کالم

ڈونلڈ ٹرمپ کی ڈائنوسار سیاست

حالیہ امریکی انتخابات میں جو بائیڈن کی بے توفیق شمولیت اور بے تاثیر اخراج نے یوں توں مدمقابل امیدوار ڈونلڈ ٹرمپ کیلئے میدان صاف اور ہموار کر ہی دیا تھا ،لیکن خود ٹرمپ کے جنگ گریز اور دنیا کےلئے امن دوست پیغامات اور بیانات نے امریکہ کے ساتھ ساتھ پوری دنیا میں توقعات کی کچھ شمعیں روشن کر دی تھیں اور امید پیدا ہو چلی تھی کہ شاید اب امریکہ جنگوں کے منافع بخش مگر ہلاکت خیز کاروبار سے الگ ہو کر اپنے اور دنیا کےلئے امن و سلامتی کے راستے تلاش کرنے میں سبقت لے جائے گا۔ لیکن حلف اٹھانے سے پہلے ہی نئے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنے منہ سے ایسی آوازیں نکالنا شروع کردی ہیں ،جن کو سن کر ڈائنوسار عہد کے بے ہنگم اور بے سرے موذی جانوروں جیسی بھیانک آوازیں یاد آنا شروع ہو چکی ہیں۔ ڈائنو سار کو اپنے قد کاٹھ کا زعم، اپنی طاقت کا گمان اور اپنی غیر مختتم بھوک کی وجہ سے ہمہ وقت غصہ چڑھا رہتا تھا۔وہ ہر نظر آنے اور حرکت کرنےوالے وجود پر حملہ کرنے میں پہل کر دیتا تھا۔وہ کھاتا کم اور اجاڑتا زیادہ تھا۔پھر قدرت نے اپنا رنگ دکھایا اور زمین کی چند انگڑائیوں نے زمین کو ڈائنوسارز کے نا واجب بوجھ سے نجات دلا دی۔اور اب ڈائنوسار بچوں کو فرضی قصے کہانیوں سے بہلانے والی کتابوں میں بنے کارٹونوں کی شکل میں نظر آ جاتے ہیں ،اور بس !ڈونلڈ ٹرمپ کی انتخابی مہم کے دوران دنیا کے سادہ لوح اور انسانیت نواز لوگ اسے امن کی فاختہ قیاس کرتے رہے ، جبکہ صدر منتخب ہونے کے بعد اور حلف اٹھانے سے پہلے ڈونلڈ ٹرمپ نے خود کو جہنم کا دراوغہ ثابت کرنا شروع کر رکھا ہے۔ ایک سال سے جاری اسرائیل فلسطین جنگ میں سے ڈونلڈ ٹرمپ کو صرف حماس اور غزہ میں ہزاروں کی تعداد میں مرنے والے بچے ، عورتیں اور بوڑھے یاد نہیں ، نہ ہی انہیں اسرائیلی افواج کی طرف سے غزہ سے گرفتار کئے گئے سیکڑوں فلسطینیوں کا خیال ہے ،انہیں صرف حماس کی طرف یرغمال بنائے گئے اسرائیلی یاد ہیں ،جن کی رہائی کےلئے وہ ضعف دماغی اور خلل اعصابی کا شکار ہو چکے ہیں،یہ خلل اس حد تک بڑھ چکا ہے کہ بے بس و بے اختیار ہوکر ڈونلڈ ٹرمپ نے فلوریڈا میں ایک پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے یہاں تک کہہ دیا ہے کہ ان کے حلف اٹھانے سے پہلے تک اگر حماس کی طرف سے یرغمالی رہا نہ کئے گئے تو؛ مشرق وسطیٰ کو جہنم بنا دیا جائے گا۔اور یہ بات پورے خطے کےلئے اچھی نہیں ہو گی ۔جب ٹرمپ نے فرط جذبات میں کہا تھا کہ وہ لوگ جنہوں نے انسانیت کے خلاف جرائم کا ارتکاب کیا ہے ،وہ سب ان جرائم کی قیمت ادا کریں گے۔ اور یہ کہ ؛ ان جرائم کے ذمہ داروں کو ایسا سبق سکھایا جائے گا جس کی امریکی تاریخ میں کوئی مثال نہیں ملتی ، تو دھیان سیدھا غزہ ، بیروت اور شام و یمن میں اسرائیلی مظالم کی طرف چلا گیا تھا، لیکن اب جو نو منتخب صدر نے اپنے چہرے سے نقاب سرکانے شروع کئے ہیں ،تو صاف نظر آرہا ہے کہ امریکہ کے جنگی کردار سے بے زار دانشور، معاشی اصلاحات کا داعی مدبر اصل میں انسانی شکل میں ظاہر ہونے والا ایک ڈائنو سار تھا اور ہے۔ حیرت انگیز طور پر ؛صدارتی انتخاب جیتنے کے بعد ٹرمپ نے دنیا کو کھا جانے والی نظروں سے دیکھنا شروع کر دیا ہے۔اپنی اس عفریت نما سیاسی تصرف پسندی کا آغاز انہوں نے ہمسایہ ملک کینیڈا کی تحقیر کرنے سے کیا ہے ۔ ٹرمپ نے ہمسایہ ملک کینیڈا کی علاقائی خودمختاری اور سلامتی کو طعن و طنز کا نشانہ بناتے ہوئے اس آزاد و خودمختار ملک کو امریکہ کی ایک ریاست بن جانے کی دھمکی نما دعوت دی ہے اور اسکے وزیراعظم کوگورنرکہہ کر مخاطب کیا ہے ۔کینیڈا کی فلاحی ریاست ،عوام اور سیاست دان ڈونلڈ ٹرمپ کو اسی انگریزی زبان میں جواب دے رہے ہیں ،جس میں ان کی تحقیر کی گئی ہے ۔ لیکن ایک آزاد و خودمختار ملک کو اپنی جغرافیائی حدود مٹا کر اپنا ایک صوبہ بننے کی دعوت دینا ایک خاص طرح کے ذہنی و اخلاقی دیوالیہ پن کی طرف اشارہ کرتا دکھائی دیتا ہے ۔توقع کی جاتی تھی کہ ایلان مسک ڈونلڈ ٹرمپ کو عقلمندی کی باتیں بتائے اور سکھائے گا، لیکن عقدہ یہ کھلا کہ بے چارا ایلان مسک خود پنجہ یہود کا اسیر اور جیوئش لابی کا پرچہ نویس ہے ۔ اس نے بھی اہل کینیڈا کی تحقیر کرنے میں ذرا دیر نہیں لگائی۔ ڈونلڈ ٹرمپ نے کینیڈا کے بعد دوسری ہمسایہ ریاست میکسیکو کو بھی اپنی بھوری آنکھوں سے گھورنا شروع کر رکھا ہے۔ ٹرمپ نے خلیج میکسیکو کا نام تبدیل کر کے خلیج امریکہ کرنے کا عندیہ دے کر گویا ایک طرح سے اپنے احساس کمتری کی عالمی سطح پر رجسٹریشن کروا لی ہے۔یہاں ستم ظریف نے سوال اٹھایا ہے کہ ٹرمپ نے کینیڈا کی طرح میکسیکو کو امریکہ کی ریاست بننے کی دعوت کیوں نہیں دی؟ وہ کہتا ہے کہ ایسا کرنے سے امریکہ کا یہ پٹ سیاپا بھی ختم ہو سکتا ہے کہ میکسیکو کے راستے تارکین وطن امریکہ میں گھس آتے ہیں۔اب ستم ظریف کو کون سمجھائے کہ ڈونلڈ ٹرمپ پاگل ضرور ہے جو کینیڈا جیسے ہمسایہ ملک کو اپنی ریاست بن جانے کی دعوت دے رہا ہے ،لیکن وہ اتنا بھی ” پاگل نہیں کہ یہی دعوت میکسیکو کو دینے کی حماقت کر گزرے ۔ ڈونلڈ ٹرمپ کی ڈائنوسار سرشت یہیں پر بس نہیں کرتی ،وہ گرین لینڈ کو بھی ہتھیانا چاہتی ہے ، ٹرمپ کہتے ہیں کہ ایسا کرنے کےلئے وہ جو مناسب ہوا وہ کریں گے۔ٹرمپ کی ایک خواہش پانامہ کینال پر تصرف حاصل کرنے کی بھی ہے ۔اصل ہدف تو چین کی معاشی ترقی اور تجارتی تفوق ہے ، یہ امریکی حسد کی وہ قسم ہے جس کا علاج طب یا روحانیات میں ابھی تک دستیاب نہیں ہو سکا ، اگر ڈونلڈ ٹرمپ نے اس عارضے پر بروقت قابو نہ پایا تو یہ حواس کو مکمل طور پر مختل کر سکتا ہے۔ اگر ایسا ہوا تو پھر قوی امکان ہے کہ کسی روز ڈونلڈ ٹرمپ واقعتا ڈائنوسار کی شباہت اختیار کر جائیں ۔ ڈونلڈ ٹرمپ کو یہ اعزاز بھی حاصل ہو چکا ہے کہ وہ ایک پورن اسٹار کے ساتھ خفیہ تعلقات بنانے اور ان تعلقات کو پردہ اخفا میں رکھنے کے لیے اس پورن اسٹار کو بھاری رقم دینے کے الزامات ثابت ہو جانے کے باوجود قید اور جرمانے سے محض اس لیے بچ گئے ہیں کہ ؛ امریکیوں نے انہیں اپنا نیا صدر منتخب کر لیا ہے ۔ میں قبل از تاریخ ڈائنوسار عہد میں درندوں کی جنسی اخلاقیات کے بارے میں کوئی علم نہیں رکھتا، بس قیاس چاہتا ہے کہ اس عہد میں بھی طاقتور ڈائنو سار اور دیگر عفریت اپنی مرضی و منشا کے مطابق تعلقات بناتے ہوں گے۔ہاں شاید اس عہد میں تعلقات چھپانے کا چلن شروع نہ ہوا ہو؟.بہرحال دنیا کو جنگوں کے کلچر سے آزادی کا خواب دکھانے والے نو منتخب امریکی صدر نے چین اور روس کے ساتھ کھلی اقتصادی محاذ آرائی کا آغاز کر دیا ہے۔دیکھئے اس طرح کی محاذ آرائی کس طرح اور طرز کی جنگوں کی تمہید بنتی ہے۔؟ ستم ظریف کو لگتا ہے کہ ڈونلڈ ٹرمپ حلف اٹھانے کے بعد اپنی ان غیر مناسب خواہشات کے محاذ کو صرف زبانی گولہ باری سے گرم رکھا کریں گے۔وہ کہتا ہے کہ ڈونلڈ ٹرمپ کے پاس ڈالرز کی اور امریکی معاشرے کے پاس پورن اسٹارز کی کوئی کمی ؛ بہرحال نہیں ہے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے