داخلی اور قومی سلامتی کے غیر جانبدار ماہرین کے مطابق یہ امر خصوصی توجہ کا حامل ہے کہ ایک مضبوط اور منظم ریاست ہی حقیقی معنوں میں عوام کے جان و مال کے تحفظ، معیشت کی بحالی، اور قومی خودمختاری کے دفاع کو یقینی بنا سکتی ہے کیوں کہ جب قوانین کا نفاذ کمزور ہو، مجرموں کو کھلی چھوٹ دی جائے، اور انصاف تاخیر کا شکار ہو، تو نہ صرف عوامی اعتماد مجروح ہوتا ہے بلکہ جرائم اور بدامنی کو بھی تقویت ملتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ سخت گیر ریاستی نظام کو اپنانا پاکستان جیسے ملک کے لیے ناگزیر ہو چکا ہے۔یاد رہے کہ ایک سخت ریاست کا پہلا اصول یہ ہے کہ وہ قوانین کو م¶ثر طریقے سے نافذ کرے اور مجرموں کو فوری اور عبرتناک سزائیں دے۔ اگر ریاست کمزور ہو اور عدالتی عمل میں تاخیر ہو، تو بدعنوان عناصر اور مجرم گروہ بے خوف ہو کر سرگرم رہتے ہیں۔ اس کے برعکس، جب قانون فوری حرکت میں آتا ہے اور کسی بھی غیر قانونی عمل کو فوراً روکا جاتا ہے، تو نہ صرف جرم کی شرح کم ہوتی ہے بلکہ عوام میں ریاست پر اعتماد بھی بحال ہوتا ہے۔کیوں کہ یہ کوئی راز کی بات نہےں کہ پاکستان کو داخلی اور خارجی سیکیورٹی مسائل کا سامنا ہے، جن میں دہشت گردی، انتہا پسندی، اور سرحدی خلاف ورزیاں شامل ہیں۔ ان چیلنجز سے نمٹنے کیلئے ایک سخت اور موثر سیکیورٹی پالیسی کی ضرورت ہے جو ملکی خودمختاری کا مکمل تحفظ کرے۔ ایک مضبوط ریاست ہی اپنے دشمنوں کے خلاف سخت موقف اختیار کر سکتی ہے اور اندرونی خلفشار کو جڑ سے ختم کر سکتی ہے۔اس ضمن میں یہ امر توجہ کا حامل ہے کہ معیشت کی بحالی کے لیے مافیاز، بدعنوانی، اور ٹیکس چوری کےخلاف فیصلہ کن اقدامات کرنا ہونگے۔ بدعنوان عناصر کو انجام تک پہنچائے بغیر معیشت میں بہتری ممکن نہیں۔ لہذا ریاست کو چاہیے کہ سخت فیصلے لےکر غیر قانونی معیشت اور کرپٹ نظام کو جڑ سے اکھاڑ پھینکے، تاکہ حقیقی ترقی کی راہ ہموار ہو سکے۔سنجیدہ ماہرین کے مطابق ایک سخت ریاست ہی وہ واحد حل ہے جو پاکستان کو جرائم، بدامنی، اور معاشی زوال سے بچا سکتی ہے۔ قوانین کا سخت نفاذ، فوری انصاف، اور کرپشن کے خلاف جنگ، ریاست کو مضبوط اور عوام کو محفوظ بنا سکتی ہے ورگرنہ اس کے بغیر ترقی اور استحکام ایک خواب ہی رہے گا۔اسی ضمن میں آرمی چیف جنرل عاصم منیر کی زیر صدارت 268ویں کور کمانڈر کانفرنس منعقد ہوئی جہاں شہدا کے ایصال ثواب کے لیے فاتحہ خوانی کی گئی اور شرکا نے مادر وطن کے امن و استحکام کے لیے شہدائے افواج پاکستان، قانون نافذ کرنے والے اداروں اور شہریوں کی لازوال قربانیوں کو خراج عقیدت پیش کیا گیا۔واضح رہے کہ کورکمانڈرز فورم میں کہا گیا کہ بلوچستان میں تمام ملکی اور غیر ملکی عناصر کا اصل چہرہ، گٹھ جوڑ اور انتشار پھیلانے اور پروان چڑھانے کی کوششیں پوری طرح بے نقاب ہو چکی ہیں، ایسے عناصر اور ایسی کوششیں کرنے والوں کوکسی بھی قسم کی معافی نہیں دی جائےگی۔ فورم نے ہر قیمت پر بلاتفریق دہشت گردی ختم کرنے کے عزم کا اعادہ کیا اور کہا گیا کہ پاکستان کو غیر مستحکم کرنے کی کوشش کرنےوالے ملک دشمن عناصر، سہولت کاروں اور ان کی حوصلہ افزائی کرنےوالوں کے خلاف ریاست پوری طاقت سے نمٹے گی۔یہ امر توجہ کا حامل ہے کہ فورم کے مطابق بعض مذموم سیاسی اور سماجی عناصر بلوچستان میں بدامنی کو ہوا دینے کی کوشش کر رہے ہیں، تاہم عوام کی غیر متزلزل حمایت سے ان کوششوں کو ناکام بنایا جائے گا۔ اسی ضمن میں فورم کے شرکانے کہا کہ بلوچستان کے عوام پاکستان کے ساتھ ہیں اور ان کی ترقی اور خوشحالی کے لیے ریاست کسی بھی حد تک جائےگی۔ یاد رہے کہ اجلاس میں نیشنل ایکشن پلان کے تحت دہشت گردی کے خاتمے کے لیے جاری حکمت عملی پر بھی تبادلہ خیال کیا گیا اور اس کے تیز اور م¶ثر نفاذ پر زور دیا گیا۔ اسی تناظر میں مزید کہا گیا کہ ملک میں دہشتگردوں اور ان کے سہولت کاروں کے لیے کوئی جگہ نہیں ہے، اور قانون نافذ کرنے والے ادارے پوری طاقت سے ان کے خلاف کارروائی کریں گے۔یہ امر بھی توجہ کا حامل ہے کہ آرمی چیف نے پاکستان بھر میں نیشنل ایکشن پلان کے تحت قائم ہونے والی ضلعی رابطہ کمیٹیوں کے آغاز کو سراہا اور اس بات پر زور دیا کہ تمام ادارے ایک دوسرے کے ساتھ ہم آہنگی اور تعاون کو یقینی بنائیں تاکہ دہشت گردوں کی مالی معاونت کا مکمل خاتمہ کیا جا سکے۔ اسی حوالے سے یہ بھی کہا گیا کہ غیر قانونی سرگرمیاں دہشت گردوں کی مالی مدد سے منسلک ہیں، اس لیے ریاستی ادارے حکومتی ہدایات کے مطابق سخت قانونی اقدامات کو یقینی بنائیں گے۔واضح رہے کہ اس عزم کا اعادہ کیا گیا کہ پاکستان کی سلامتی پر کوئی سمجھوتہ نہیں کیا جائےگا اور دہشت گردی کے مکمل خاتمے کے لیے ریاست ہر ممکن اقدام کرے گی۔فورم نے کہا کہ پاکستان کو غیر مستحکم کرنے کی کوشش کرنےوالے عناصر، ان کے سہولت کاروں اور ان کی حمایت کرنے والوں کو پوری طاقت سے نمٹا جائے گا۔ قانون کی عمل داری پر کوئی سمجھوتہ نہیں کیا جائے گا اور تمام ریاستی ادارے آئین کے دائرہ کار میں رہتے ہوئے قانون پر عمل درآمد کو یقینی بنائیں گے۔اجلاس میں بھارت کے غیر قانونی طور پر مقبوضہ جموں و کشمیر میں جاری انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں پر بھی گہری تشویش کا اظہار کیا گیا۔ اسی حوالے سے فورم نے لائن آف کنٹرول (ایل او سی) پر بھارتی افواج کی بلا اشتعال جنگ بندی کی خلاف ورزیوں کو بھی اجاگر کیا اور کہا کہ عالمی برادری کو بھارتی جارحیت کا نوٹس لینا چاہیے۔کور کمانڈرز نے اس بات پر زور دیا کہ پاکستان مقبوضہ کشمیر کے عوام کے حقوق کے لیے اپنی سفارتی، سیاسی، اور اخلاقی حمایت جاری رکھے گا اور عالمی سطح پر کشمیر میں ہونے والی انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کو اجاگر کرنے کی مستقل کوششیں جاری رہینگی۔علاوہ ازیں کانفرنس میں فلسطین کے عوام کے ساتھ مکمل یکجہتی کا اظہار کرتے ہوئے غزہ میں ہونے والی انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں اوربدترین جنگی جرائم کی شدید مذمت کی گئی۔ فورم نے اس بات پر زور دیا کہ فلسطینی عوام کو ہر ممکن سفارتی، سیاسی، اور اخلاقی حمایت فراہم کی جائے گی۔اس تمام تناظر میںسنجیدہ حلقوں نے توقع ظاہر کی ہے کہ انسانی حقوق کے تمام عالمی ادارے بھی اپنی ذمہ داریاں موثر ڈھنگ سے نبھائیں گے۔