کالم

بیوہ افسران

موضوع پر نظر پڑتے ہی آپ حیران ہوئے ہونگے کہ بیوگی کا مسئلہ تو خواتین کے ساتھ ہے کیا یہ مردوں پر بھی لاگو ہو سکتا ہے۔ گھبرائیے نہیں میں اس کے بارے میں آپ کو تفصیل سے بتاتا ہوں ۔ کیا آپ کو سر کاری کلاس ون افسر بننے کا پروسیجر معلوم ہے، جو اب یقینا ہاں میں ہوگا کیونکہ معلومات کا ذخیرہ اتنا بکھرا پڑا ہے کہ پاپڑ بیچنے والا بھی امریکہ پاکستان کے تعلقات اور حالات پر دل کھول کر تبصرہ جھاڑ دے گا ۔ بہر حال سرکاری افسر نے کے لیے بی اے تک تعلیم لازمی ہے۔ اس سے زیادہ تعلیمی معیار قابل ستائش ہے۔ سول سروسز میں ریکروٹمنٹ ہر سال فیڈرل پبلک سروس کمیشن کے ذریعے ہوتی ہے ۔ یونیورسٹی لیول پر طلبا کی اکثریت سرکاری افسر بننے کے خواب دیکھتی ہے یہی وجہ ہر سال ہزاروں کی تعداد میں امیدوار اس امتحان میں بیٹھے ہیں تا کہ وہ سی ایس ایس افسر کہلوا سکیں۔تعلیمی اداروں کی دو قسمیں ہوتی ہیں ایک سرکاری تعلیمی اداریجہاں اردورائج ہے اور دوسرے انگریزی تعلیمی ادارے ان اداروں میں خوشحال گھرانوں سے تعلق رکھنے والے طلبا تعلیم حاصل کرتے ہیں۔ابتدا ہی سے انگریزی زبان تعلیم حاصل کرنے کی وجہ سے لکھنا پڑھنا بولنا ان کے لیے مشکل نہیں ہوتا۔ اسی لیے کامیاب ہونے والوں میں ان کی تعداد زیادہ ہوتی ہے دوسرے طلبا جو اردو میڈیم کی پیداوار ہوتے ہیں وہ انگریزی میں کمزور ہونے کی وجہ سے سی ایس ایس کے تحریری امتحان میں ناکام ہونے والوں کی تعداد میں اضافے کا باعث بنتے ہیں ۔ ان بیچاروں کے خواب تعبیر سے محروم میں رہتے ہیں ۔ اس امتحان میں کامیاب ہونے والوں کی اکثریت انگریزی سکولوں سے تعلیم یافتہ ہوتی ہے اس کے لئے اور یو نیورسٹی سے اعلی تعلیم کی ڈگری لینے تک وہ نمایاں ہی رہتے ہیں۔ ہر سال تین چار ہزار امیدوار مقابل سے ایمان میں شرکت کرتے ہیں لیکن تحریری ایمان میں دو اڑھائی سو امید دار کامیاب ہوتے ہیں اسکی وجہ انگریزی زبان میں سوالوں کے جوابات ہیں۔ پھر انٹرویو کا مرحلہ ہوتا ہے بورڈ سے مبران انگریزی میں سوال کرتے ہیں اور امیدوار کو انگریزی زبان ہی میں جواب دنیا ہوتا ہے۔ اردو میڈیم دالوں کو دندل پڑ جاتی ہے۔ لیکن انگریزی سکولوں کے پڑھے ہوئے انگریزی یوں ہوتے ہیں جیسے ان کی مادری زبان ہی انگریزی ہو وہ تحریری امتحان اور پھر وائیوا میں بھی اچھے مارکس لے لیتے ہیں۔ گو یہ میڈ یکل کا مرحلہ آتا ہے اپنی تحریری امتحان انٹر ویو کے بعد جو امیدوار میرٹ پر نمایاں ہوتے ہیں وہ انتخاب میں آجاتے ہیں۔ ہرسال اسی مرحلے سے گزر کر تقریبا دو سو افسران سروسز کے مختلف گروپس کیلئے چنے جاتے ہیں۔ایک سال کی ٹرینگ سول سروسز اکیڈمی لاہور میں ہوتی ہے پھر کامیابی کے بعد اسلام آباد میں اسٹیبلشمنٹ ڈویژن رپورٹ کرتے ہیں جہاں سے انکی پوسٹنگ مختلف منسٹر یز میں کر دی جاتی ہے ڈی ایم جی پولیس کوفارن سروس کسٹمز کا مرسی پوسٹل سروس وغیرہ کے لیے جن کی ایلوکیشن ہوتی ہے وہ اپنے اپنے گروپ میں جا کر منیارٹی پروموشن وغیرہ سے گزرتے ہیں ان ابتدائی مراحل سے گزر کرسترہ گریڈ کی کلاس ون جاب سرکاری دفاتر میں خالی آسامیوں کو پر کرنے کے لیے حاصل ہوتی ہے۔ آجکل تنخواہ بھی بہت اچھی ہو چکی ہے ۔ میڈکل سرکاری رہائش یا پھر ہاوس رینٹ ساتھ دیگر سہولیات میسر ہوتی ہیں۔ یونیورسٹی سے طالب علم سرکاری افسر بن جانا زندگی میں بہت بڑی تبدیلی محسوس ہوتی ہے۔ سرکاری دفاتر میں افسر کا کمرہ اے سی کمپیوٹر ہر وقت مستعد نائب قاصد اسکا عملہ ہوتا ہے ۔ بعض سرویس گروپس میں سرکاری گاڑی بھی دی جاتی ہے۔ تاکہ سرکاری امور افسر آسانی سے ادا کر سکے۔یونیورسٹی پہنچنے کے لیے جو طالب علم ویگنوں اور بسوں میں دھکے کھا کر جاتا تھا جیب میں مشکل سے سو روپے ہوتے جب اپنی محنت اور اللہ کی مدد سے وہ افسر بن جائے اختیارات سرکاری طور پر حاصل ہو جائیں تو پھر دماغ ٹھکانے کیسے رہ سکتا ہے۔ فرق تو پڑتا ہے مالدار لوگ ایسے نوجوان افسروں کو زندگی بہتر سے بہترین کی طرف گامزن ہو دولت کے سہارے ان کو قابو کرنے کی کوشش کرتے ہیں ،افسر اگر متوسط طبقے سے تعلق رکھتا ہو تو اس کو بیٹھے بٹھائے بیوی اور دولت دونوں مل جاتی ہیں اور اگر دولتمند گھرانے سے تعلق رکھتا ہو تو مزید امیر ہو جاتا ہے۔ زندگی کے شب و روز حکمرانی کی طرف رخ موڑ لیتے ہیں عادات، خصائل کھانا پینا اٹھنا بیٹھنا معمولات زندگی میں نمایاں فرق آجاتا ہے ۔ آپ غور کریں 25 کروڑ عوام میں سے سرکاری افسران تعداد میںکم ہونے کے باوجود اپنی اپنی فیلڈ میں نمایاں ہیں ۔ عشرت دولت شہرت ،اختیارات پر سب کچھ ، ایک افسر اس وقت تک تحویل میں رہتے ہیں جب تک وہ ساٹھ سال کی عمر کو پہنچ کر ریٹائر نہیں ہو جاتا ۔ یہاں سے افسر کی زندگی یکسر تبدیل ہو جاتی ہے۔ سب کچھ ہونے کے بعد کچھ بھی نہیں، یہ تھا عروج سے زوال کا پیریڈ شروع ہو جاتا ہے جسے روکنا اس کے بس میں نہیں ہوتا ۔ سروس کا آخری دن اور پھر اس دن کے اختتامی مجھے بہت گراں گزرتے ہیں۔ اسے معلوم ہوتا ہے کہ کل صبح جب میں سو کر اٹھوں گا تو کچھ بھی نہیں ہوں گا صرف عہدے کا دم چھلہ تا نام کے ساتھ کٹتا رہے گا اور اس عہدے کے ساتھ آر لکھنا ضروری ہے کیونکہ عہدے کے اختیارات استعمال کرنے والا افسر اب ریٹائر ہو چکا ہے۔ وہ زندگی جو سرکاری امور طے کرنے میں مصروف تھی اب بے مقصد ہو کر رہ جاتی ہے ۔ ریٹا کر منٹ کی زندگی کا دور بڑا کھٹن ہے کیونکہ یہ نہائی کا دور ہوتا ہے۔ وہ لوگ جو قریب ہوتے ہیں دور ہو جاتے ہیں اسکی وجہ وہ افسر اب کسی کو نہ تو نقصان پہنچا سکتا ہے اور نہ ہی قاعدہ وہ ایک چلا ہوا کارتوس ہوتا ہے جسکی معاشرے میں کوئی وقعت نہیں ہوتی شب ، روز ایک طرح گزارے جاتے ہیں نہ کوئی کام نہ مصروفیت نہ ملنے جلنے والوں کی آمدو رفت کہیں ایک اکیٹو زندگی سے ان اکیٹو ہو جاتا ہے ۔ اسلام آباد قلب رٹیائر افسروں کا ڈیرہ ہے اگر وہاں چلے جائیں تو جان پہچان کے لوگوں سے ملاقات ہو جاتی ہے یا اپنے بیج کے ریٹائر افسروں سے گپ شپ ہو جاتی ہے۔ زندگی ایک شام کی طرح اداس سی ہو جاتی ہے۔ گھر والے بھی صاحب کے مستقل طور پر گھر بیٹھنے سے تنگ آجاتے ہیں کیونکہ اب انکا عمل دخل گھر کے ان امور میں بھی ہو جاتا جو خالصتا خواتین کے دائرہ اختیارات میں ہوتے ہیں۔ بیوی سے تلخ کلامی روز کا معمول ہوتا ہے اخراجات کو کم کرنے کی تلقین جاری رہتی ہے۔ حالانکہ آج کل حکومت کی طرف سے ہر ماہ پیشن بھی ٹھیک ٹھاک ملتی ہے۔ اعلیٰ تعلیم تربیت قابلیت اہلیت اور وسیع تجربہ کے باوجود سے نہیں وجہ پاس تمام صلاحیتوں زنگ لگ جاتا ہے ۔ جن افران کے قانون کی ڈگری ہو وہ وکالت کا شعبہ اختیار کر لیتے ہیں حکومت کو چاہیے وہ کوئی ایسا منصوبہ بنائیں جو ان تعلیم یافتہ اعلی عہدوں پر کام کرنے والیریٹائر ملازمین کو سکولوں کا لجوں اور یونیورسٹی میں طالب علموں کو ایک سود مند فرد بنانے کے لییلپکچرز دیں ان نو جوانوں کے خیالات و کردار کو بہتر بنائیں ان میں معاشرے کا ایک ذمہ دار شہری کی حقیقت سے فرائض ادا کرنے کا احساس اجاگر کریں ۔ ایک تعلیم یافتہ فورس ضائع کی جا رہی ہے حکومت جسے زندہ رہتے ہوئے اور انتقال کے بعد فیملی پیشین دیتی ہے ان سے تجربات کا قاعدہ نہیں اٹھا رہی۔ یہ فوڈ فار تھاٹ ہے غور کریں تو اچھا ہوگا۔ مرتبے اور عہدوں کے سائین بورڈ بھی اتر جاتے ہیں تو حقیقت کا سامنا کرنا مشکل امر ہوتا ہے۔ ہیرو سے زیرو بننے کا عمل بڑا کٹھن ہے ۔ وہ عہدے جو سرتاج ہوتے ہیں ان سے محروی بیوگی کی کیفیت ہے جس کی عزت تادم مرگ جاری رہتی ہے۔ قابل افسروں کی زندگی کا حکومت کو فائدہ اٹھانا چاہیے ورنہ طوطی کی آواز پر کون کان دھرے گا۔ گر قبول افتد ذئے عزو شرف۔ اب میں بھی اسی کیٹیگری میں ہوں جس کے بس میں خیرسے کچھ بھی نہیں سوائے مشوروں کے وہ بھی مفت ۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے