بہترین انتخابی مہم چلائی، ہم نے سینیٹ کے لیے شاندار مہم چلائی، ہم نے سینیٹ کا کنٹرول واپس حاصل کرلیا، یہ امریکا کی سیاسی کامیابی ہے، میری فتح جمہوریت کی بھی فتح ہے، جن لوگوں نے میرا ساتھ دیا، میں ان کا بھرپور شکریہ ادا کرتا ہوں، دنیا کی مختلف قوموں سے تعلق رکھنے والے امریکیوں نے ہمارا ساتھ دیا، ایک بار پھر اعتماد کرنے پر امریکی عوام کا شکریہ ادا کرتا ہوں۔ومنتخب صدر نے کہا کہ مخالفین نے کہا کہ آپ جنگ شروع کروگے، میں نے کہا کہ میں کوئی جنگ شروع نہیں کروں گا بلکہ جنگ کو روکوں گا۔ ٹرمپ کے بہت سے سیاسی نظریات سے اختلاف کیا جاسکتا ہے لیکن یہ بات تسلیم کرنا ہوگی کہ امریکی صدارت کے سب سے طاقت ور عہدے پر ڈونلڈ ٹرمپ کی واپسی بہترین انداز میں ہوئی ہے۔حقیقت میںڈیموکریٹک پارٹی یہ سمجھنے سے قاصر رہی کہ وہ کیا وجوہات ہیں جن کی بنا پر ٹرمپ کی مقبولیت میں اضافہ ہوا اور عوام کیوں اتنی بڑی تعداد مرکزی دھارے کے سیاستدانوں سے خائف ہوئے ۔دراصل جو بائیڈن انتظامیہ نے غزہ اور لبنان میں اسرائیل کی نسل کشی کی مہمات کی غیرمشروط اور مضبوط حمایت کی جس نے مسلم امریکی شہریوں کو سوچنے پر مجبور کیا۔ امریکہ اہم ریاستوںمیں مسلم امریکیوں کی قابلِ ذکر ووٹرز تعداد ہے۔ ان ریاستوں میں بہت سے رائے دہندگان نے ٹرمپ کو اس لیے ووٹ نہیں دیا کیونکہ وہ ری پبلکنز پارٹی سے تعلق رکھتے ہیں بلکہ انہوں نے جو بائیڈن اور نائب صدر کاملا ہیرس کو اسرائیل کی کھلی حمایت کی سزا دینے کا فیصلہ کیا۔ڈونلڈ ٹرمپ کی قابل ذکر غیر معمولی واپسی نے امریکی سیاسی تاریخ میں ایک نیارخ موڑ دیا ہے۔ مارٹن لوتھر کنگ جونیئر کی طرح، ٹرمپ کے پاس بھی اپنے ناقدین کو پیچھے چھوڑنے کاایک منصوبہ تھاوہ ہراس معاملے پر آواز اٹھا رہے تھے جہاں امریکہ جیسا قدامت پسندمعاشرہ خاموش رہنے کاانتخاب کر سکتا ہے اس نے روس اور ولادیمیر پوتن پر تنقید کرنے سے انکار کر دیا۔ یوکرین میں ایک ناپسندیدہ جنگ کے خاتمے اور اسرائیل کی غزہ جارحیت پر ایک دن قرار دے کر مشرق وسطیٰ میں امن قائم کرنے کا اشارہ دیا۔نیویارک میں پیدا ہونے والے انتہائی امیر ٹرمپ جب اسقاط حمل اور امیگریشن جیسے مسائل کی بات کرتے ہیں تووہ بالکل غیر امریکی ہیں۔ اسی طرح ان کی صدارت بیجنگ کے ساتھ کچھ بدامنی دیکھے گی کیونکہ اس نے چین کی سب سے زیادہ پسندیدہ قوم کی تجارتی حیثیت کو منسوخ کرنے کا عزم کیا ہے، جس کے نتیجے میں بہت سی چینی درآمدات پر ٹیرف کی شرح میں اضافہ ہوگا، اور توانائی اور انفراسٹرکچر میں غیر ملکیوں کی سرمایہ کاری کو روکا جائے گا۔جان ایف کینیڈی کے بعد دوسرے نان اسٹیبلشمنٹ صدر کے پاس امریکہ کی خارجہ پالیسی کو دوبارہ لکھنے کاچیلنج ہے کیونکہ دنیا کثیرالجہتی کی طرف بڑھ رہی ہے۔ غیر ملکی رہنما¶ں کے ساتھ فوری فیصلہ سازی کی طرف اس کا رجحان ایک چیلنج کاسامنا کرے گا کیونکہ وہ گلوبل سا¶تھ اور صنعتی مغرب کے ساتھ واحد سپر پاور کی ترجیحات کو دوبارہ بیان کرتا ہے۔ایک عقلمند شخص یہ توقع کر سکتا ہے کہ اس طرح کی زبردست شکست ڈیموکریٹک پارٹی کے اندر عکاسی کرے گی ان کے لیے ایک موقع ہے کہ وہ اپنی پالیسیوں اور انتخابات کے لیے اپنے نقطہ نظر کااز سر نو جائزہ لیں۔ انہیں انتخابات اور افراد کی طرف سے لاتعداد بار متنبہ کیا گیا تھا کہ نسل کشی کے لیے ان کی بے جا حمایت اور کیمپس کےاحتجاج پر ظالمانہ آمرانہ کریک ڈا¶ن صرف غیر مقبولیت میں اضافہ کرے گا۔ بہت سے حلقوں میں ٹرمپ کی واپسی سے متعلق پائے جانے والے ابہام جنوری تک ختم ہوجائیں گے اور انہیں اپنے وعدوں کو پورا کرنا ہوگا جو انہوں نے امریکہ عظیم بنانے کے کر رکھے ہیں۔ امریکا میں انہیں مہنگائی کم کرنے اور مینوفیکچرنگ شعبے میں ملازمتوں کو واپس امریکا میں لانے کے لیے مضبوط منصوبے بنانا ہوں گے۔ لیکن دنیا کے لیے ان کا سب سے بڑا امتحان مشرقی وسطی ٰاور یوکرین میں جنگ کا خاتمہ ہے۔ ٹرمپ یہ دعوی کرچکے ہیں کہ وہ یوکرین تنازع 24 گھنٹوں میں ختم کرسکتے ہیں اور انہوں نے یوکرینی صدر کو سیلزمین کہا جس نے یہ اشارہ دیا کہ امریکا کی جلد ہی کیف کو ڈالرز کی امداد بند کی جاسکتی ہے۔امریکی صدر جوبائیڈن نے بھی ٹرمپ کو مبارکباد پیش کی اور انہیں ملاقات کی دعوت بھی دی ، انہوں نے اقتدار کی پرامن منتقلی کے عمل کو یقینی بنانے کے عزم کا اظہار بھی کیا ۔
خطرناک سموگ
پنجاب بھر میں سموگ مسلسل لوگوں کے گلے اور پھیپھڑے بند کر رہی ہے، خطرناک حد تک اس حد تک پہنچ گئی ہے جس کی دنیا میں مثال کہیں نظر نہیں آتی، صوبائی حکومت نے طلبہ کے تحفظ اور سموگ کی مقدار کو کم کرنے کی کوشش میں 10 دن کے لیے تعلیمی ادارے بند رکھنے کا فیصلہ کیا ہے۔ پیدا کیا تاہم، یہ اقدام بالآخر نقصان پر قابو پانے کا معاملہ ہے۔ اس سال زیادہ مضبوط انسداد سموگ مہم کے باوجود حکومت سموگ کی بنیادی وجوہات سے نمٹنے میں مکمل طور پر کامیاب نہیں ہو سکی۔کسان کبھی کبھی موٹر وے جیسی بڑی شاہراہوں کے قریب ہو کر بھوسا جلاتے رہتے ہیں، جب کہ فیکٹریاں اور پرانی گاڑیاں جو بڑی مقدار میں دھواں خارج کرتی ہیں اب بھی سڑکوں کو بند کر دیتی ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ حکومت کے پاس اس طرح کی پابندی کو م¶ثر طریقے سے نافذ کرنے کے لیے افرادی قوت کی کمی ہے، اور اسموگ پیدا کرنے والی سرگرمیوں کو تبدیل کرنے کےلیے کوئی قابل عمل متبادل پیش نہیں کیا گیا ہے۔اس بحران کا سامنا کرنے کے بعد، حکومت اب تسلیم کرتی ہے کہ سموگ سے نمٹنے کے لیے محض عارضی پابندیاں لگانے سے کہیں زیادہ محنت کی ضرورت ہے۔ اگلے سال کو دیکھتے ہوئے اسے سموگ کو کم کرنے کے لیے فعال اقدامات اور طویل مدتی حل پر توجہ دینی چاہیے۔اس دوران، تعلیمی اداروں کو بند کرنا ایک سٹاپ گیپ اقدام ہے جو مسئلہ کو حل نہ کرتے ہوئے، کچھ تحفظ فراہم کرتا ہے۔ بچوں کو گھر کے اندر رکھنا، اس سموگ سے دور رکھنا جو بصورت دیگر باہر کھیلتے ہوئے ان کا سامنا کرنا پڑتا ہے، صحت کے خطرات کو کم کرنے کاایک م¶ثر طریقہ ہے۔ مزید برآں، سڑکوں پر کاروں کی تعداد کو کم کرنا جن میں سے اکثر بچوں کو اسکول لے جاتے ہیں اور ٹریفک کی بھیڑ میں بہت زیادہ حصہ ڈالتے ہیں شہری علاقوں میں سموگ کی مقدار کو کم کرنے میں مدد ملے گی۔COVID-19 لاک ڈا¶ن کے دوران ریموٹ لرننگ کی کامیابی کو دیکھتے ہوئے، اسکول سموگ سیزن کے دوران فاصلاتی تعلیم کو ایک قابل عمل آپشن کے طور پر نافذ کرنے پر غور کر سکتے ہیں۔
اداریہ
کالم
ڈونلڈ ٹرمپ کی واپسی
- by web desk
- نومبر 8, 2024
- 0 Comments
- Less than a minute
- 9 Views
- 3 گھنٹے ago