گزشتہ سے پیوستہ
اور پھر وہ اس امداد کو طرح طرح سے لوٹنے کے منصوبے بنائیں ، اب تک وہ کامیاب ہین ، ملک اور اس کے عوام معاشی طور پر کمزور حالات میں رہیں تو ان کی کامیابی ہے ، نسل درنسل وہ اپنے حقوق کیلئے جدوجہد کرنا پڑے اسے یقیناً جبر کا دور کہا جاتاہے اور اگر صرف دعا کا سہارا ہی باقی رہ جائے تو اسے ظلم کا زمانہ کہا جاتا ہے وہ دور جس میں کچھ لوگ حق سے محروم ہوں اور کچھ حق سے زیادہ حاصل کررہے ہون تو اسے افراتفری کا زمانہ کہا جاتا ہے ، ہم پر ملک کے حقوق اداکرنا لازمی ہے ، ہمین وطن پرست ہونا چاہیے ، اس پر آنچ نہ آنے دیں ملک کے محافظ بنیں،ڈاکے ڈالنے والے نہ بنیں، میرے ملک کے حصول کیلئے بہت خون بہایا گیا ، بڑے کٹھن مراحل سے گزرنا ہوا ، بڑے مشکل زمانے آئے بڑے طوفانوں سے محفوظ رہا ، اس سفر میں ایک بڑا حادثہ بھی رونما ہوگا،ملک حکومت کی ذمے داری ہوئے ہیںلیکن عوام کے بغیر ملک صرف جعفرافیہ ہوتا ہے ، حکومت اور عوام ملکر وطن کی تعمیر کریںتو پھر ترقی ہوتی ہے، ہمارے ہاں عوام کی شمولیت کے ساتھ ایک قلیل ترین مدت کیلئے منظر عام پر آیا ہے ، مستقبل ناکامیاں عوام کا مقدر اور کامیابیاں حکومت کرنے والوں کا نصیب، یہ فرق مٹتا ہوا نظر نہیں آرہا ، اس وقت معاشرہ مایوسیوں کی درد سے کراہتا ہوا محسوص ہورہا ہے، گھریلو اخراجات آمدنی سے کہیں زیادہ ہیں، تنخواہ دار طبقہ سال اسی امید پر گزاردیتا ہے کہ بجٹ میں ان کو بھی نوازا جائیگا لیکن ان کے نصیت میں دس پرسنٹ اور چھ پرسنٹ کی فگر رہ جاتی ہے ، سرکاری بڑے آفسران کی تنخواہیں ،مراعات اور اس طرح دیگر شعبوں کے اعلیٰ آفیسرز کی مراعات دیکھیں تو محسوس ہوتا ہے ، اعلیٰ مراتب والے الگ مخلوق ہیں اور نچلے درجے کے ملازمین گھٹیا مخلوق ہیں، ان کو دووقت دال روٹی مل جائے تو یہی ان کا حامل ہے۔ اس خواہش سے مزید انکی بیوقوفی کا ثبوت ہوگا کیونکہ بندوں کو اپنی اوقات میں رہنا چاہیے، پھیلے چلے جانے کی تو کوئی حد ہی نہیں ہوتی ، حکومت اور اسکے کارندے بھیک منگوں کی طرح پیٹ بھرے ملکوں سے قرض لیتے تاکہ عوام سے پیٹ کا دوزخ بھرا جاسکے ، یہ کسی احسان کو نہ مانتے ہیں اور نہ ہی محسوس کرتے ہیں ، عوام کو بہت کفایت شعار ہونے کی ضرورت ہے کیونکہ ملک کا قرض اعلیٰ طرز زندگی نہیں گزاردیں گے تو معاشی طور پر طاقتور ملک کیسے قرض دیں گے ، پھٹے پرانے لباس میں تو انہیں کوئی لفٹ بھی نہیں کرائے گا،فائیوسٹار ہوٹل اور مرسیڈیز گاڑیوں میں آکر وہ نہیں رہیں گے تو پاکستان کا نام کیسے روشن ہوگا، عوام بیوقوف ہیں اپنے اچھے اور براے میں تعریف نہیں کرسکتے ، عوامی لیڈر آسمانی مخلوق ہوتے ہیں ، عوام میں اور ان میں فاصلہ رہنا ضروری ہے تاکہ محکوم اور حاکم کا فرق واضح رہے ، سوچنے والا ذہن اور محسوس کرنے والا دل نصیب والوں کو عطا ہوتا ہے ، ہماری عوام خواص اللہ سے غافل ہیں ، سب کی زندگیاں حجابات میں کھوچکی ہے ، خالق کے خیال اور اس کے احکامات کوچھوڑ کر دنیاداری کے خودساختہ اصولوں پر گامزن رہنا ناکامی کا واضح ثبوت ہے ، ہم صرف دنیاوی زندگی کو کامیاب ، کامران بنانے کے اصولوں کو اپنائے ہوئے ہیں، روح مردہ ہو چلی ہے ، اپنی ذات کے علاوہ معاشرے کیلئے فلاحی کام کرنا اصل زندگی ہے ، خالق اور مخلوق دونوں کے ساتھ تعلق نبھانا اور وہ بی خالق کے حکم کے مطابق فلاحی معاشرے کی پہچان ہے ، دعا ہے کہ ہمارے ملک پر وہ وقت آئے جب عوام کے حقوق انہیں آسانی سے ملیں ، جان مال ، عزت آبرو شب و روز پرسکون فضائیں گزریں ، زندگی اپنی تمام رعتائیوں کے ساتھ سلامت رہے ، ہم اس ملک کے امین ہیں، ملک سلامت تو ہم سلامت ، غربت اور بھیک منگوں کی کیٹیگری سے نکل کر اس ملک کی پہچان اسلامی معاشرہ ،ترقی ، خوشحالی فلاح، بہبود اور میر ملک کی ہونی چاہیے ، 75برس کا عرصہ ہمیں شرمندہ ہونے کیلئے کافی ہے ، ہمارا مزاج ڈنڈے والوں کی بھیکی سے چلتا ہے ، اب تو ماشاء اللہ سو فیصد اسلامی ڈنڈا ہے ، بے لوث ایماندارانہ فضا، ماحول اور ذاتی کردار بے مثال ، اب تو ملک کے خون چوسنے والی چونکوں سے چھٹکارا حاصل کرلینا چاہیے یا پھر انہیں اللہ ہدایت دے جو کچھ وہ سمیٹ رہے ہیں وہ سب کچھ یہی رہ جائے گا ، خالی ہاتھ اور سفید کپڑے میں لپٹا ہوا مردہ جسم دوگز زمین کے ٹکڑے کیلئے یہ انجام ہے ، متکبر خود غرض ہوس میں لپٹی ہوئی زندگی کا۔ ۔۔۔(ختم شد)
کالم
آئینہ میرے روبرو ہے
- by web desk
- جون 22, 2025
- 0 Comments
- Less than a minute
- 133 Views
- 1 مہینہ ago