کالم

رخشندہ پروین کی "بروقت” راگنی

گزشتہ سال کے اواخر میں شائع ہونے والی رخشندہ پروین کی معنی خیز تصنیف بے وقت کی راگنی کے مشمولات و مباحث واقعتا اکیسویں صدی کی تیسری دہائی سے منسلک و مربوط مباحث خیال کرنے چاہئیں۔یہی وجہ ہے کہ میں بطور قاری اس تصنیف کو رخشندہ پروین کی "بروقت راگنی” شمار کرتا ہوں۔ابھی کچھ مہینے کی بات ہے ،اس معنی خیز کتاب کی سافٹ کاپی کا مطالعہ کرتے ہوئے میں نے اس بے وقت کی راگنی کی ہارڈ کاپی کی صورت اشاعت پر اپنے پختہ یقین کا اظہار کرتے ہوئے لکھا تھا کہ؛ "۔۔۔ یہ کتاب پہلے اسکرین کے طلسمی آئینے پر شائع ہوئی ہے ، ہارڈ کاپی بھی یقینا آئے گی، اور آج کل کے نحیف و نزار اور حد درجہ لاغر انٹر نیٹ کی وجہ سے ضرور آنی چاہئیے۔” اور پھر پاکستان بالعموم اور اسلام آباد کے بالخصوص نحیف و نزار اور حد درجہ لاغر انٹرنیٹ کے دور میں یہ عمدہ کتاب اسکرین کے طلسمی آئینے کے خواب سے نکل کر دلآویز اشاعت کی تعبیر کی صورت ہمارے ہاتھ میں آ گئی ۔پہلے اسے صرف آنکھ چھو سکتی تھی ،اب اسے ہاتھوں میں تھام کر اپنے کتب بینی کے دور کو زندہ کرتے ہوئے گوشہ تنہائی میں بیٹھ کر پڑھا جا سکتا ہے۔ رخشندہ پروین کی بے وقت کی راگنی نظر آنے سے زیادہ سنائی دیتی ہے ، سمجھ آنے کی حد سے نکل کر محسوس ہوتی ہے ۔ اس راگنی کے معنی کی تاثیر کے پیچھے علم ، ذہانت ، تجربے اور عمیق مشاہدے کی موجودگی اور تحرک پوشیدہ ہے۔اس سارے عمل اور ردعمل کی بنیاد رخشندہ پروین کی عالم انسانیت سے بلا امتیاز محبت اور دوستی ہے ۔ رخشندہ پروین کی انسان دوستی ایک طویل جدوجہد کا پس منظر رکھتے ہوئے ایک سند کا درجہ حاصل کرلیتی ہے۔ رخشندہ پروین کے مطابق ؛ ” میری انسان دوستی اور دردمندی میں اس تعلیم اور تربیت اور آگاہی کا بھی دخل ہے، جو میں نے دنیا کی 16درسگاہوں اور چار بر اعظموں سے حاصل کی اور شاید 30سال کی ملازمتوں کے باقاعدہ تجربات بھی شامل ہیں، جن میں آفت زدہ علاقوں میں مصیبت کے ماروں کے ساتھ کام کرنا اور عالمی طاقتوں کی بے حسی اور دھوکے بازیوں کو اچھی انگریزی میں ڈپلومیٹک طریقے ے قلم بند کرنا بھی شامل رہا ۔ اور جہاں ایسا کرنے میں ناکام رہی ، وہاں نتائج بھی بھگتنا پڑے، مگر درد دل اور انسانیات پرستی جب عشق کی صورت اختیار کر لے تو یہ سب کچھ کھیل لگتا ہے، جس میں دنیاوی طور پر ہار ہو یا جیت لیکن بازی مات نہیں ہوتی۔” (ص182)پاکستان میں بڑی محنت سے تشکیل دیئے گئے معاشرے میں بھی رخشندہ پروین جیسے بہادر ، باشعور ،بے خوف اور مزاحمت کار کردار اپنی گنجائش پیدا کر لیتے ہیں۔وہ اچھی طرح سے جانتی ہے کہ دھونس ، دھاندلی ،ڈراوے اور بندوق یا تلوار سے دل اور دماغ فتح نہیں کئے جا سکتے ۔لہٰذا ان فرسودہ ہتھیاروں کا مقابلہ ان سے کہیں بڑے اور ایسے ہتھیار سے کرنا چاہیئے جو تاثیر میں زیادہ اور تسخیر میں کامل ہو ، وہ جانتی ہے کہ ایسا معجزہ صرف قلم دکھا سکتا ہے۔یہی وجہ ہے کہ بظاہر پرامن ، مہذب ، کم گفتار قدرے محجوب سی نظر آنے والی رخشندہ پروین ہمہ وقت قلم بدست محو مزاحمت و محاربہ رہتی ہے ۔ اور وہ جو علامہ اقبال نے پہلے سے بتا رکھا ہے کہ؛
دل سے جو بات نکلتی ہے اثر رکھتی ہے
پر نہیں ، طاقت پرواز مگر رکھتی ہے
تو شاید رخشندہ پروین نہیں جانتی کہ اس کے رقم کئے گئے درد ، خدشے اور المیئے رائیگاں نہیں جانے والے ، ہر تحریر اپنی ایک الگ تاثیر رکھتی ہے، ہر تحریر ایک خاموش ہجوم کے دل کی آواز بھی ہوتی ہے۔زندگی اور زندگی سے وابستہ ریاست ، سیاست ،معاشرت، معیشت ، مذہب ، تہذیب اور ثقافت جس طور اور جس رنگ سے رخشندہ پروین کے سامنے آئی، وہ اس کا نادر و کم یاب تجربہ اور مشاہدہ ہے۔اس نادر و کم یاب تجربے نے اسے مصلحت ، خاموشی اور خود فراموشی کے گنبد میں قید کرنے کی بجائے نڈر اور بہادر و بے باک بنا دیا ہے۔ وہ اس معاشرے کی بےدردی اور بےحسی پر روشنی ہے ڈالتے ہوئے ان تمام مشکلات ، تضادات اور انحرافات پر کھل کر لکھتی ہے ،جن کی وجہ سے یہاں ایک خاتون کو مساوی درجے کا انسان سمجھنا ، ماننا اور برداشت کرنا مشکل ہوتا چلا گیا۔وہ کسی قسم کی ہچکچاہٹ کے بغیر ایسے بنیادی سوالات اٹھانے سے گریز نہیں کرتی ، جن کو سوچنے سے عام مردوں کا نظام فہم و فراست معطل ہو جاتا ہے ؛”کیا مرد ناسمجھ ہے یا کمزور کہ جری عورت اور ذہین عورت کے موجود ہونے کے خیال تک کو برداشت نہیں کر سکتا؟ کیا عورت کو اپنے برابر ماننے والے مردبے غیرت ہیں؟ کیا مردوں کے بھی صنفی مسائل ہیں ؟ کیا عورت بھی عورت کی دشمن ہے اور پدر سری رویہ رکھ سکتی ہے ؟ بری عورت اور بہادر عورت کیا ایک ہیں؟ عورت کی بدکرداری کیا ہے ؟ کیا کردار صرف عورت کا ہونا چاہئیے ؟ کیا ماضی صرف عورت کا ہوتا ہے، مرد کا نہیں؟ دو سال کی بچی کیوں ریپ ہو کر قتل کردی جاتی ہے ؟ ہم کیوں اپنے معاشرے میں جنسی اور صنفی تشدد کے ہونے کو تسلیم نہیں کرتے؟ فیملی پلاننگ، ایڈز اور بڑھاپے سے منسلک مشکلات کی صنفی جہتیں کیا ہیں؟ کیا خود مختار عورت ایک وارننگ سائن ہے ، ہمارے فیملی سسٹم کو تباہ کرنے کےلئے ؟ گھر کے کاموں کو جو عورتیں کرتی ہیں ، اسے کام کیوں نہیں گنا جاتا؟ (ص 24)
(……..جاری ہے)

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے