سنجیدہ حلقوں کے مطابق یہ امر کسی تعارف کا محتاج نہےں کہ پاکستان کی سیکورٹی فورسز اورقانون نافد کرنے والے دیگر ادارے عرصہ دراز سے عالمی دہشتگردی کے خاتمے کی خاطر ہراول دستے کا کردار ادا کرتے آرہے ہےں اور اسی ضمن میں گزشتہ بیس برسوں میں 80ہزارکے قریب شہری اور 10ہزار سیکورٹی فورسز کے افراد اپنی جانوں کے نذارنے پیش کر چکے ہےں اور تا حال یہ سلسلہ جاری ہے ۔اسی تناظر میں یہ امر قابل ذکر ہے کہ گزشتہ برس 30 جنوری کو پشاور کے ایک پولیس کمپا¶نڈ کی مسجد میں ہونے والے خودکش بم حملے کے ایک اہم ملزم کو گرفتار کر لیا گیا ہے جس کی شناخت ایک پولیس اہل کار کے طور پر ہوئی ہے یاد رہے کہ حملے میں 100 سے زیادہ افراد شہید ہوئے تھے۔ اس ضمن میں صوبائی پولیس سربراہ اختر حیات نے12نومبر کو پریس کانفرنس میں پولیس کانسٹیبل محمد ولی کی گرفتاری سے آگاہ اور اس ضمن میں دیگر تفصیلات بھی بتائی گئیں ۔ انہوں نے کہا کہ خیبرپختونخوا پولیس اور محکمہ انسداد دہشت گردی (سی ٹی ڈی) نے پشاور پولیس لائنز کی مسجد پر خودکش حملے کے مرکزی سہولت کار پولیس کانسٹیبل محمد ولی عرف عمر کو 2 خودکش جیکٹس سمیت گرفتار کر لیا گیا ہے علاوہ ازیںکالعدم جماعت ”الاحرار” خودکش حملے میں ملوث پائی گئی تھی ۔اس حوالے سے یہ امر قابل ذکر ہے کہ 30 جنوری 2023 کو پشاور پولیس لائنز کی مسجد میں خود کش حملہ کیا گیا تھا جس میں 101 سے زیادہ افرادجاں بحق ہوئے تھے جن میں زیادہ تر پولیس اہلکار شامل تھے۔ مزید 250 زخمی بھی ہوئے تھے.جبکہ عمارت کو شدید نقصان پہنچا تھا۔ تفصیل اس سارے معاملے کی کچھ یوں ہے کہ دہشت گرد محمد ولی پولیس کانسٹیبل اور اس کا تعلق کالعدم جماعت الاحرار سے ہے علاوہ ازیں محمد ولی نے خود کش حملہ آور کو پولیس لائنز میں بھی ریکی کرائی۔ سہولت کاری کیلئے ملزم کو 2 لاکھ روپے ملے اورسارے پیسے حوالہ ہنڈی کے ذریعے آئے۔کے پی پولیس سربراہ کے مطابق ملزم کی جڑیں پنجاب تک پھیلی ہوئی ہیں۔ محمد ولی کو جمیل چوک سے گرفتارکیا گیا تھا اور، ملزم سے 2 خودکش جیکٹیں بھی برآمد ہوئیں۔یاد رہے کہ دہشتگرد افغانستان سے خودکش جیکٹس، حملہ آوروں اور دھماکہ خیز مواد کی ترسیل میں بھی ملوث ہے۔ اسی ضمن میں یہ بات بھی خصوصی توجہ کی حامل ہے کہ محمد ولی ایک ہفتے کی چھٹی لے کر افغانستان گیا، کنہڑ میں دہشت گرد کمانڈر صلاح الدین اور مکرم خراسانی سے ملاقات کی۔ ملزم کا اعترافی بیان بھی پولیس نے جاری کر دیا جس کے مطابق ملزم کا فیس بک پر جنید سے رابطہ ہوا اور مذکورہ دہشتگرد محمدولی کو جماعت الاحرار میں شامل ہونے پر بیس ہزار ملے ۔ علاوہ ازیں رحمان بابا قبرستان میں خود کش بمبار کو محمد ولی نے پولیس کی وردی فراہم کی اور ملزم کو ہر ماہ 50 ہزار حوالہ ہنڈی کے ملتے تھے۔ کے پی پولیس سربراہ اختر حیات خان کے مطابق پشاور پولیس کے اہل کار محمد ولی نے مسجد پر حملہ کرنے والے خودکش بمبار کے ساتھ کمپا¶نڈ کا نقشہ شیئر کیا تھا۔ اختر حیات نے مزید کہا کہ ولی نے کالعدم جماعت الاحرار میں شمولیت اختیار کی تھی، جو کہ پاکستانی طالبان کا الگ ہونے والا دھڑا ہے، جس نے اس حملے کی منصوبہ بندی کی تھی۔ مزید اس سارے معاملے کی کچھ یوں ہے کہ محمد ولی ولد باز میر خان، پشاور کا رہائشی ہے اور 31 دسمبر 2019 کو پولیس میں بھرتی ہوا تھا۔ 2021 میں محمد ولی کا کالعدم جماعت الاحرار کے دہشت گرد جنید سے فیس بک پر رابطہ ہوا جس نے اس کی ذہن سازی کی، جس کے بعد ملزم نے جماعت الاحرار میں شمولیت کا ارادہ کیا۔ کے پی پولیس سربراہ کے مطابق یہ گرفتاری پیر کو ایک چھاپے میں عمل میں آئی، بقول انکے ولی نے حملے میں اپنے کردار کا اعتراف کیا ہے۔ پولیس نے گزشتہ سال دھماکے کی جگہ کی جو سی سی ٹی وی تصاویر جاری کی تھیں ان میں پولیس کی وردی میں ملبوس خودکش حملہ آور کو موٹرسائیکل کو دھکا دیتے ہوئے جائے وقوعہ کی طرف آتے ہوئے دکھایا گیا تھا، جس سے یہ تاثر ملتا تھا کہ وہ خراب ہو گیا ہے۔حیات نے کہا کہ یہ الزام بھی ہے کہ حملہ آور کو وردی ولی نے فراہم کی تھی۔مبصرین کے مطابق پولیس لائن کے اندر مسجد پر حملہ حالیہ برسوں میں سکیورٹی فورسز پر ہونے والے مہلک ترین حملوں میں سے ایک تھا۔ محمد ولی پر دیگر وارداتوں میں ملوث ہونے کا بھی الزام ہے محمد ولی نے جنوری 2022 میں ایک پادری کو قتل کیا تھا، اس کے علاوہ اس نے ایسے افراد کو اسلحہ بھی فراہم کیا جنہوں نے اسے مختلف وارداتوں میں استعمال کیا۔ حرف آخر کے طور پر غیر جانبدار حلقوں نے رائے ظاہر کی ہے کہ مذکورہ دہشتگرد محمد ولی کی گرفتاری یقینا کے پی پولیس اور دیگر قانون نافذ کرنے والے اداروں کے اشتراک عمل کی قابل فکر مثال ہے ۔توقع کی جانی چاہےے کہ اس ضمن میں قومی اتفاق رائے معاشرے کے سبھی حلقے اپنی قومی ذمہ داریاں مزید احسن ڈھنگ سے نبھائیں گے ۔