کالم

چل چوٹھا

نوجوان نسل دوران تعلیم آنے والی زندگی کیلئے ایک مقصد بناتی ہے تاکہ آنے والا زمانہ آسانی سے گزر ے لیکن جب وہ زمانہ حقیقت بن کر سامنے آتا ہے تو یوں محسوس ہوتا ہے کہ وہ زمانہ جیسے آنا تھا وہ آیا ہی نہیں بلکہ کچھ اور ہی آگیا ، خوفناک بھیانک سا جس سے جان نہیں چھڑائی جاسکتی ، جوانی میںایک آسان آسائشوں سے بھرپور زمانہ گزارنے کیلئے سرکاری ملازمت کو ترجیح دی جاتی ہے ، کوشش کے بعد اگر سرکاری ملازمت مل جائے تو آپ جب تک ساٹھ برس کے نہیں ہوجاتے تب تک تو اپنے نصیب کی سہولتوں کے ساتھ پرسکون وقت گزارلیتے ہیں ، محدود وسائل کے باوجود زندگی اچھی گزر جاتی ہے لیکن جب آپ ریتائرمنٹ کی عمر یعنی ساٹھ سال کے ہوجاتے ہیں تو پھر اجنبیت کا دور شروع ہوجاتا ہے وہ سرکاری رہائشگا ہ جس میں آپ نے زندگی کا طویل عرصہ گزار وہاں سے اس طرح نکالا جاتا ہے جیسے اس درودیوار سے ہمارا کوئی رشتہ تھا ہی نہیں ، پنشن کی رقم سے اگر مکان کا کرایہ دیا جائے تو پھر باقی رقم میں پورا مہینہ کیسے گزرے، بچوں کی شادیاں اپنی بیماری پر ادویات کی مد میں خرچ ہونے والی رقم مختلف بلوں کی ادائیگی کے بعد کیا کھایا جائے اور کیا بچا یا جائے ، پنشن سے گزر نہیں ہوتی ۔ ہم ایک تنگ گلی سے گزر کر بند گلی کا شکار ہوجاتے ہیں، سرکاری نظام ایک سنگین ڈسپلن کے طور پر ہمیںجکڑ کر رکھ دیتا ہے ، نیا مکان نہ بنا سکتے ہیں اور نہ ہی پرانے میں رہ سکتے ہیں کیونکہ وہ سرکاری تھا ، بچوں کے مسائل حل ہونے باقی ہیں ، کیا یہی پرتعیش زندگی تھی جس کے خواب دیکھے تھے جو دور خوبصورت نظر آتا تھا قریب سے دیکھا گزرا اور پھر منزل پر پہنچ کر احساس ہوا کہ بھیانک خواب دیکھا تھا جس کی تعبیر بھی بھیانک ہے ، سرکاری درجات بے مقصد اور بے معنی لفظ بن کر رہ جاتے ہیں ، بدقسمتی یہ ہے کہ زندگی انہی درجات میں لپٹی گزر جاتی ہے ، انا افسرانہ رہتی ہے اور حالات یکدم غریبانہ بن جاتے ہیں۔ ہم خود کو عالی مرتب سمجھتے رہتے ہیں لیکن مرتبے خواب ہوچکے ہوتے ہیں ، حالات کی تبدیلی حیرانی میںجکڑ لیتی ہے اور پھر وہ پریشانی بن کر منہ چڑاتی ہے ، با اختیار افسر کہلوانے کے باوجود بے اختیاری دبوچ لیتی ہے ، کچھ ایسے بھی خوش بخت افسرہوتے ہیں جو کبھی ریٹائر نہیں ہوتے ، ہر بار ان بے چاروں کو کوئی نہ کوئی معقول وجہ اپنی سروس جاری رکھنے پر مجبور کردیتی ہے اور ان کیلئے حال ہی مستقبل کا زمانہ ہوتا ہے ، وہ کبھی ریٹائرڈنہیں ہوتے بس اللہ کی مرضی اس میں کسی انسان کا کیا دخل ہوسکتا ہے ، ان کے نصیب ہی ایسے ہیں خوش نصیبی گھر کی باندی بن کردیتی ہے۔جب باندی نے انہی کے گھر رہنا پسند کرلیا ہوتو پھر حسد کیسا مونث ہوکرکہیں بھی رہ لے۔ شرط یہ ہے کہ اسے سنبھالنے کا فن آنا چاہیے۔ ایسے لوگ اعلیٰ فنکار ہوتے ہیں کھیل رچائے رہتے ہیں ۔ ہم سماج میں مرتبہ چاہتے ہیں لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ صاحبان مرتبہ کا کردار کبھی کبھی وہ نہیں ہوتا جو ہونا چاہیے۔ سیاست کا میدان مختلف نوعیت کا ہوتا ہے۔ تعلیم سے شعبے کا الگ سرکاری ملازمت کا الگ۔ ایسے شعبے جس میں تنخواہ تھوڑی ہونے کے باوجود لوگ اسے اپنانا چاہتے بہت کامیاب ہیں ۔ ان کے قرب ، جوار میں خفیہ خزانے ہوتے ہیں جن سے وہ اپنی بساط کے مطابق فیض یاب ہوتے رہتے ہیں ۔ ان کی کمائی کس حد تک جائز اور حلال ہے آپ خود اندازہ لگا لیں ۔ رشوت تو اسلام میں منع ہے اور ہمارے ملک میں سب مسلمان ہیں یعنی اکثریت تو پھر یہاں کون رشوت لے سکتا ہے اسے ہم ماننے میں پہل نہیں کریں گے۔ یہ رشوت دینے والے ہی پاگل لوگ ہیں ۔ بس فٹا فٹ پیسے نکال کر میز پر رکھ دیتے ہیں۔ آخر انسان حالات کے ہاتھوں مجبور تو ہو ہی جاتا ہے ۔ بس یہی وجہ ہو سکتی ہے رشوت دینے اور لینے کی۔ کیا اعلیٰ تعلیم بڑے عہد ے ملازمت کے مختلف مدارج اس عمل میں کہیں کہیں ملوث ہیں۔ سوچنے کی بات ہے کہ کیااعلیٰ تعلیم کے بعد ملازمت آسانی سے مل جاتی ہے کیا ملاز مت زندگی پر سکون گزارنے کے مواقع فراہم کرتی ہے ماہانہ تنخواہ اتنی ہے کہ ناگہانی حالات کا مقابلہ بھی ہو سکے ۔ آمدنی کم اور اخراجات جو کہ جائز ہوں انہیں پورا کرنے کی ضمانت ہیں ۔ تم تلقین شاہ تو بنے رہتے ہیں لیکن ایسے یقین شاہ جو ہر طرح کے حالات گزار نے کی صلاحیت رکھتے ہوں بہت کم ہیں۔ پھر حالات کے سائبان میں پناہ لینے والے سوچنے میں وقت ضائع نہیں کرتے۔کون کس کو برا کہے حمام میں اکثریت ننگے لوگوں کی ہے ۔ سب نے بے حیائی کے چشمے لگائے ہوئے ہیں ۔ کوئی کسی کو برہہ نظر نہیں آتا۔جو نشاندہی کرتا ہے وہ پاگل کہلاتا ہے ۔ پیسہ تو سبزی فروش د کاندار کے پاس بھی ہوتا ہے جسے لمبے چوڑے علم کے بغیر سارا دن مال ملتا رہتا ہے ۔ سیاستدان اللہ ان پر رحم کرے غریبوں کے امیر نمائندے نئے اور پیرا نے امیروں کی نمائش گاہ کے باسی جہاں غریب قوم کی قسمت کے فیصلے حقیقتوں کو جانے بغیر کئے جاتے ہیں اور پھر غریب تالیاں بجا کر اپنی غربت اور محرومیوں کو چھپانے کی جعلی کوششیں کرتے ہیں۔ مقصد دولت کا زیادہ یا پھر کم ہونا نہیں بلکہ راستے کا صحیح انتخاب ہے جو منزل پر بغیرخوف، خطر پہنچادے۔ اگر مقصد دولت کمانا ہے تو پھر ڈاکے ڈالنے والے قلیل وقت کیلئے کامیاب کہے جاسکتے ہیں لیکن نہیں یہ معیار نہیں بن سکتا ۔ انسان کا مقصد اللہ کے بنائے ہوئے مقصد سے ہم آہنگ ہونا چاہئیے ۔ اگر ہم ایمانداری سے اپنا جائزہ لیں تو چند منٹوں میں معلوم ہو جاتا ہے کہ ہم کہاں کھڑے ہیں اعمال اور اسکی مطابقت میں نتائج کیا حاصل ہو رہے ہیں۔ اگر ہم خود جائز ذرائع سے دولت کمانے کے اصولوں کو نہیں جانتے تو پھر اپنی غسل کو کیا تعلیم اور تربیت دے سکتے ہیں جنہوں نے آنے والے وقت کو سنبھالنا ہے۔ ایک بیوہ خاتون کا واقعہ میں آپ کو سناتاہوں اسکے خاوند کو انتقال کئے ہوئے عرصہ گزر گیا خود وہ کافی عمر رسیدہ ہو گئیں بیمار بھی رہنے لگیں ان کا ایک ہی بیٹا تھا اسے انہوں بڑے مشکل حالات میں رہتے ہوئے بی اے تک پڑھایا کوشش کے باوجو راس بیٹے کو کہیں جاب نہ مل سکی ایک دن اشتہار چھپا کہ پولیس کے محکمے میں تعلیم یافتہ کا نسٹیبل بھرتی کئے جائیں گے دلچسپی رکھنے والے اصحاب فلاں تاریخ تک اپنی درخواستیں ڈی آئی جی صاحب کے دفتر کے پتے پر ارسال کریں۔ لہٰذا بیوہ خاتون کے اکلوتے بیٹے نے بھی درخواست بھیج دی۔ تحریری امتحان انٹرویو اور طبی معائنے کے بعد وہ صاحبزا دے خوش قسمتی اور بیوہ ماں کی دعائوں سے کام یاب ہو گئے ٹیئرنگ کے بعد اس کی ڈیوٹی بھی لگ گئی ۔ شام کو جب وہ صاحبزادے گھر واپس آتے تو ماں کے لئے موسمی پھل ضرور لے کر آتے ۔چند دن تو ماں دیکھتی رہی پھر مجبور ہو کر اپنے بیٹے سے پوچھنے لگی”سوہنیااے روز میرے لئی پھل کتھوں لے کے آنا، تیرے کول پیسے زیادہ آون لگ پئے نے” بیٹے نے حیران ہو کر ماں کو دیکھا اور بولا” ماں جی تساں پھل کھائو اے حلال پیسیاں دے آمیں حرام نہیں کھاندا”ماں یہ جواب سن کر کچھ دیر خاموش رہی اور پھر بیٹے کے چہرے پر نظریں جما کر کہنے لگی۔ چل چوٹھا پھل بول دے آ کہ اساں حلال دے پیساں دے نئیں ، بیٹے نے اٹھ کر ماں کے قدموں کو چومتے ہوئے کہا اماں جی پھل سچ بول دے آ ۔ میری تو بہ میں آئندہ ایہہ کم نہ کرساں، ضمیر جاگ پڑے تو زندگی سیدھے راستے پر چل پڑتی ہے بس اس کاجگانا ہی سخت طلب کام ہے۔ اللہ اور اسکے محبوب کی طرف دھیان ہوجائے تو پھر آسانیاں قدم چومنے خود پہنچ جاتی ہیں۔ کوشش فرض ہے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے