کالم

ہندوتوا حکومت کشمیریوں کی شناخت مٹانے کےلئے سرگرم

بھارت نے مقبوضہ جموں و کشمیر میں ہندو و¿ں کو بسانے، انہیں کشمیری شہریت دینے اور آزادی پسندکشمیریوں کی زمین و جائیداد ضبط کرنے کا سلسلہ تیز کرتے ہوئے آزاد جموں و کشمیر میں جاری ہموار اور پرامن ڈیجیٹل مردم شماری کے خلاف پروپگنڈہ شروع کر دیا ہے تا کہ اس کی آڑ میں حقائق کو دنیا سے چھپا دیا جائے۔ اس کا مقصدمقبوضہ جموں و کشمیر میں بھارتی افواج کی انسانی حقوق کی بدترین خلاف ورزیوں، ریاستی دہشتگردی سے عالمی برادری کی توجہ ہٹاناہے۔ بھارت کی ہندو آبادی کو کشمیر کی شہریت دے کرانہیں انتخابات میں ووٹ ڈالنے کی اجازت دی گئی ہے۔مقبوضہ کشمیر کی ووٹر لسٹ میں 10لاکھ سے زیادہ ہندو ووٹرز کا اضافہ کر دیا گیا ہے۔ نئی انتخابی حدود قائم کی گئی ہیں۔ علاقائی اسمبلی میں ہندو ووٹ بینک بڑھانے کے لئے مزید سات نشستوں کا اضافہ کیا گیا ہے۔ آبادی کے ڈھانچے کو مسلم اکثریت سے ہندو اکثریتی علاقے میں تبدیل کر دیا گیا ہے۔2011 کی مردم شماری کے مطابق، جموں میں تقریباً 53لاکھ باشندے ہیں، جن میں سے 62 فیصد ہندو ہیں۔ وادی کشمیر میں 67لاکھ باشندے ہیں، جن میں سے 97 فیصد مسلمان ہیں۔دسمبر2022 تک 60لاکھ سے زیادہ بھارتی شہریوں کو ڈومیسائل سرٹیفکیٹ جاری کئے جا چکے تھے۔بھارتی حکومت کے تمام کالے قوانین جیسے ڈومیسائل اور حد بندی (حدود میں تبدیلی) کا مقصد مقبوضہ ریاست کے مسلم اکثریتی کردار کو اقلیت میں بدل دینا ہے۔ بھارتی حکومت مقبوضہ کشمیر میں سرمایہ کاری کے نام پر بھارتی سرمایہ کاروں کےلئے 304.51 کروڑ روپے کی لاگت سے 5,290 کنال اراضی پر سات نئی اِنڈسٹریل اسٹیٹس قائم کریگی۔ان سات نئی انڈسٹریل اسٹیٹس میں تخمینہ سرمایہ کاری 870016 کروڑ روپے ہے جس میں 28376 افراد کے روزگار کے امکانات ہیں۔ اس مقصد کےللئے مقبوضہ علاقے میں محاصرے اور تلاشی کی پرتشدد کارروائیوں کے دوران بھارتی ایجنسیاں جھوٹے الزامات پر عام لوگوں کے رہائشی مکانات ، زمینوں اوردیگر املاک پر قبضہ کررہی ہیں۔ تقریبا 10لاکھ بھارتی فوجیوں کی موجودگی نے مقبوضہ جموں وکشمیرکو دنیا کا سب سے زیادہ فوجی جماو¿ والا علاقہ بنا دیا ہے جہاں انسانی جان اپنا احترام، وقار اور قدر کھو چکی ہے۔ ایک تجزیاتی رپورٹ کے مطابق 5اگست 2019کوعلاقے کی خصوصی حیثیت کی منسوخی اور بی جے پی کی ہندوتوا حکومت کی طرف سے سخت فوجی اور پولیس محاصرے کے نفاذ کے بعد کشمیریوں پرمظالم، سیاسی ناانصافیوں اور خوف ودہشت میں کئی گنا اضافہ ہوا ہے۔ بھارتی فوجیوں نے اس عرصے کے دوران 857کشمیریوں کو شہید اور 2413 کو زخمی کیا۔ رپورٹ میں کہا گیا کہ غیر انسانی اورغیر جمہوری اقدامات اور بھارتی فوجی محاصرے کی وجہ سے کشمیریوں کو پتھر کے زمانے میں دھکیل دیا گیا ہے اور جموں و کشمیر کے مظلوم اور نہتے لوگوں پر بھارتی فورسز کی طرف سے ڈھائے جانے والے مظالم روز کا معمول بن چکے ہیں۔ حق خودارادیت کے حصول کےلئے کشمیریوں کی جدوجہد کو دبانے کےلئے بھارتی فوجی ، پیراملٹری فورسز اورپولیس اہلکار روزانہ کی بنیاد پر گھروں پر شبانہ چھاپے ماررہے ہیں اور محاصرے اور تلاشی کی کارروائیاں کررہے ہیں۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ بھارت آزاد صحافیوں کے لیے دنیا کے خطرناک ترین ممالک میں سے ایک ہے جہاں نریندر مودی کی زیرقیادت ہندو تواحکومت کے موقف کی حمایت نہ کرنےوالے صحافیوں کو ہراساں کرنا روز کا معمول بن چکا ہے۔ بی جے پی کی حکومت آزاد پریس کو نشانہ بنا رہی ہے تاکہ مسلمانوں، سکھوں، عیسائیوں اور دلتوں سمیت تمام مذہبی اقلیتوں کے خلاف اپنے جرائم کو دنیا سے چھپا سکے۔ مقبوضہ جموں وکشمیر اور بھارت میں آزاد صحافت پر حملے صحافیوں کی عالمی تنظیموں کےلئے ایک چیلنج ہے۔رپورٹ میں اقوام متحدہ اور امن پسند عالمی برادری سے مطالبہ کیاگیا کہ وہ کشمیری عوام کو درپیش مشکلات سے اپنی لاتعلقی ختم کرے اور ناقابل تنسیخ حق خودارادیت کے حصول کےلئے ان کی منصفانہ جدوجہد کی حمایت کرے۔ وقت آگیاہے کہ بھارت کی ہندوتوا حکومت کو مقبوضہ جموں وکشمیرمیں انسانیت کے خلاف جرائم پر جوابدہ ٹھہرایا جائے۔غیر قانونی طور پر نظربندکل جماعتی حریت کانفرنس کے چیئرمین مسرت عالم بٹ نے اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل انتونیو گوتریس پر زور دیا ہے کہ وہ دیرینہ تنازعہ کشمیر کو حل کرنے اور نریندر مودی کی زیر قیادت بھارتی حکومت کی طرف سے جاری کشمیریوں کی نسل کشی روکنے کےلئے اپنا اثرورسوخ استعمال کریں۔ مقبوضہ جموں وکشمیرمیں قابض بھارتی فوجیوں کی طرف سے ماورائے عدالت قتل،بلاجواز گرفتاریاں، تشدد اور بڑے پیمانے پر انسانی حقوق کی دیگر خلاف ورزیاں روز کا معمول ہے۔ کشمیری عوام کو اپنے ناقابل تنسیخ حق خودارادیت کا مطالبہ کرنے پر بدترین مظالم کا نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ اقوام متحدہ کے لیے یہ بہترین وقت ہے کہ وہ بھارت پر دباﺅ ڈالے کہ وہ دیرینہ تنازعہ کشمیر کو عالمی ادارے کی قراردادوں کے مطابق حل کرے۔بدنام زمانہ بھارتی تحقیقاتی ادارے این آئی اے کی ایک عدالت نے اپنے مادر وطن پر بھارت کے غیر قانونی قبضے کو چیلنج کرنے پر ضلع پلوامہ سے تعلق رکھنے والے ایک کشمیری عاشق حسین کو اشتہاری مجرم قرار دے دیاہے۔ واضح رہے مودی حکومت جدوجہد آزادی سے وابستہ تمام افراد کو اشتہاری مجرم قرار دینے کی پالیسی پر عمل پیرا ہے تاکہ بھارت مخالف سرگرمیوں میں ملوث ہونے کے الزام پر ان کی جائیدادیں ضبط کی جاسکیں۔ادھر نیشنل کانفرنس کے صدر ڈاکٹر فاروق عبداللہ نے مقبوضہ علاقے میں حالات معمول کے مطابق ہونے کے بھارتی حکام کے دعوﺅں کو بے بنیاد قرار دیتے ہوئے کہا کہ اگر مقبوضہ علاقے کے حالات میں واقعی بہتری آئی ہے تو ہزاروں کشمیری سلاخوں کے پیچھے کیوں ہیں۔فاروق عبداللہ نے قابض بھارتی انتظامیہ پر زور دیا کہ وہ کشمیریوں پر ظلم وستم بند کرے اور جیلوں میں بند کشمیریوں کو رہا کر کے انہیں عزت ووقار کے ساتھ زندگی گزارنے دے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے