اداریہ کالم

وزیر اعظم شہباز شریف کا 29ویں کلائمیٹ کانفرنس سے خطاب

وزیر اعظم شہباز شریف جو” باکو“ میں ہونے والی موسمیاتی تبدیلی کے تدارک کے حوالے سے منعقدہ کانفرنس میں شریک ہیں،نے عالمی برادری سے موسمیاتی تبدیلی سے نمٹنے کےلئے اقوام متحدہ کے فریم ورک کے مطابق خصوصی فنڈز مختص کرنے کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ موسمیاتی تبدیلی کے چیلنج سے نمٹنے کےلئے ترقی پذیرممالک کو 2030 تک 6.8ہزار ارب ڈالر کی ضرورت ہے، موسمیاتی سرمائے میں قرضوں کو ایک نیا قابل قبول معمول نہیں بننا چاہیے۔ کانفرنس کے موقع پر پاکستان کی میزبانی میں کلائمیٹ فنانس گول میز مذاکرے سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے کہاکہ ہم ایک اہم موڑ پر کھڑے ہیں جہاں کمزور ممالک کی ضروریات کو موثر طریقے سے پورا کرنے کےلئے عالمی موسمیاتی مالیاتی فریم ورک کو از سر نو تشکیل دیا جانا چاہیے۔آذربائیجان کے دارالحکومت باکو میں موسمیاتی تبدیلی کے تدارک کےلئے کانفرنس جاری ہے۔ دو ہفتے تک جاری رہنے والی اس کانفرنس میں پاکستان سمیت 80 ممالک کے سربراہان شریک ہیں۔ اجلاس میں امریکہ، چین اور برازیل کے صدور شریک نہیں ہوئے ہیں۔ کانفرنس کا مقصد موسمیاتی تبدیلی سے نمٹنا ہے۔کانفرنس آف پارٹیز کے 29ویں کلائمیٹ ایکشن سربراہی اجلاس میں شریک عالمی رہنماو¿ں کے گروپ فوٹو سیشن میں وزیراعظم محمد شہباز شریف صف اول میں موجود تھے۔ اس فوٹو سیشن میں ترک صدر رجب طیب اردوان ، آذربائیجان کے صدر الہام علیوف ، اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل انتونیو گوتریس سمیت سربراہی اجلاس میں شرکت کےلئے آئے ہوئے کئی عالمی رہنماو¿ں نے شرکت کی۔ ترک صدر رجب طیب اردوان سیشن کے لئے پہنچے تو وزیراعظم محمد شہبازشریف نے آگے بڑھ کر ان کا استقبال کیا، اس موقع پر وزیراعظم کی متعدد عالمی رہنماو¿ں کے ساتھ غیر رسمی بات چیت بھی ہوئی۔ قبل ازیں وزیراعظم سربراہی اجلاس میں شرکت کےلئے پہنچے تو اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل انتونیوگوتریس اور آذر بائیجان کے صدر الہام علیوف نے ان کا پرتپاک استقبال کیا۔ وزیراعظم شہباز شریف کوپ 29 سمٹ سے 13 نومبر کو خطاب کیا۔ کانفرنس آف دی پارٹیز کا 29واں اجلاس 22نومبر تک جاری رہے گا جس میں کاربن گیسوں کے اخراج میں کمی اور گلوبل وارمنگ سے نمٹنے کے طریقہ کار اور اس مقصد کیلئے مالی وسائل کی فراہمی پر بات چیت کی جائے گی۔کوپ 29 کانفرنس کے موقع پر امریکی مندوب جان پوڈیسٹا نے ڈونلڈ ٹرمپ کی واپسی کے باجود موسمیاتی تبدیلی سے متعلق کام جاری رکھنے کے عزم کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ٹرمپ فوسل فیول سے دیگر توانائی ذرائع پر منتقلی آہستہ توکرسکتے ہیں مگر روک نہیں سکتے۔کانفرنس میں یو این کلائمیٹ چیف کاکہنا تھا کہ موسمیاتی تبدیلی کے مسائل سے نمٹنے کےلئے فنڈنگ عطیہ ہے، موسمیاتی مالیاتی ہدف مکمل طور پر ہر قوم کے مفاد میں ہے، انڈونیشین مندوب نے کوپ 29 میں بتایا کہ ان کا ملک آئندہ 15سال میں 75گیگاواٹ قابل تجدید توانائی پیدا کرےگا۔ ٹرمپ نے پہلی مدت صدارت میں موسمیاتی تبدیلی پرپیرس معاہدے سے دستبرداری کا اعلان کیا تھا مگربعد میں صدر جوبائیڈن نے اپریل 2021 میں پیرس معاہدے میں دوبارہ شمولیت اختیارکی تھی۔ رپورٹس کے مطابق آذربائیجان نے اجلاس میں کلائمیٹ فنانس ایکشن فنڈ کے قیام کی تجویز پیش کی جسکے تحت10 ممالک سے ایک ارب ڈالررضاکارانہ فنڈ اکٹھا کیا جائیگا، آذربائیجان نے افغان موسمیاتی ایجنسی کوبطور مبصر اجلاس میں بلایا ہے ۔ گزشتہ سال دبئی میں ہونے والے کوپ 28 اجلاس میں ممالک نے پہلی بار توانائی کے نظام میں معدنی ایندھن سے دور ی اختیار کرنے پر اتفاق کیا تھا۔ تاہم اسکے بعد سے معدنی ایندھن کے استعمال اور برآمدی فروخت دونوں میں عالمی سطح پر اضافہ جاری ہے، جبکہ آذربائیجان، امریکہ، نمیبیا اور گیانا جیسے ممالک میں تیل اور گیس کی پیداوار کےلئے نئے علاقوں کی منظوری دی گئی ہے۔اقوام متحدہ کے ذیلی ادارے یونائیٹڈ نیشنز فریم ورک کنونشن آن کلائمٹ چینج کے زیر انتظام کانفرنس آف پارٹیز کوپ 29 رواں ماہ 22منومبر تک جا رہی گی۔ اس سال کی کانفرنس کے بنیادی مقاصد میں کلائمٹ فنانسنگ کے وعدوں کی تکمیل کو یقینی بنانے کےساتھ ساتھ ترقی یافتہ ممالک کی جانب سے ٹھوس شراکت اور جوابدہی پر زور دینا ہے۔ علاوہ ازیں موسمیاتی تبدیلیوں سے پیدا ہونے والے مسائل کا مقامی حل تلاش کرکے اس پر عملدرآمدکیلئے علاقائی اور عالمی شراکت داری کو فروغ دینا بھی کانفرنس کے بنیادی مقاصد میں شامل ہے۔ وفاقی وزارت موسمیاتی تبدیلی کے مطابق اس کانفرنس کے دوران پاکستان کلائمیٹ فنانسنگ کے وعدوں کی تکمیل پر توجہ مرکوز کرے گا۔ اس سلسلے میں ماضی کی یقین دہانیوں پر بھی بات کی جائے گی تاکہ موسمیاتی تبدیلیوں کے چیلنجز سے نمٹا جا سکے۔ گلوبل وارمنگ اور موسمیاتی تبدیلیوں کے چیلنج سے نمٹنے کیلئے اس کانفرنس سے قبل عالمی سطح پر قائم گرین کلائمٹ فنڈ اپنے مقررہ اہداف حاصل کرنے میں ناکام رہا ہے۔اس ضمن میں پچھلے چار سال کے دوران ہونے والی تمام کانفرنسز میں کاربن کے اخراج کے ذمہ دار ممالک کی طرف سے بڑے بڑے دعوﺅں کے باوجود صرف 61.5ارب ڈالرز جمع ہوئے جس میں سے پاکستان کو صرف 25کروڑ ڈالر ملے ہیں۔ اس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ ذمہ دار ترقی یافتہ ممالک کی یقین دہانیوں کے باوجود فنڈز کی عدم فراہمی موسمیاتی تبدیلیوں سے متاثرہ پاکستان جیسے ممالک کو فنانسنگ کی راہ میں بڑی رکاوٹ ہے۔ ان چیلنجز کو مدنظر رکھتے ہوئے رواں سمٹ میں فنانسنگ کے حوالے سے اہداف کے حصول کے تعین کیلئے ڈیویلپمنٹ پارٹنرز کو اپنے وعدے پورے کرنے کا احساس دلانے کی ضرورت ہے۔ عالمی ادارے ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل کی ایک رپورٹ میں اس بات کی نشاندہی کی گئی ہے کہ موسمیاتی تبدیلیوں سے پاکستان کو سالانہ 4ارب ڈالر کے نقصان کا سامنا ہے جبکہ عالمی کاربن کے اخراج میں پاکستان کا حصہ ایک فیصد سے بھی کم ہے اسکے باوجود پاکستان کو موسمیاتی آفات کے سنگین نتائج کا سامنا ہے۔
بھارتی انکار،پاکستان کادوٹوک موقف
بھارت کے چمپئنز ٹرافی کےلئے پاکستان نہ آنے کے معاملے پر پاکستان کرکٹ بورڈنے حکومتی ہدایت پر آئی سی سی کو خط لکھ دیا۔ پی سی بی نے بھارتی کرکٹ بورڈ کی جانب سے پاکستان میں چمپئنز ٹرافی کھیلنے پر انکار کے حوالے سے پاکستانی حکومت کے سخت موقف سے آگاہ کیا۔ حکومت نے بھارتی ٹیم کے پاکستان نہ آنے کی ٹھوس وجوہات بھی پوچھ لیں۔ دیگر ٹیمیں پاکستان آسکتی ہیں تو بھارت کو کیا مسئلہ ہے۔پی سی بی نے خط میں واضح کیا ہے کہ چمپئنز ٹرافی پاکستان میں ہی ہوگی، ہائبرڈ ماڈل قبول نہیں، بھارت کے بغیر بھی پاکستان چمپئنز ٹرافی کرواسکتے ہیں، بھارت کی جگہ کوئی اور ٹیم کو بھی بلوایا جاسکتا ہے۔یاد رہے کہ گزشتہ روز وفاقی حکومت نے پی سی بی سے رابطہ کیا تھا اور بھارت سے متعلق پالیسی گائیڈ لائنز سے آگاہ کیا تھا جب کہ بھارتی ٹیم کے انکار کی صورت میں کسی اور ٹیم کو مدعو کرنے کی بھی تجویز دی گئی تھی۔ پاک۔بھارت ٹاکرا پاکستان کے بغیر ممکن نہیں ہے، منافع صرف بھارت کی وجہ سے نہیں بلکہ پاکستان کی موجودگی سے ہے۔ بھارت اگر پاکستان نہیں آیا تو پاکستان آئندہ کسی آئی سی سی اور ایشین کرکٹ کونسل ایونٹ میں بھارت کے خلاف نہیں کھیلے گا۔چمپئنز ٹرافی کا پہلا ایڈیشن 1998 میں ہوا تھا، اسے منی ورلڈکپ بھی کہا جاتا ہے، ایونٹ میں آئی سی سی ون ڈے رینکنگ میں سرفہرست 8ٹیمیں شرکت کرتی ہیں جنہیں دو گروپس میں تقسیم کیا جاتا ہے۔ اگر کوئی بھی ٹیم کسی بھی وجہ سے شیڈول آئی سی سی ایونٹ کھیلنے سے انکار کر دیتی ہے تو آئی سی سی کسی بھی ملک کو میزبان ملک کا دورہ کرنے کیلئے مجبور نہیں کر سکتا ۔ تاہم قانون انٹرنیشنل کرکٹ کونسل کو یہ اختیار دیتا ہے کہ وہ ٹاپ 8میں سے کسی بھی ٹیم کے انکار کی صورت میں رینکنگ میں موجود نویں نمبر کی ٹیم کو مدعو کرے جو قانون کے مطابق خود بخود اس ایونٹ کھیلنے کی اہل ہوجاتی ہے۔واضح رہے کہ آئی سی سی ون ڈے ورلڈکپ 1996اور 2008 کے ایشیا کپ کے بعد پاکستان کو ایک عرصے بعد پہلی بار چیمپئنز ٹرافی کی میزبانی ملی ہے، جس کے تمام میچز اگلے سال 19فروری سے 19مارچ تک پاکستان کے تین بڑے شہروں کراچی، لاہور اور راولپنڈی میں کھیلے جائیں گے۔پاکستان اس چیمپئنز ٹرافی میں دفاعی چمپئن کے طور پر شریک ہوگا ۔ آخری بار یمپئنز ٹرافی 2017میں ہوئی تھی جو پاکستان نے سرفراز احمد کی قیادت میں جیتی تھی۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے