رفعت عباس جیسے نرم خو ، متحمل مزاج ، انسان دوست ، انصاف پسند اور زمین سے لے کر آسمان تک ،سب سے محبت کرنے والے ادیب اور دانشور کو ایک باپ کی حیثیت سے دکھی اور رنجیدہ دیکھ کر طبیعت بڑی اداس اور دل بے چین ہے۔ عمومی طور پر ہماری یونیورسٹیوں کے اندرونی ماحول پر بھی بیرونی معاشرتی ماحول اور قباحتوں کا اثر نظر آ جاتا ہے ، لیکن بعض مقامات پر یونیورسٹیوں کے بعض اہلکاروں کا رویہ کسی بھی اعلیٰ تعلیمی ادارے کے وقار سے مناسبت رکھتا دکھائی نہیں دیتا۔میں بہا و¿الدین زکریا یونیورسٹی ملتان کے سرائیکی ایریا اسٹڈی سنٹر سے یوں واقف ہوں کہ وہاں میرے ایک دوست پروفیسر ڈاکٹر قاضی عبدالرحمن عابد کو شعبہ اردو کے چیئرمین کی بجائے ڈائریکٹر بنا کر تعینات کیا گیا تھا۔یہ کوئی بڑی اور حیران کن بات نہیں تھی لیکن بڑی اور حیران کن واردات اس وقت ہوئی تھی جب ایک وائس چانسلر نے کسی بیرونی دباو¿ کے زیر اثر پروفیسر ڈاکٹر قاضی عبدالرحمن عابد کےساتھ محض اس لیے بدتہذیبی کےساتھ گفتگو کر کے انہیں از خود سرائیکی ایریا اسٹڈی سینٹر کی ڈائریکٹرشپ سے علیحدہ ہونے پر مجبور کیا تھا ، تاکہ وہ اس دباو¿ اور دھونس کا انتظام کرنے والی کسی خاتون کو ڈائریکٹر بنا سکیں۔قیاس چاہتا ہے کہ جو دھمکیاں اس وقت کے وائس چانسلر نے ٹیلی فون پر سماعت کرتے ہوئے وصول کی تھیں ، کسی بھی قسم کی غیرت و حمیت اور جرات کے فقدان کے باعث انہوں نے وہی کچھ آگے اپنے ایک باوقار پروفیسر کے کان میں انڈیلنے میں عافیت محسوس کی۔اب جو عہدہ اتنی دھونس ، دھمکی اور دھکم پیل سے حاصل کیا گیا ہو، پھر وہاں بیٹھ کر متوازن طرز عمل اختیار کرنا ممکن نہیں رہتا۔ہماری یونیورسٹیوں میں وائس چانسلرز کا تقرر ہی ایک خوفناک مسئلہ بنا ہوا تھا، اور اسکے اثرات ہر یونیورسٹی کے انتظامی اور تعلیمی معاملات میں نظر آ جاتے ہیں لیکن یونیورسٹیوں کی اصل شناخت انکے طالب علم اور طالبات ہوتی ہیں،اسی لیے اپنے طالب علموں اور طالبات کو کسی استاد کی طرف سے اپنے ذہنی عدم توازن کا شکار بنانا اعلیٰ تعلیمی ادارے کے منہ پر ایک طمانچے کی حیثیت رکھتا ہے۔افسوس کہ یہ بات فراموش کر دی جاتی ہے کہ ایک استاد ، بلا صنفی تفریق ؛ استاد ہی ہوتا ہے نہ کہ کوئی افسریا ڈکٹیٹر ؛ کہ جسکے سامنے طالب علم قطار بنا کر فرشی سلام بجا لاتے رہیں ۔ یونیورسٹیوں کے طالب علم اور طالبات انڈر ٹریننگ ریکروٹ نہیں ہوتے کہ ٹریننگ کے نام پر پریڈ کروانےوالے حوالدار کی گالیاں کھا کر بھی بے مزا نہ ہوں اور یس سر ،اوکے سر کرتے رہیں۔یونیورسٹیاں ذہنی آزادی اور اعتماد کی دولت تقسیم کرنے کی اہل ہونی چاہئیں۔سنا ہے کہ بہاو¿ الدین زکریا یونیورسٹی ملتان میں نئے وائس چانسلر تشریف لائے ہیں ،وہ یقینا یونیورسٹی میں پہلے سے موجود تاثرات و تعصبات اور سیاسیات دربان سے آزاد ہون گے ۔انہیں اس معاملے کو ترجیحی بنیادوں پر حل کرنے پر توجہ دینی چاہیئے ۔ دراصل اسی معاملے پر کیا گیا انصاف یونیورسٹی کے تمام شعبوں کے سربراہان کےلئے ایک مضبوط اور مثبت پیغام بھی ثابت ہو سکتا ہے۔ رفعت عباس کی صاحبزادی صرف سرائیکی وسیب کی نہیں ، پورے پاکستان کی بیٹی ہے۔اس بیٹی کو اعلیٰ تعلیم کے حق سے محروم کرنے کوئی بھی کوشش یا سازش قابل مزمت اور قابل مزاحمت ہے۔میں نے رفعت عباس کی معروضات پڑھی ہیں۔یہ ایک کم گو اور متحمل مزاج دانشور اور ایک دکھی باپ کارنج نامہ ہے ۔ آپ بھی پڑھیئے:سب آدر دوستو!!
میری بیٹی مدیحہ عباس ایم۔اے سرائیکی کے بعد ایم۔فل سرائیکی میں داخلے کی متمنی تھی ۔ وہ شاید اس طرح سے اپنی ما بولی اور اپنے باپ سے محبت کا اظہار کرنا چاہتی ہو ۔ ورنہ وہ شادی شدہ اور دو بچوں کی ماں ہے اور اپنی خوش حال گھریلو زندگی میں اسے ملازمت کی ضرورت نہیں ہے لیکن یہ محبت اسے مہنگی پڑی اور وہ سرائیکی ایریا سٹڈی سنٹر کے توہین آمیز رویے کی وجہ سے شدید ذہنی دباﺅ کا شکار ہوئی۔یہ صورت حال سرائیکی شعبے میں زیر تعلیم ہر طالبہ کی ہے لیکن کسی کو بات کرنے کی جرات نہیں۔میں نے اس زبان کے ایک شاعر اور ادیب ہونے کی رعایت سے اپنے ذاتی معاملے کو،جو ہر طرح سے ایک اجتماعی مسئلہ ہے،سول سوسائٹی کے سامنے پیش کیا ۔ ڈائریکٹر صاحبہ نے پہلے دن ہی سے ، جونہی اسے پتہ چلا کہ وہ میری بیٹی ہے، اس سے توہین آمیز سلوک روا رکھا۔اپنی بیٹی کے علاوہ دیگر طلبا،سنٹر کے اساتذہ اور ملازمین اس خاتون کے رویے کے گواہ ہیں۔میں ذاتی طور پر اپنی بیٹی کو،جو مجھے ہمیشہ شدید ذہنی دباو¿ میں ملی،تسلی دیتا رہا اور کبھی یونیورسٹی نہ گیا ۔چند دوسرے پروفیسر صاحبان سے گزارش کی کہ وہ ڈاکٹر صاحبہ کو بچوں سے شفقت آمیز سلوک کےلئے کہیں لیکن انہوں نے اپنی بے بسی کا اظہار کیا۔مجھے یقین ہے کہ ہم بیٹیوں ، بیٹوں ، نئی نسل کو ذہنی طور پر مریض اساتذہ سے بچاو¿ سکتے ہیں۔میں اپنے اتنے دن خاموش رہنے پر اپنی بیٹی اور آپ سب کی بیٹیوں سے معافی کا طلب گار ہوں۔رفعت عباس ۔ ملتان
کالم
رنج نامہ رفعت عباس
- by web desk
- دسمبر 2, 2024
- 0 Comments
- Less than a minute
- 132 Views
- 7 مہینے ago