کالم

قوم کی بیداری اور عوام کو شعور کیسے دیا جائے؟

قومیں اسی وقت ترقی کرتی ہیں جب وہ اپنے حقوق سے آگاہ ہوں اور ان کے لیے جدوجہد کرنے کا حوصلہ رکھتی ہوں مگر افسوس کہ کبھی کبھار ایسی صورتحال کا سامنا کرنا پڑتا ہے جہاں علم، شعور اور حق کی آواز لوگوں کے دلوں تک پہنچنے کے باوجود اثر نہیں ڈالتی سلانوالی جیسے وسائل سے مالا مال ضلع کا حال بھی کچھ ایسا ہی ہے میں نے کئی بار ضلع کے مسائل، رائلٹی فنڈز اور عوامی حقوق پر لکھا، آواز بلند کی، مسائل اجاگر کیے، اور اپنی تحریروں کے ذریعے عوام اور اربابِ اختیار تک پیغام پہنچانے کی کوشش کی لیکن افسوس ہوتا ہے جب لوگ پڑھنے کی زحمت ہی نہیں کرتے یا پڑھ کر بھی انجان بن جاتے ہیں۔یہی وجہ ہے کہ کبھی کبھی دل مایوس ہو جاتا ہے کہ آخر ایسی قوم کو کیسے جگایا جائے جو اپنی آنکھوں کے سامنے حق تلفی ہوتے دیکھ کر بھی خاموش رہتی ہے کیسے انہیں احساس دلایا جائے کہ وہ ایک زندہ قوم ہیں اور زندہ قومیں کبھی اپنے حق پر سودے بازی نہیں کرتیں لکھنے والا لکھتا ہے بولنے والا بولتا ہے لیکن جب سننے والے سننے کو تیار نہ ہوں تو بات کہاں جا کر رکتی ہے۔تعلیم یافتہ افراد سے امید ہوتی ہے کہ وہ شعور اور سمجھ بوجھ کا مظاہرہ کریں گے لیکن افسوس کہ کبھی وہ بھی ایسی باتیں اور حرکتیں کرتے ہیں جو جہالت کی نشان دہی کرتی ہیں قوم کی ترقی کا سفر علم، شعور اور بیداری کے بغیر ممکن نہیں اور بیداری صرف جلسوں یا نعروں سے نہیں آتی بلکہ علم کے دروازے کھولنے سے آتی ہے جو قوم اپنے حقوق سے ناواقف رہے، جو لوگ اپنی زمین کے وسائل پر خاموشی اختیار کریں اور جو افراد اپنی نسلوں کے مستقبل کو نظرانداز کریں وہ کبھی ترقی کی راہ پر نہیں چل سکتے۔سوال یہ ہے کہ ہم ان لوگوں کو کیسے جگائیں کیسے انہیں احساس دلائیں کہ خاموشی غلامی کی علامت ہے سب سے پہلے تو ہمیں لوگوں کے اندر خود اعتمادی پیدا کرنی ہوگی انہیں بتانا ہوگا کہ آپ کے وسائل آپ کا حق ہیں جو دولت آپ کی زمین سے نکلتی ہے اس کا پہلا حق آپ ہی کو ہے یہ سمجھانے کی ضرورت ہے کہ خاموشی سے محرومی بڑھتی ہے اور آواز اٹھانے سے راستے کھلتے ہیں۔ہمیں اپنے نوجوانوں کو شعور دینا ہوگا کیونکہ تبدیلی کی اصل طاقت نوجوانوں کے ہاتھ میں ہوتی ہے انہیں یہ احساس دلانا ہوگا کہ اگر آج وہ خاموش رہے تو کل کو ان کی آنے والی نسلیں بھی اسی محرومی اور پسماندگی کی زندگی گزاریں گی اسکولوں، کالجز اور مساجد میں شعور بیداری مہمات شروع کرنی چاہئیں جہاں نہ صرف مسائل پر بات کی جائے بلکہ ان کے حل اور عوامی شراکت داری پر بھی زور دیا جائے۔میڈیا اور سوشل میڈیا کا دور ہے لیکن بدقسمتی سے لوگ سنجیدہ تحریریں یا معلوماتی مضامین پڑھنے کے بجائے غیر ضروری چیزوں پر وقت ضائع کرتے ہیں ہمیں اس رجحان کو بدلنا ہوگا ہمیں ایسے آسان الفاظ میں پیغامات دینا ہوں جو ہر فرد کی سمجھ میں آئیں صرف تحریری پیغامات نہیں بلکہ ویڈیوز، آڈیو پیغامات اور عوامی اجتماعات کے ذریعے بھی شعور پھیلایا جا سکتا ہے۔میں اپنی تحریروں سے جو کچھ کر سکتا ہوں وہ کر رہا ہوں اور کرتا رہوں گا ، لیکن تبدیلی اس وقت آئے گی جب ہر فرد اپنی ذمہ داری سمجھے گا اگر ہم نے آج بیدار نہ کیا، اگر ہم نے آج ان کو نہ جگایا، تو کل کو ہمیں ہی اس غفلت کی قیمت چکانی پڑے گی زندہ قومیں صرف حقوق مانگتی نہیں، لڑ کر اپنے حقوق حاصل کرتی ہیں سلانوالی سمیت پاکستان کے عوام کو یہ سمجھنا ہوگا کہ ان کی خاموشی ان کے حق پر ڈاکہ ڈالنے والوں کی حوصلہ افزائی کر رہی ہے۔آئیے! ہم سب مل کر یہ عہد کریں کہ ہم خاموش نہیں رہیں گے ہم اپنے حق کے لیے آواز بلند کریں گے ہم اپنی قوم کو جگانے کے لیے ہر ممکن کوشش کریں گے ہمیں ایک زندہ قوم بننا ہے جو اپنے وسائل، اپنے حقوق اور اپنی نسلوں کے مستقبل کی حفاظت کرے آج اگر ہم جاگ گئے تو کل ہماری نسلیں ہمیں دعائیں دیں گی، اور اگر خاموش رہے تو تاریخ ہمیں معاف نہیں کرے گی یہ وقت صرف سوچنے کا نہیں، عمل کرنے کا وقت ہے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے