کالم

عروج سے زوال تک کا سفر مسلسل

کسے معلوم نہےں کہ پاکستانی سیاست میں اگر کوئی شخصیت سب سے زیادہ بحث و مباحثے کا شکار رہی ہے، تو وہ عمران خان ہیں۔ کچھ لوگ انہیں پاکستان کی واحد امید سمجھتے ہیں، جبکہ کچھ انہیں ناکام حکمران اور کھوکھلے نعروں کا پیکر قرار دیتے ہیں لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا موصوف کی شہرت ہی ان کی سب سے بڑی طاقت تھی یا درحقیقت، ان کی اہلیت اس شہرت کے بوجھ تلے دب گئی؟۔ یہ امر توجہ کا حامل ہے کہ بانی 1992 کے کرکٹ ورلڈ کپ کے فاتح کپتان تھے۔ اس جیت نے انہیں پاکستان میں ایک قومی ہیرو کا درجہ دیا، اور عوامی محبت کا یہ سفر سیاست تک جا پہنچا۔ جب 1996 میں انہوں نے تحریک انصاف کی بنیاد رکھی، تو بیشتر لوگوں نے اسے ایک غیر سنجیدہ سیاسی تجربہ سمجھا لیکن 30اکتوبر 2011 کے لاہور کے جلسے نے ان کے حامیوں کو یہ یقین دلایا کہ عمران خان ہی وہ لیڈر ہیں جو پاکستان کو بدعنوان سیاست دانوں سے نجات دلا سکتے ہیں۔ ان کی کرکٹ کے میدان کی قیادت اور فلاحی خدمات نے انہیں سیاست میں ایک مضبوط مقام فراہم کیا، لیکن کیا قیادت کی یہ مہارتیں حکومتی معاملات چلانے کے لیے کافی تھیں؟2018 میں جب بانی وزیر اعظم بنے، تو ان سے بے پناہ توقعات وابستہ کر لی گئیں لیکن جلد ہی حقیقت سامنے آنا شروع ہوگئی کہ ایک مقبولیت یافتہ کرکٹر اور ایک م¶ثر حکمران میں زمین آسمان کا فرق ہوتا ہے۔اس کی سب سے بدترین مثال عثمان بزدار کو پنجاب کا وزیر اعلی ٰ مقرر کرنا تھا اور یہ بات بھی کسی سے ڈھکی چھپی نہےں کہ بزدار کو وزیر اعلی بنانے میں سابق خاتون اول بشریٰ بی بی کا کردار تھا ۔اپنی وزات اعلیٰ کے دوران بزدار نے جیسی بری کارگردی کا مظاہرہ کیا اس سے عمران خان غالبا خود کو بری الذمہ قرار نہےں دے سکتے ۔ واضح رہے کہ بانی موصوف کے دورِ حکومت میں معیشت کی تباہ حالی کسی سے ڈھکی چھپی نہیں۔ ڈالر کی قیمت تاریخ کی بلند ترین سطح پر پہنچ گئی، مہنگائی نے عام آدمی کی کمر توڑ دی، اور حکومت کا ہر معاشی فیصلہ ناکامی سے دوچار ہوتا گیااور آئی ایم ایف سے قرضے لینے کے باوجود ملک میں استحکام نہ آسکا۔ایسے میں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا عمران خان کو معیشت کی پیچیدگیوں کا کوئی ادراک تھا یا صرف دعوے ہی ان کی حقیقت تھی؟یاد رہے کہ موصوف کا سب سے بڑا نعرہ کرپشن کے خلاف جنگ تھا لیکن کیا واقعی یہ جنگ غیر جانبدار تھی؟ یہ خود بذات ایک بڑا سوال ہے۔ مبصرین کے مطابق اپوزیشن کو تو ہر ممکن طریقے سے نشانہ بنایا گیا، لیکن اپنے ہی وزراءاور اتحادیوں کے خلاف وہی سختی کیوں نہ دکھائی گئی؟ کیا احتساب کا نعرہ محض سیاسی مخالفین کو کچلنے کےلئے تھا؟۔مبصرین کے مطابق عمران خان نے ہمیشہ پاکستان میں ایک نئے نظام کی بات کی، لیکن جب خود حکومت میں آئے تو ان کے وزراءاور مشیران پرانے نظام کے پروردہ نکلے۔ واضح رہے کہ وہ بیوروکریسی پر کنٹرول حاصل نہ کرسکے، اپنی جماعت کے اندرونی اختلافات کو قابو میں نہ رکھ سکے اور ایک کمزور حکمران کے طور پر نظر آئے۔جب عمران خان کو 2022 میں تحریک عدم اعتماد کے ذریعے اقتدار سے ہٹایا گیا، تو انہوں نے ایک نیا بیانیہ گھڑ لیا – امریکی سازش۔ وہ بار بار یہ دعویٰ کرتے رہے کہ انہیں ایک عالمی سازش کے تحت اقتدار سے ہٹایا گیا، لیکن آج تک کوئی ٹھوس ثبوت پیش نہ کر سکے۔ پھر بعد میں اسی امریکہ سے تعلقات بہتر کرنے کی کوششیں بھی کرتے رہے۔ تو کیا یہ سب محض ایک جذباتی ہتھیار تھا؟ کیا عمران خان نے عوام کو ایک نئی سازش میں الجھا کر اپنی ناکامیوں پر پردہ ڈالنے کی کوشش کی؟۔یاد رہے کہ موصوف کے حامی انہیں مسیحا سمجھتے ہیں، ایک ایسا لیڈر جو کرپٹ نظام سے ٹکرا کر پاکستان کو ترقی کی راہ پر گامزن کرے گا۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ ان کے دور میں بھی کرپشن ختم نہیں ہوئی اور الٹا ادارے مزید کمزور ہوئے، اور پاکستان کے سیاسی اور معاشی حالات مزید خراب ہوئے۔ ان کے سپورٹرز کی اندھی عقیدت ان کے لیے ایک طاقت بھی بنی اور ایک کمزوری بھی۔یہ امر دلچسپ ہے کہ وہ تنقید برداشت نہیں کرتے، سوالات کا سامنا نہیں کرتے اور ہر مخالف آواز کو سازش قرار دیتے ہیں۔کیا عمران خان دوسرا موقع چاہتے ہیں؟آج عمران خان جیل میں ہیں، ان پر درجنوں مقدمات چل رہے ہیں، اور ان کی جماعت کمزور ہو چکی ہے ۔ لیکن وہ اب بھی خود کو پاکستان کا واحد نجات دہندہ قرار دے رہے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ کیا عمران خان کو واقعی دوسرا موقع ملنا چاہیے؟ اگر وہ دوبارہ اقتدار میں آتے ہیں تو کیا وہ پہلے سے بہتر پرفارم کر سکیں گے یا پھر وہی غلطیاں دہرائیں گے ؟ سنجیدہ حلقوں کے مطابق بانی کی کہانی ایک سبق ہے کہ شہرت آپ کو اقتدار تک لے جا سکتی ہے، لیکن اقتدار کو کامیابی سے چلانے کےلئے اہلیت، تجربہ اور حقیقت پسندانہ فیصلے ضروری ہیں۔ عمران خان کی شخصیت کرشماتی ہے، ان کے نعرے پرکشش ہیں، لیکن کیا وہ ایک م¶ثر حکمران بننے کے اہل تھے؟ یا ان کی سیاست محض جذباتی نعروں اور سازشی بیانیوں کا امتزاج تھی؟یہ فیصلہ عوام کو کرنا ہے کہ آیا وہ پھر سے شہرت کے سحر میں گرفتار ہو کر عمران خان کو موقع دینا چاہتے ہیں یا حقیقت کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر ایک نئے راستے کا انتخاب کریں گے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے