کالم

اقتدار کی جنگ

یہ امر قابل ذکر ہے کہ رواں ہفتے میں پی ٹی آئی قیادت نے گنڈا پور کی جگہ پر اپنا نیا صوبائی صدر’جنید اکبر‘ کو بنا دیا ہے جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ گنڈا پور واپسی کے سفر پر روانہ ہو چکے ہےں ۔جانکار حلقوں کے مطابق بشریٰ بی بی اور وزیر اعلیٰ گنڈا پور کے مابین اختلافات خاصی شدت اختیار کر چکے ہےں اور اس امر کو نظر انداز نہےں کیا جا سکتا کہ گنڈا پور کو وزرات اعلیٰ کے منصب سے بھی رخصت کر دیا جائے ۔مبصرین کے مطابق اس امر کا واضح امکان موجود ہے کہ شکیل خان دھڑے کے کسی فرد کو وزارت اعلیٰ دے دی جائے البتہ تاحال یہ قدم اس لئے نہےں اٹھایا گیا کہ کئی ایسا نہ ہو کہ گنڈا پور اور ان کے ساتھی بڑے پیمانے پر بغاوت کر دیں۔ یہ بات توجہ کی حامل ہے کہ پاکستان تحریکِ انصاف (پی ٹی آئی) میں اقتدار کی جنگ اور مسلسل تبدیلیاں پاکستان کی سیاست کا ایک دلچسپ اور اہم موضوع بن چکی ہیں۔ یہ صورتحال نہ صرف پارٹی کی اندرونی ساخت کو متاثر کر رہی ہے بلکہ ملک کے مجموعی سیاسی منظرنامے پر بھی گہرے اثرات مرتب کر رہی ہے۔ یاد رہے کہ عمران خان کی قیادت میں پی ٹی آئی نے گزشتہ دہائی میں ایک مضبوط سیاسی قوت کے طور پر اپنی جگہ بنائی، مگر حالیہ دنوں میں اقتدار کی جنگ اور تنظیمی بحران نے اس کے مستقبل پر سوالیہ نشان لگا دیا ہے۔پی ٹی آئی میں قیادت کے حوالے سے جاری بحران شاید سب سے بڑا مسئلہ ہے۔ عمران خان، جنہیں پارٹی کے بانی اور روحِ رواں کے طور پر دیکھا جاتا ہے، کی گرفت پارٹی پر کمزور پڑتی دکھائی دے رہی ہے اور ان کے خلاف مقدمات اور سیاسی پابندیوں نے پارٹی کو عملی طور پر قیادت کے خلاءکا شکار کر دیا ہے۔ اس خلا کو پر کرنے کی کوشش میں کئی رہنما سامنے آئے ہیں، لیکن کوئی بھی عمران خان کی مقبولیت کا متبادل فراہم کرنے میں تا حال کامیاب نہیں ہو سکا۔ یہ قیادت کی جنگ نہ صرف پارٹی کے اندر اختلافات کو جنم دے رہی ہے بلکہ کارکنوں میں بھی مایوسی پیدا کر رہی ہے۔مبصرین کے مطابق پی ٹی آئی کے اندر مختلف دھڑوں کا ابھرنا اس بات کا ثبوت ہے کہ پارٹی اندرونی طور پر تقسیم کا شکار ہے۔ سینئر رہنما، جو ماضی میں پارٹی کے ستون سمجھے جاتے تھے، اب ایک دوسرے کے خلاف صف آراءہیں اور کچھ رہنما پارٹی کی اصل نظریاتی بنیادوں کی طرف واپسی چاہتے ہیں، جبکہ دوسرے اقتدار میں واپسی کے لیے کسی بھی حد تک جانے کو تیار ہیں۔ یہ اختلافات تنظیمی معاملات میں تاخیر اور فیصلے کرنے کی صلاحیت کو متاثر کر رہے ہیں اور ایسے میںپی ٹی آئی کی موجودہ صورتحال میں انحراف ایک بڑا مسئلہ بن چکا ہے۔ متعدد سینئر رہنما یا تو پارٹی چھوڑ چکے ہیں یا خاموشی اختیار کر لی ہے اوراس عمل نے پارٹی کو نہ صرف کمزور کیا ہے بلکہ اس کی ساکھ کو بھی نقصان پہنچایا ہے۔ سیاسی مخالفین کے دبا¶ اور ریاستی مشینری کے استعمال نے بھی پی ٹی آئی کو مزید مشکلات سے دوچار کر دیا ہے۔ یہ صورتحال ظاہر کرتی ہے کہ پارٹی کے اندر یکجہتی اور اتحاد کی شدید کمی ہے، جو کسی بھی سیاسی جماعت کیلئے تباہ کن ثابت ہو سکتی ہے ۔ ماہرین کے مطابق پی ٹی آئی کا تنظیمی ڈھانچہ ہمیشہ سے ہی ایک کمزور پہلو رہا ہے۔ عمران خان کی شخصیت پر انحصار کرنے والی اس جماعت نے کبھی بھی حقیقی معنوں میں ادارہ جاتی بنیادیں قائم نہیں کیں۔ حالیہ تبدیلیوں اور نئی تقرریوں کے باوجود، تنظیمی ڈھانچے کی کمزوریاں واضح ہیں۔علاوہ ازیں عہدوں کی تقسیم میں شفافیت کا فقدان اور میرٹ سے ہٹ کر فیصلے پارٹی کے اندر مزید اختلافات کو جنم دے رہے ہیں۔پی ٹی آئی کی اصل طاقت اس کا نظریہ اور تبدیلی کا وعدہ تھا مگر موجودہ حالات میں یہ نظریاتی سمت دھندلا چکی ہے۔
پارٹی نے گزشتہ برسوں میں جو وعدے کیے تھے، ان پر عملدرآمد نہ ہونے کی وجہ سے عوام میں مایوسی پائی جاتی ہے۔ اقتدار کی جنگ اور قیادت کے مسائل نے پارٹی کو اپنے بنیادی اصولوں سے دور کر دیا ہے۔ یاد رہے کہ اس وقت پارٹی کا مقصد صرف اقتدار کا حصول معلوم ہوتا ہے، جو اس کی نظریاتی بنیادوں کو کمزور کر رہا ہے اورعوام میں پی ٹی آئی کی حمایت کا گراف بھی گرتا ہوا دکھائی دے رہا ہے۔اگرچہ عمران خان کی مقبولیت اب بھی کسی حد تک برقرار ہے، مگر پارٹی کی اندرونی صورتحال اور کارکردگی کے مسائل نے عوام کا اعتماد متزلزل کر دیا ہے۔ کارکن، جو کبھی پی ٹی آئی کا سرمایہ تھے، اب خود کو نظرانداز محسوس کر رہے ہیں اور پارٹی کی موجودہ قیادت ان کارکنوں کو دوبارہ متحرک کرنے میں ناکام رہی ہے۔سیاسی مبصرین کے مطابق پی ٹی آئی میں جاری اقتدار کی جنگ اور اندرونی اختلافات کا نتیجہ یا تو مکمل تنظیمی بحران کی صورت میں نکل سکتا ہے یا ایک نئے اور زیادہ منظم ڈھانچے کے قیام میں۔ دوسری جانب، اگر قیادت ایک واضح حکمتِ عملی کے تحت فیصلے کرے اور نظریاتی بنیادوں پر واپس آئے، تو پی ٹی آئی دوبارہ اپنی کھوئی ہوئی ساکھ شائد بحا ل کر سکتی ہے۔سنجید ہ حلقوں کے مطابق پاکستان تحریک انصاف کی موجودہ صورتحال نہ صرف اس کےلئے بلکہ ملک کی مجموعی سیاست کے لیے بھی اہم ہے کیوں کہ ایک مضبوط اپوزیشن کسی بھی جمہوری نظام کا لازمی حصہ ہوتی ہے، اور پی ٹی آئی نے ماضی میں اس کردار کو بخوبی نبھایا ہے۔ مگر موجودہ اقتدار کی جنگ اور اندرونی اختلافات نے اسے کمزور کر دیا ہے۔ غالبااب وقت آگیا ہے کہ پی ٹی آئی اپنی تنظیمی ڈھانچے کو مضبوط کرے، قیادت کے مسائل کو حل کرے، اور عوامی اعتماد بحال کرے۔ اگر ایسا نہ کیا گیا، تو یہ جماعت اپنی سیاسی اہمیت کھو سکتی ہے، جو نہ صرف اسکے کارکنوں بلکہ پاکستان کے جمہوری نظام کیلئے بھی نقصان دہ ہوگا۔یہاں یہ امر خصوصی توجہ کا حامل ہے کہ یہ جماعت کبھی نوجوانوں کی امیدوں کا مرکز ہوا کرتی تھی مگر آج یہ اقتدار کی جنگ، اندرونی اختلافات، اور غیر م¶ثر قیادت کا شکار ہو چکی ہے۔ پارٹی نے اپنی تنظیمی کمزوریوں کو نظرانداز کیا اور صرف عمران خان کی شخصیت پر انحصار کیا، جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ قیادت کے بغیر پارٹی بے سمت ہو گئی۔یہ بھی واضح ہے کہ پی ٹی آئی نے اپنے نظریے سے انحراف کیا اور اقتدار کے حصول کو اپنی ترجیح بنا لیا۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے