کالم

پاک امریکہ تعلقات ،امکانات کی نئی بلندیاںپر

سفارتی مبصرین کے مطابق یہ امر خصوصی توجہ کا حامل ہے کہ پاکستان اور امریکہ کے تعلقات ایک بار پھر اہم موڑ پر آ چکے ہیں کیوں کہ حالیہ دنوں میں ڈونلڈ ٹرمپ اور پاکستان کے چیف آف آرمی اسٹاف کے درمیان دو گھنٹے سے زائد کی ملاقات نہ صرف دونوں ممالک کے درمیان قریبی تعلقات کا ثبوت ہے بلکہ یہ ایک تاریخی لمحہ بھی ہے، جو مستقبل میں دوطرفہ تعاون کے وسیع امکانات کی بنیاد بن سکتا ہے۔یاد رہے کہ یہ ملاقات ایک ایسے وقت میں ہوئی جب پاکستان اور بھارت کے درمیان چار روزہ فوجی کشیدگی نے خطے کو جنگ کے دہانے پر لا کھڑا کیا تھا۔ اس بحران میں پاکستان نے مکمل سنجیدگی، قانونی جواز اور علاقائی استحکام کو مدنظر رکھتے ہوئے اقدامات کیے جبکہ بھارت نے جارحانہ، غیرقانونی اور غیرذمہ دار رویہ اپنایا، جو بین الاقوامی امن و سلامتی کے اصولوں کے خلاف تھا۔ملاقات کے دوران صرف سیکیورٹی معاملات ہی زیر بحث نہیں آئے بلکہ تجارت، اقتصادی ترقی، مصنوعی ذہانت، کرپٹو کرنسی، انسداد دہشت گردی، حتیٰ کہ ایرانـاسرائیل کشیدگی جیسے موضوعات پر بھی تفصیلی گفتگو کی گئی۔سنجیدہ حلقوں کے مطابق اس وسیع تر ایجنڈے سے واضح ہوتا ہے کہ پاکستان اب صرف جیو اسٹریٹیجک نقطہ نظر نہیں بلکہ جیو اکنامک وژن کو اپنانے کی جانب بھی سنجیدگی سے گامزن ہے۔ امداد کے بجائے تجارت اور سرمایہ کاری پاکستان کی ترجیح ہے۔پاکستان اب عالمی منظرنامے میں ایک مستحکم اور ذمہ دار ملک کے طور پر ابھر رہا ہے، جو مغربی ایشیا میں ایک کلیدی کردار ادا کر رہا ہے اور جنوبی ایشیا میں امن و استحکام کا ضامن بھی ہے۔ا س تمام صورتحال کا جائزہ لیتے ہوئے مبصرین نے کہا ہے کہ پاکستان خطے میں کسی بھی قسم کی جغرافیائی کشمکش کا حصہ نہیں بننا چاہتا بلکہ ایک پُرامن شراکت دار کے طور پر خود کو منوانا چاہتا ہے۔اس ضمن میں پاکستان کی خواہش ہے کہ امریکہ کے ساتھ تعلقات صرف سیکیورٹی یا اسٹرٹیجک بنیاد پر نہ ہوں بلکہ تجارت، توانائی، زراعت اور معدنیات جیسے شعبوں میں باہمی مفاد کی بنیاد پر مستحکم کیے جائیں۔ وضح رہے کہ امریکہ پہلے ہی پاکستان کی برآمدات کی سب سے بڑی مارکیٹ ہے، جو امریکی اعتماد کا مظہر ہے اورٹرمپ انتظامیہ کی طرف سے ٹیرف سے متعلق خدشات کو باہمی مشاورت سے باآسانی حل کیا جا سکتا ہے۔کیوں کہ پاکستان یہ سمجھتا ہے کہ امریکہ کی بین الاقوامی مالیاتی اداروں میں رسائی اور اثر و رسوخ پاکستان کی معاشی بہتری کے لیے اہم ثابت ہو سکتا ہے۔ پاکستان نہ تو چین کے ساتھ اپنے تعلقات کو امریکہ کے خلاف استعمال کرتا ہے اور نہ ہی کسی اور ملک کے ساتھ شراکت کو صفر جمع (zeroـsum) کھیل سمجھتا ہے۔بلکہ پاک چین اقتصادی راہداری (CPEC) بھی پاکستان کی معیشت کو مستحکم کرنے کا ایک ذریعہ ہے، نہ کہ کسی کے خلاف کوئی منصوبہ۔یہ امر بھی اہم ہے کہ امریکی سرمایہ کاروں کے لیے پاکستان میں توانائی، کان کنی، سیاحت، نیلا معیشت، ساحلی ریزورٹس، آئی ٹی، سائبر سیکیورٹی، خوراک کی صنعت، اور ماہی گیری جیسے شعبوں میں بے پناہ مواقع موجود ہیں، جہاں نہ صرف امریکہ فائدہ اٹھا سکتا ہے بلکہ پاکستان کو بھی ترقی کی نئی راہیں فراہم ہو سکتی ہیں۔مبصرین کے مطابق پاکستان چاہتا ہے کہ امریکہ پاکستان کو اس کی اصل حیثیت میں دیکھے، نہ کہ بھارت، چین یا افغانستان کے تناظر میں۔کیوں کہ امر نہایت اہم ہے کہ پاکستان جنوبی ایشیا کا دوسرا اہم ترین ملک ہے، جو نہ صرف انسانی و قدرتی وسائل سے مالا مال ہے بلکہ مسلم دنیا میں بھی ایک منفرد مقام رکھتا ہے۔یہ کوئی راز کی بات نہیں کہ بھارت کی جانب سے پاکستان میں ریاستی دہشت گردی کی سرپرستی خطے کے امن کے لیے خطرہ ہے اور امریکہ کو اس حقیقت کا ادراک ہونا چاہیے کہ بھارت نہ صرف خطے میں بالادستی چاہتا ہے بلکہ پاکستان کے خلاف مسلسل محاذ آرائی اور جارحیت کی روش پر گامزن ہے۔حالانکہ پاکستان نے ہمیشہ مسئلہ کشمیر کو اقوام متحدہ کی قراردادوں کے تحت پرامن طور پر حل کرنے کی حمایت کی ہے، اور صدر ٹرمپ کی مسئلہ کشمیر پر ثالثی کی پیشکش کو پاکستان نے خیرمقدم کیا ہے۔ لیکن امریکہ کو جنوبی ایشیا میں متوازن پالیسی اپنانی ہوگی کیوں کہ بھارت کو اسلحہ کی فراہمی، اس کی جنگی تیاریوں اور یکطرفہ حمایت خطے میں عدم توازن کا باعث بن رہی ہے۔دلچسپ امر یہ ہے کہ امریکہ نے گزشتہ دو دہائیوں میں بھارت کو سفارتی، عسکری اور صنعتی میدان میں غیر معمولی حمایت دی، جبکہ بھارت نے چین کے ساتھ اربوں ڈالر کی تجارت کو جاری رکھا۔ اس کے باوجود بھارت کی دفاعی حکمت عملی، ہتھیاروں کی خریداری، فوجی مشقیں سب پاکستان کے خلاف مرکوز ہیں۔اس ضمن میں ‘ ‘ نام نہاد سرجیکل اسٹرائیک” جیسا بیانیہ صرف بھارت کے اندرونی سیاسی مقاصد کو حاصل کرنے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے، جس سے اس کی اصل اسٹرٹیجک سوچ عیاں ہوتی ہے۔پاکستان کا جوہری و میزائل پروگرام صرف بھارت کے خلاف ہے اور کبھی کسی دوسرے ملک کے لیے خطرہ نہیں رہا۔ پاکستان نے ہمیشہ اسٹریٹیجک استحکام کے لیے تجاویز پیش کیں جنہیں بھارت نے مسترد کیا لیکن واضح رہے کہ پاکستان یکطرفہ طور پر اپنے دفاع سے کبھی بھی دستبردار نہیں ہو سکتا۔افغانستان ایک بار پھر پاکستان اور امریکہ کے درمیان تعاون کا ایک اہم موقع فراہم کر رہا ہے، جہاں دونوں مل کر دہشت گردی کے خلاف کام کر سکتے ہیں۔ پاکستان کی قربانیاں بے مثال ہیں، اور امریکہ کو چاہیے کہ افغانستان میں دوبارہ دہشت گرد گروہوں کے ابھار کو روکنے کے لیے پاکستان سے قریبی تعاون کرے کیوں کہ پاکستان عرصہ دراز سے ریاستی دہشت گردی کا شکار ہے۔ یاد رہے کہ امریکہ میں امریکی شہریوں کو قتل کرنے کی کوشش کرنے والے غیر ملکی ایجنٹس کی گرفتاری ہو چکی ہے، اور پاکستان نے بھی کلبھوشن یادیو جیسے بھارتی جاسوس کو پکڑا ہے، جس نے بلوچستان میں دہشت گردی کو فروغ دینے کا اعتراف کیا۔اس تمام صورتحال کا جائزہ لیتے ہوئے مبصرین نے کہا ہے کہ پاکستان امریکہ کے لیے ایک قابل اعتماد، ذمہ دار اور مخلص شراکت دار ہے، جو اپنی جغرافیائی اہمیت اور جیو اکنامک پوزیشن کی وجہ سے امریکہ کے لیے ایک قیمتی دوست ثابت ہو سکتا ہے۔ وقت آ گیا ہے کہ امریکہ پاکستان کو ایک خودمختار اور آزاد ریاست کے طور پر دل سے قبول کرے، جو صرف اپنے عوام کی بھلائی اور خطے میں پائیدار امن چاہتا ہے۔اس تمام پس منظر میں یہ توقع رکھنی بجا نہ ہوگی کہ امریکہ پاکستان کی بابت زیادہ مثبت اور فعال کردار ادا کرتے ہوئے نہ صرف مسئلہ کشمیر کے حل میںمعاونت کرئے بلکہ معاشی میدان میں پاکستان کا ساتھ دے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے