غیرقانونی طورپر بھارت کے زیر قبضہ جموں وکشمیرمیں بالخصوص جموں خطہ میں3جولائی سے شروع ہونے والی امرناتھ یاترا کی سیکورٹی کے نام پر پابندیاں مزید سخت کر دی گئی ہیں۔ پولیس ترجمان نے میڈیا کو بتایا ہے کہ جموں شہر میں کئی اضافی چوکیاں قائم کی گئی ہیں۔ امرناتھ یاترا کی سیکورٹی کے نام پر بھارتی پولیس، سینٹرل ریزرو پولیس فورس، سینٹرل انڈسٹریل سیکورٹی فورس،، انڈو تبتین بارڈر پولیس اور دیگر ایجنسیوں کے اہلکاروں کوبھی تعینات کیا گیا ہے۔پولیس کے سینئر افسران اہلکاروں کی چوکسی ،پیشہ ورانہ مہارت اورکڑی نگرانی کو یقینی بنانے کے لیے چوکیوں پر کارروائیوں کی خود نگرانی کر رہے ہیں۔گاڑیوں اورمسافروں کی تلاشیوں ، شناخت کی تصدیق اور مشکوک نقل و حرکت کا پتہ لگانے پر خصوصی توجہ دی جا رہی ہے۔ پولیس ترجمان کے مطابق ہوٹلوں، گیسٹ ہائوسز اوردیگر کی چیکنگ کی بھی ہدایات جاری کی گئی ہیں۔ پولیس نے شہریوں اور یاتریوں کو ہدایت کی ہے کہ وہ پولیس کی ٹیموں کے ساتھ تعاون کریں، اپنی شناخت کروائیں اور کسی بھی مشکوک سرگرمی کی فوری اطلاع دیں۔ پولیس کی چوکیاں انتہائی حساس اور زیادہ نقل و حرکت والے علاقوں میں چوبیس گھنٹے فعال رہیں گی۔اسی طرح کی پابندیاں سرینگر سمیت وادی کشمیر کے کئی اضلاع میں بھی عائد کی گئی ہیں۔اسلام آباد ضلع میں روایتی 48کلومیٹر پہلگام اور گاندربل ضلع میں 14کلومیٹر بالتل کے راستے38روزہ سالانہ امرناتھ یاترا 3جولائی سے شروع ہو رہی ہے۔یاتریوں کا پہلاگروپ یاترا کے آغاز سے ایک دن قبل جموں کے بھگوتی نگر بیس کیمپ سے کشمیر کیلئے روانہ ہوگا۔واضح رہے کہ پہلگام فالس فلیگ آپریشن کے باعث رواں سال ہندو یاتریوں کی تعداد میں نمایاں کمی واقع ہوئی ہے جس کا اعتراف مقبوضہ کشمیر کے لیفٹیننٹ گورنرمنوج سنہا نے اپنی حالیہ تقریر میں کیا ہے ۔بھارتی حکومت نے یاتریوں کی حفا ظت کی آڑ میں ایک لاکھ کے قریب اضافی فورسز اہلکار مقبوضہ علاقے میں تعینات کر دیے ہیں۔ سری نگر جموں شاہراہ کے اہم مقامات پر ماہر نشانہ باز اہلکار تعینات کیے گئے ہیںجبکہ یاتریوںکے قافلوں کی ڈرون کیمروں سے نگرانی کی جائے گی جبکہ جدید ہتھیاروں سے لیس بھارتی فورسز اہلکار انکی حفاظت پر مامور ہونگے۔یاد رہے کہ مودی کی فرقہ پرست بھارتی حکومت ہندو امرناتھ یاترا کے بحفاظت انعقادکے لیے اپنے تمام وسائل بروئے کار لا رہی ہے جبکہ اس نے دیگر آزادیوں کیساتھ ساتھ کشمیری مسلمانوں کی مذہبی آزادی بھی سلب کر رکھی ہے۔ مسلمانوںکو جمعہ اور عید کی نماز سے اکثر روکا جاتا ہے۔ میر واعظ عمر فاروق کو 05 اگست 2019 سے عید کی کوئی نماز ادا نہیں کرنے دی گئی، جامع مسجد سرینگر اور عید گاہ سرینگر اگست 2019سے عید نماز کیلئے مسلسل بند ہیں۔ بھارتی انتظامیہ نے کئی کشمیری علمائے دین کو بھی برسہا برس سے نظر بند کر رکھا ہے۔مقبوضہ کشمیر میں غاصب بھارتی فوج کے ظلم و ستم پرہٹلرکی روح بھی کانپ اٹھی ہے،مگرنہتے کشمیریوں پرظلم کے پہاڑتوڑتے ہوئے بھارتی حکومت اورفوج کو شرم نہیں آئی۔کشمیریوں پر بد ترین ریاستی دہشت گردی کر کے حقوق انسانی کی کھلی خلاف ورزی کی جارہی ہے۔دنیا اس حقیقت سے بخوبی آگاہ ہے کہ بھارت نے مقبوضہ کشمیر کے عوام کو محض عسکری طاقت کے بل بوتے پر نہ صرف اپنا غلام بنا رکھا ہے،بلکہ اس نے کشمیری عوام پر ظلم و ستم اور جبر و تشدد کے ایسے پہاڑ توڑے ہیں جن کا کوئی اخلاقی یا سیاسی جواز پیش نہیں کیا جا سکتا۔ کل جماعتی حریت کانفرنس آزاد جموں و کشمیر کی طرف سے حال ہی میں جو تفصیلات فراہم کی گئی ہیں ان کے مطابق مقبوضہ کشمیر میں 1989ء سے اب تک 94ہزار سے زائد بے قصور اور بے گناہ افراد کو شہید کیا جا چکا ہے۔ اس کے نتیجے میں ایک لاکھ 7ہزار سے زائد بچے یتیم ہو گئے اور 22ہزار 7سو سے زائد عورتیں بیوہ ہو گئیں۔ اس کے علاوہ 10ہزار ایک سو سے زائد خواتین کی آبرو ریزی کی گئی۔ اس عرصے میں ایک لاکھ 6ہزار سے زائد مکانات اور دکانوں کو مسمار کر دیا گیا۔ اس ظلم و ستم کے باوجود مقبوضہ وادی کے عوام اپنے حق خود ارادیت کے حصول کے لئے پرامن جدوجہد جاری رکھے ہوئے ہیں۔ اگر بھارت اپنے تمام وسائل، عسکری قوت اور خزانہ مقبوضہ کشمیر میں بروئے کار لائے تو بھی وادی کی ہیئت تبدیل نہیں ہو گی۔ بھارتی قیادت کو اچھی طرح سمجھ لینا چاہیے کہ دھونس اور دباؤ کی پالیسی سے جذبہ آزادی ختم نہیں ہو گا۔عالمی برادری کے ساتھ ساتھ حقوق انسانی کے عالمی ادارے گزشتہ 25برسوں کے دوران لاپتہ کئے گئے 9ہزار سے زائد افراد کی بازیابی اور ان لوگوں کی گمشدگی سے متعلق حقائق کو منظر عام پر لانے کے لئے بھارت پر دباؤ ڈالیں۔ 8ہزار سے زائد گمنام قبروں میں دفن لوگوں کے اصل حقائق سے کشمیری قوم اور ان افراد کے لواحقین کو معلومات فراہم کرنا عالمی برادری کے ساتھ ساتھ انسانی حقوق کے عالمی اداروں کی ذمہ داری ہے۔ ہم عالمی برادری کو ان کی ذمہ داریوں کا احساس دلاتے ہوئے یہ اپیل کرتے ہیں کہ وہ کشمیری عوام پر جاری مظالم کے خاتمے کے لئے اپنا بھرپور کردار ادا کرے۔ اس کا واحد حل یہی ہے کہ کشمیریوں کو حق خود ارادیت دیا جائے۔ پاکستان کشمیریوں کے حق خود ارادیت کا حامی، جبکہ بھارت انکاری ہے۔ یہ مسئلہ اگر ابتدا ہی میں حل ہو جاتا یا سلامتی کونسل کی قرار دادوں کو سامنے رکھتے ہوئے کشمیریوں کو اپنی قسمت کا فیصلہ کرنے دیا جاتا تو آج جنوبی ایشیا ایک پرامن خطہ ہوتا، لیکن نہ تو اقوام متحدہ نے اس طرف کوئی دلچسپی لی اور نہ ہی بھارت نے اپنی ہٹ دھرمی چھوڑی اور آج تک یہ مسئلہ جوں کاتوں ہے۔ اقوام متحدہ اس پر خاموش تماشائی بنی ہوئی ہے۔ہم اقوام متحدہ سے اپیل کرتے ہیں کہ کشمیریوں کو حق خود ارادیت دیا جائے اور عالمی برادری سے بھی اپیل کرتے ہیں کہ پاکستان اور بھارت کے درمیان ثالثی کا کردار ادا کریں، تاکہ مظلوم کشمیری عوام کو ان کا حق خودارادیت مل جائے اور وہ بھی آزادانہ طور پر زندگی گزار سکیں۔