کالم

سبز پاکستان کی جانب پہلا قدم مون سون میں شجرکاری

دنیا بھر میں ماحولیاتی آلودگی، موسمیاتی تبدیلی اور حیاتیات کی تباہی جیسے سنگین مسائل تیزی سے بڑھ رہے ہیں۔ ان مسائل سے نمٹنے کیلئے درخت لگانا سب سے موثر، سستا اور دیرپا حل ہے۔ پاکستان جیسے ممالک میں جہاں شہری آلودگی اور درجہ حرارت بڑھ رہا ہے ، وہاں شجرکاری کی اہمیت اور بھی بڑھ جاتی ہے۔ تمام موسموں میں سے مون سون کا موسم درخت لگانے کیلئے سب سے موزوں مانا جاتا ہے، کیونکہ اس موسم میں فضا میں نمی، مٹی کی نرمی اور بارش کی فراوانی، پودوں کی نشوونما کیلئے بہترین ماحول فراہم کرتے ہیں۔ مون سون کے دوران مسلسل بارشوں کی وجہ سے زمین نرم ہو جاتی ہے، پانی کی قلت نہیں ہوتی، اور ہوا میں نمی کا تناسب بڑھ جاتا ہے۔ اس سے پودوں کو جڑیں مضبوط کرنے میں مدد ملتی ہے اور ان کی بقا کے امکانات زیادہ ہو جاتے ہیں ۔ اس موسم میں پودے پانی کیلئے محتاج نہیں ہوتے اور کم دیکھ بھال میں اچھی افزائش پا لیتے ہیں۔یہی وجہ ہے کہ مون سون میں شجرکاری مہمات پورے ملک میں زور پکڑتی ہیں۔زمین کھودنے میں آسانی، پانی کی فراہمی میں سہولت اور قدرتی آب و ہوا کے باعث لاکھوں پودے کامیابی سے لگائے جا سکتے ہیں۔درخت نہ صرف زمینی خوبصورتی کا ذریعہ ہیں بلکہ وہ فضا میں موجود زہریلی گیسوں جیسے کاربن ڈائی آکسائیڈ، سلفر ڈائی آکسائیڈ ، نائٹروجن ڈائی آکسائیڈ اور دیگر آلودہ عناصر کو جذب کر کے فضا کو صاف کرتے ہیں۔ درختوں کے پتے دھول، دھوئیں اور زہریلے ذرات کو بھی جذب کر لیتے ہیں اور ماحول کو خوشگوار بناتے ہیں۔ماہرین کے مطابق ایک مکمل درخت سالانہ اوسطا 48 پانڈ کاربن ڈائی آکسائیڈ جذب کرتا ہے اور قیمتی آکسیجن فراہم کرتا ہے۔ یوں درخت انسانی صحت اور زمین دونوں کیلئے قدرتی محافظ بن جاتے ہیں۔”گرین پاکستان” صرف ایک نعرہ نہیں، بلکہ ایک قومی وژن ہے جس کا مقصد وطنِ عزیز کو ماحولیاتی بحران سے نکال کر ایک سرسبز، خوشحال اور صحت مند ریاست میں تبدیل کرنا ہے۔ مہم کا بنیادی ستون شجرکاری ہے، کیونکہ درخت ہی وہ ذریعہ ہیں جو زمین کی زرخیزی، فضا کی صفائی اور قدرتی توازن کو برقرار رکھتے ہیں۔گرین پاکستان مہم کے تحت ہر شہری کو اپنی ذاتی، اجتماعی اور اخلاقی ذمہ داری ادا کرنا ہوگی۔ خواہ وہ کسان ہو یا طالب علم، تاجر ہو یا ملازم، سب کو آگے بڑھ کر اپنے حصے کا درخت ضرور لگانا چاہیے۔ ایک درخت نہ صرف آکسیجن فراہم کرتا ہے بلکہ آنے والی نسلوں کے لیے سایہ، خوراک، پناہ اور زندگی کا پیغام بھی لاتا ہے ۔ گرین پاکستان پروگرام کے تحت مختلف سرکاری اور نیم سرکاری ادارے، اسکول، کالج ، یونیورسٹیاں اور کمیونٹی تنظیمیں شجرکاری مہمات کا انعقاد کرتی رہی ہیں۔ تاہم یہ مہم اس وقت مکمل کامیاب ہو سکتی ہے جب عوام الناس بھی بھرپور جوش و جذبے کے ساتھ اس میں شریک ہوں۔درخت لگانے کے ساتھ ساتھ ان کی دیکھ بھال اور حفاظت بھی ہر شہری کا فرض ہے ۔ کئی بار دیکھا گیا ہے کہ مہمات کے دوران تو پودے لگائے جاتے ہیں مگر بعد میں انہیں پانی ، نگہداشت یا مناسب جگہ نہ ملنے کے باعث وہ ضائع ہو جاتے ہیں۔ گرین پاکستان کا خواب تبھی شرمند تعبیر ہو سکتا ہے جب ہم صرف شجرکاری نہ کریں، بلکہ "شجر پروری” کو بھی اپنا شعار بنائیں۔موجودہ دور میں درجہ حرارت میں مسلسل اضافہ اور موسمی بے ترتیبی دنیا بھر کیلئے خطرے کی گھنٹی بن چکی ہے۔ ایسے میں درخت وہ واحد ذریعہ ہیں جو ماحول کو ٹھنڈا رکھنے، بارش کے نظام کو برقرار رکھنے، اور زمین کو زرخیز رکھنے میں مدد دیتے ہیں۔درخت کاربن گیسوں کو جذب کر کے زمینی درجہ حرارت میں کمی لاتے ہیں۔ یہی عمل گرین ہاس ایفیکٹ کو کم کرتا ہے جو گلوبل وارمنگ کی بنیادی وجہ ہے۔ اس لیے شجرکاری دراصل ماحولیاتی تحفظ کی ایک سنجیدہ اور پائیدار حکمت عملی ہے۔اگر ہم واقعی پاکستان کو ماحولیاتی آلودگی، موسمیاتی تبدیلی، سیلاب، خشک سالی اور گرم موسم جیسے خطرات سے بچانا چاہتے ہیں تو ہمیں گرین پاکستان مہم کو دل سے اپنانا ہوگا۔ ہر مون سون، ہر موسم بہار اور ہر موقع پر درخت لگانے کو عادت بنا لیں۔ ہمارے آج کے لگائے ہوئے درخت کل ہماری زندگیوں کو سہارا دیں گے۔ایک سبز پاکستان صرف خوبصورتی کی علامت نہیں، بلکہ خود کفالت، ماحولیاتی تحفظ، معاشی ترقی اور عوامی صحت کی ضمانت ہے۔ ہمیں یہ مہم صرف سرکاری کاغذوں میں نہیں بلکہ زمین پر، گلیوں میں، دیہاتوں میں، شہروں میں، اسکولوں میں اور گھروں میں دیکھنی چاہیے۔درخت نہ صرف آکسیجن مہیا کرتے ہیں بلکہ فضائی آلودگی کو بھی کم کرتے ہیں جو انسانوں کی صحت پر براہ راست اثر انداز ہوتی ہے۔ سبز مقامات دماغی سکون، جسمانی فٹنس اور مثبت طرزِ زندگی کا ذریعہ بنتے ہیں۔ایسے شہر جہاں درخت کم ہیں وہاں گرمی کی شدت، سانس کی بیماریاں اور ذہنی دبا زیادہ پایا جاتا ہے۔ جبکہ وہ شہر جہاں درختوں کا جال بچھا ہو، وہاں زندگی کا معیار بہتر ہوتا ہے، اور لوگ خوشحال اور صحت مند ہوتے ہیں۔درخت زمین پر موجود ہزاروں اقسام کی حیات کیلئے نہایت اہم ہیں۔ پرندے، شہد کی مکھیاں، کیڑے مکوڑے اور دیگر جانور درختوں پر انحصار کرتے ہیں۔ درخت ان کیلئے خوراک، پناہ گاہ اور افزائش نسل کے مواقع فراہم کرتے ہیں۔ مون سون میں مقامی درختوں کی شجرکاری سے ہم ان حیاتیاتی نظاموں کو دوبارہ زندہ کر سکتے ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ زراعت، موسمی توازن اور ماحولیاتی خوبصورتی کو بھی فروغ ملتا ہے۔مون سون ہمیں ہر سال قدرت کی جانب سے ایک ایسا موقع فراہم کرتا ہے جس سے ہم زمین کا قرض چکا سکتے ہیں۔ درخت لگانا ایک خاموش مگر مثر احتجاج ہے ان تمام مسائل کے خلاف جو انسان نے خود پیدا کیے ہیں جیسے آلودگی، ماحولیاتی تبدیلی، گرمی، بیماری اور بے ترتیبی ۔ گرین پاکستان کا خواب تبھی شرمند تعبیر ہو گا جب ہر شخص آگے بڑھے گا اور نہ صرف درخت لگائے گا، بلکہ ان کی حفاظت اور پرورش کو بھی اپنی ذمہ داری سمجھے گا۔ آئیے! اس مون سون کو صرف بارشوں کا موسم نہ سمجھیں، بلکہ ایک سبز انقلاب کی شروعات کا وقت بنائیں ۔ درخت لگائیں، زمین سے وفا نبھائیں، اور آئندہ نسلوں کو زندگی کا تحفہ دیں۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے