لکھن صرف ایک شہر نہیں بلکہ تہذیب، شائستگی، نزاکت، نفاست، شاعری، کھانوں، لباس اور ادب کا ایک چلتا پھرتا انسائیکلوپیڈیا ہے اور جب لکھن کی ثقافت پر گفتگو یا تبصرہ کیا جائے تو بانکے کو فراموش کرنا ظلم ہوگا۔ لکھن کے بانکے اس تہذیب کا ایسا دلکش، دلچسپ اور منفرد پہلو ہیں جو آج بھی داستانوں میں زندہ ہے ۔ بانکہ کوئی عام شخصیت نہیں تھی بلکہ ایک سماجی کردار تھا۔ ایک ایسا کردار جس کی زندگی میں شوخی، نزاکت، لطافت اور انا کی ایک خاص جھلک ہوتی تھی۔ بانکے لکھن کی گلیوں، بازاروں اور چوکوں کی جان ہوتے تھے۔ ان کی بات چیت، چال ڈھال، لباس اور زبان کے انداز سے تہذیب کے رنگ جھلکتے تھے۔ لکھن کے بانکوں تاریخ، معاشرتی حیثیت، زبان و بیان، لباس و عادات، ان کے کردار اور ان کے مزاح نمایاں اور پرکشش ہے۔لفظ "بانکا” اردو میں جس انداز سے استعمال ہوتا ہے۔اس کے کئی رنگ ہیں۔ لغوی اعتبار سے بانکا اس شخص کو کہتے ہیں جو جاذب نظر، چمک دار لباس پہنے، خوش گفتار اور مخصوص انداز سے خود کو پیش کرے لیکن لکھن میں بانکے کا مطلب محض شوخ پوش شخصیت نہیں بلکہ وہ شخص ہوتا تھا جس کا طرزِ زندگی خود ایک فن ہوتا۔بانکہ صرف ایک ظاہری روپ نہیں بلکہ ایک تہذیبی و معاشرتی مظہر تھا جو سلیقے، وضع داری، زبان و بیان کی لطافت اور انا و وقار کا پیکر ہوتا تھا۔لکھن کے بانکے عموما متوسط یا نچلے طبقے سے تعلق رکھتے تھے، مگر ان کی شخصیت، خودداری اور وقار اعلی طبقے کے لوگوں کو بھی شرمندہ کر دیتا تھا۔ وہ خود کو کسی سے کم نہیں سمجھتے تھے۔ ان کے نزدیک عزت، زبان، لباس اور رکھ رکھا ہی سب کچھ تھا۔بانکوں کا لباس ان کی شخصیت کا اہم جز تھا۔ عموما بانکے کرتا، چوڑی دار پاجامہ، زری دار دوپٹہ یا صافہ پہنتے۔ ان کے جوتے کڑھائی دار یا نوکدار ہوتیاور پاں میں گھنگھرو یا چھوٹے چھوٹے زنجیری کنگن بھی ہوتے جو ان کی چال کو مزید دلکش بناتے۔بانکوں کی چال ایک خاص انداز سے ہوتی، جس میں غرور، نخوت، خودداری اور تھوڑا سا نخرہ شامل ہوتا۔ یہ چال ہی ان کی پہچان بن گئی تھی۔بانکے اپنی بات چیت میں عام زبان استعمال نہیں کرتے تھے۔ وہ مخصوص، مہذب اور تہذیبی اردو بولتے۔ ایسے جملے جن میں شوخی ہو مگر شائستگی بھی ہو۔بانکے گفتگو میں تمثیلوں، استعاروں اور رمزوں کا استعمال کثرت سے کرتے تھے اور اکثر باتوں کو سیدھا کہنے کے بجائے اشارتا ادا کرتے۔ یہ ان کی تہذیب کا حصہ تھا۔بانکے زیادہ تر محلوں، گلیوں یا چوکوں کے بادشاہ سمجھے جاتے تھے۔ ان کے آنے سے چوک کی رونق بڑھ جاتی تھی۔ وہ بچوں، بڑوں، اور عورتوں کے لیے ایک دلچسپ موضوع بن جاتے تھے۔اگرچہ بانکے بظاہر شوخ مزاج ہوتے تھے مگر ان کی اخلاقیات بہت مضبوط تھیں۔ وہ گالی نہیں دیتے، عورتوں کی عزت کرتے اور کسی پر ظلم یا زیادتی برداشت نہیں کرتے۔بانکوں کی گفتگو میں ظرافت اور لطیف مزاح شامل ہوتا تھا۔ ان کا انداز ایسا ہوتا کہ سامنے والا ہنستے ہنستے سوچنے پر مجبور ہو جاتا۔نواب نجم الدولہ کے زمانے میں ان کا ایک ذاتی بانکا ہوا کرتا تھا جسے صوفی بانکا کہا جاتا۔ اس کی گفتگو، لب و لہجہ، اور حاضر جوابی اتنی مشہور تھی کہ اس پر کئی نوادرات جمع کیے گئے۔لکھن کی تہذیب میں صرف مرد ہی بانکے نہیں تھے بلکہ کچھ خواتین بھی "بانکی” کہلاتی تھیں۔ ان کا انداز، لباس ، بات چیت اور چال میں بھی وہی نفاست ، ناز و انداز اور فخر ہوتا تھا۔وقت کے ساتھ ساتھ لکھن کی بانکی تہذیب بھی وقت کی گرد میں دبتی چلی گئی۔ نوآبادیاتی نظام، مغربی تہذیب کا اثر اور جدید شہری ثقافت نے اس خوبصورت کردار کو ناپید کر دیا۔آج بانکا بازار میں نہیں ملتا مگر ادب میں، افسانوں میں، ڈراموں میں اور کچھ فلموں میں وہ اب بھی زندہ ہے۔ بانکے میاں ایک استعارہ بن چکے ہیں۔شوخی، تہذیب اور دل لگی کا۔آج کا انسان، جو تیز رفتاری، بے تہذیبی اور مشینی انداز میں جیتا ہے، وہ بانکوں جیسے کردار کو سمجھ بھی نہیں سکتا۔ بانکا وقت کی ایک خوبصورت یاد ہے، جسے ہم محفوظ رکھ سکتے ہیں۔بانکے اب صرف ایک کردار نہیں بلکہ تہذیب، خوداری، نرمی اور شوخی کا استعارہ بن چکے ہیں۔ ان کی یاد میں ماضی کی خوشبو، ادب کی نزاکت اور زندگی کی ایک بے ساختہ مسکراہٹ پوشیدہ ہے۔لکھن کے بانکے نہ صرف شہر کی پہچان تھے بلکہ وہ تہذیب کا چلتا پھرتا نمونہ تھے۔ ان کی گفتگو، چال، لباس اور اخلاق ایک مکمل زندگی کا عکس تھے۔ آج جب معاشرہ دن بدن بے لطف، تلخ، اور مشینی ہوتا جا رہا ہے تو بانکوں کی یاد ہمیں اس بات کی تلقین کرتی ہے کہ تہذیب، شائستگی اور زندہ دلی کو اپنایا جائے۔بانکے ہمیں سکھاتے ہیں کہ زندگی میں حسن، لطافت اور شوخی کو کیسے شامل کیا جائے ۔ یہ تہذیب ابھی ختم نہیں ہوئی ، بس تھوڑا سا گرد میں چھپی ہوئی ہے۔ بانکے کا لباس اس کی شخصیت کا آئینہ دار ہوتا ہے۔ وہ فیشن کے روایتی معانی سے آگے بڑھ کر لباس کو خود اظہار، خود نمائشی اور خود اختیاری تہذیبی علامت کے طور پر برتتا ہے۔ گرم علاقوں میں پین کوٹ یا پینٹ شرٹ پہننا جہاں عقل کو حیران کرتا ہے، وہیں بانکے کے مزاج کو سمجھنے والوں کیلئے یہ عمل علامتی عظمت، انفرادیت کی ضد اور بانکپن کی آخری حد سمجھا جاتا ہے یعنی بانکا نہ صرف لباس پہنتا ہے بلکہ لباس کو اپنے نظریے کا لباس پہناتا ہے۔آج کے دور میں، جہاں تہذیب مصنوعی، فیشن نقالانہ، اور شخصیتیں مشینی ہوتی جا رہی ہیں، بانکے کا کردار ایک لطیف بغاوت، ایک خوش رنگ یاد اور ایک تہذیبی احتجاج کے طور پر ہمارے سامنے آتا ہے۔ وہ ہمیں یاد دلاتا ہے کہ جمالیات اور انفرادیت، ضد اور لطافت کے ساتھ بھی زندہ رکھی جا سکتی ہیں۔