بھارتی وزارت خارجہ کے ایک سابق اہلکار نے جنسی تشدد، قتل اور مجرموں کی ادارہ جاتی پشت پناہی میں بھارتی سفارت کاروں کے ملوث ہونے کے بارے میں چونکا دینے والے انکشافات کئے ہیں۔ سوشل میڈیا پر وائرل ہونے والی ایک ویڈیو میں بیان کئے گئے انکشافات نے بھارت کے سفارتی حلقوں میں استثنیٰ کے بڑھتے ہوئے کلچر کو بے نقاب کیا ہے جس سے عالمی سطح پر ملک کی اخلاقی حیثیت پر سنگین سوالات اٹھ رہے ہیں۔ سابق اہلکار نے ایک دردناک کیس کا حوالہ دیا جس میں بنگلہ دیش میں بھارتی ہائی کمیشن کے تین ملازمین نے ایک نابالغ کو مبینہ طور پر زیادتی کا نشانہ بنانے کے بعد قتل کر دیا تھا۔ متاثرہ لڑکی کی لاش کو ایک سرکاری سفارتی گاڑی میں باہر پھینک دیا گیا تھا جس کا مقدمہ اب بنگلہ دیش میں زیر سماعت ہے۔ اس واقعے سے بھارت کی منافقت واضح ہوتی ہے جو اپنے مجرموں کی پردہ پوشی کرکے دنیا کو انسانی حقوق پر لیکچر دیتا ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ اگر بھارتی سفارت کار بیرون ملک اس طرح کے گھناﺅنے جرائم کا ارتکاب کر سکتے ہیں تو مقبوضہ جموں و کشمیر جیسے متنازعہ خطوں میں صورتحال اس سے بھی بد تر ہو سکتی ہے۔ انہوں نے کنن پوش پورہ اجتماعی عصمت دری کے سانحے اور آسیہ اور نیلوفر کے کیس کو بھی اس کا واضح ثبوت قرار دیا۔ ان کا استدلال ہے کہ دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت ہونے کے بھارتی دعوے اس وقت کھوکھلے ثابت ہو جاتے ہیں جب طاقت کا استعمال انصاف کو دبانے اور مجرموں کو بچانے کے لئے کیا جاتا ہے۔بھارتی وزیراعظم نریندر مودی کی پارلیمان کے بیشتر ارکان خواتین کے خلاف جرائم میں ملوث نکلے، جن میں سے زیادہ تر کا تعلق حکمران جماعت بی جے پی سے ہے۔دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت کی دعوے دار مودی سرکار خواتین کو تحفظ دینے میں مکمل طور پر ناکام ہو چکی ہے۔ اقتدار کی ہوس نے مودی کو اندھا کر دیا جس کے باعث مودی نے مجرموں پر مشتمل کابینہ تشکیل دے دی۔حال ہی میں بھارت کی ایسوسی ایشن آف ڈیموکریٹک ریفارمز نے خواتین کے جرائم سے متعلق ایک رپورٹ شائع کی ہے، جس کے مطابق 151عوامی نمائندوں کو خواتین کے خلاف سنگین جرائم کے الزامات کا سامنا ہے۔ ان 151 عوامی نمائندوں میں 16 کے خلاف عصمت دری اور ریپ کے سنگین مقدمات درج ہیں۔رپورٹ میں مزید کہا گیا ہے کہ عصمت دری میں سب سے زیادہ مودی کی جماعت بی جے پی کے نمائندے ملوث ہیں۔ بھارتی حکمراں جماعت بی جے پی کے 54 موجودہ ارکان پارلیمنٹ اور ارکانِ اسمبلی خواتین کے خلاف جرائم سے متعلق مقدمات میں ملوث ہیں۔بی جے پی کے 5 سے زائد ارکان پارلیمنٹ اور ایم ایل ایز عصمت دری کے کیسز میں مطلوب ہیں۔ مودی سرکار کے اقتدار میں آتے ہی خواتین کے ساتھ زیادتی اور فوجداری کے سنگین جرائم میں اضافہ ہوا ہے۔بھارت کی مرکزی کابینہ میں بھی مودی کی جانب سے مجرموں کو نمائندگی دی گئی ہے۔ بی جے پی کے ممبر اور وزیر داخلہ بندی کمار سنجے کے خلاف 42 مقدمات درج ہیں جن میں 30 سے زائد خواتین کے خلاف جرائم سے متعلق ہیں۔نیشنل الیکشن واچ کی رپورٹ کے مطابق بی جے پی اور اتحادی وزرا کے خلاف خواتین سے متعلق 19مقدمات درج ہیں۔ بی جے پی کے 2 ارکان مغربی بنگال میں قتل کے الزامات کا سامنا کر رہے ہیں۔ایسوسی ایشن فار ڈیموکریٹک ریفارمز کی رپورٹ کے مطابق مختلف وزارتوں کا حلف اٹھانے والے 72 میں سے 71 وزرا کسی نہ کسی جرم میں ملوث ہیں۔ خواتین کے خلاف سنگین جرائم اور نفرت انگیز تقاریر پربی جے پی کے شانتنو ٹھاکر پر 23 اورسکانتا مجمدار پر 16مقدمات درج ہیں۔ بی جے پی کے دیگر اہل کاروں سریش گوپی اور جوال اورم پر بھی خواتین کے خلاف جرائم کے مقدمات درج ہیں۔رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ بی جے پی کے 8 وزرا جن میں امِت شاہ، شوبھا کرندلاجے، دھرمیندر پردھان، گری راج سنگھ اور نتیا نند رائے پر نفرت انگیزی کو پروان چڑھانے اور خواتین مخالف مقدمات درج ہیں۔ بی جے پی اور اتحادیوں کے خلاف سنگین جرائم میں حملے، قتل، عصمت دری اور اغواجیسے سنگین جرائم شامل ہیں۔عصمت دری کے مجرموں کی پشت پناہی کرنے والی مودی سرکار پوری دنیا کے سامنے بے نقاب ہو چکی ہے۔ اکیسویں صدی میں بھی جمہوریت کی دعویدار مودی سرکار خواتین کے تحفظ میں ہمیشہ ناکام رہی ہے۔بھارت میں آزادی کے بعد ہزاروں فسادات ہوئے جن میں لاکھوں افراد مارے گئے۔ چونکہ یہ فسادات یا تو انتظامی نااہلی کے سبب ہوتے ہیں یا پھر حکومت کی پشت پناہی سے اس لیے فسادیوں کے خلاف عموماً کوئی کارروائی نہیں کی جاتی۔ہزاروں انسانوں کے قاتل سیاسی تحفظ اور پشت پناہی کے ساتھ بے خوف و خطر گھوم رہے ہیں۔ فسادات میں بڑا نقصان ہمیشہ مذہبی اقلیتوں کا ہی ہوتا رہا ہے۔گجرات کے فسادات بھارت کی تاریخ میں پہلے ایسے فسادات تھے جن کی جیتی جاگتی خوفناک تصاویر لوگوں نے ٹیلی ویژن کے توسط سے پہلی بار براہِ راست دیکھیں۔ 1984 کے سکھ مخالف فسادات اس سے کہیں بڑے پمیانے پر ہوئے تھے اورفسادیوں نے انسانیت کے خلاف جرائم کی نئی تاریخ لکھی تھی لیکن چار ہزار انسانوں کے قتل اور دس ہزار سے زیادہ انسانوں کو مجروح کرنے کے جرم کی پاداش میں شاید دس افراد کو بھی سزا نہیں ہوئی۔گجرات میں بھی یہی صورت حال تھی۔ متاثرین نے حقوقِ انسانی کی تنظیموں کی مدد سے رپورٹس درج کرائیں لیکن پولیس نے اس طرح ان معاملوں کی تفتیش کی کہ ایک کے بعد ایک سارے کیس ڈھے گئے۔ بالآخر سپریم کورٹ کی مداخلت سے اس کے مقررہ افسروں نے دوبارہ جانچ کی اور مقدمات میں اب تک سینکڑوں قصورواروں کو سزائیں مل چکی ہیں۔ ان میں مودی کی ایک خاتون وزیر بھی شامل ہیں۔