کالم

نئے قومی ہیروزتصویروں کی سیاست یا تاریخ کا قتل؟

یومِ آزادی آیا، جھنڈے لگے، ترانے بجے، خوشیاں منائی گئیں۔ مگر ایک سوال ذہن کو جھنجھوڑتا رہا۔ قائداعظم کہاں ہیں؟ تحریکِ آزادی کے رہنما کہاں ہیں؟ شہر کی شاہراہوں پر، سرکاری عمارتوں کے سامنے، بینرز اور پینا فلیکس تو ضرور آویزاں ہیں، لیکن ان پر وہی چہرے مسکراتے دکھائی دے رہے ہیں جنہیں روزانہ ٹی وی کی اسکرین پر دیکھا جاتا ہے۔ گویا آزادی کا دن بھی سیاسی تشہیر کا ایک نیا موقع بن گیا۔اب یومِ آزادی کسی قوم کے خواب اور جدوجہد کی یادگار نہیں رہا، بلکہ پبلک ریلیشننگ کا تازہ میدان ہے۔ بینر پر قائداعظم کی تصویر نہ سہی، وزیر کا چہرہ ہی کافی ہے۔ جیسے یہ پیغام دیا جا رہا ہو۔ قائداعظم کی ضرورت کس کو ہے؟ اصل ہیرو تو ہم ہیں ۔ سوال یہ ہے کہ کیا یہ ملک ان صاحبانِ اقتدار نے بنایا تھا؟ کیا 1947میں کسی وزیر یا کسی پارٹی رہنما نے لاہور کے جلسے میں قراردادِ پاکستان پیش کی تھی؟ یا پھر ان کی تصویریں اس وقت بھی چھپتی تھیں جب لاکھوں لوگ ہجرت کی قربانی دے رہے تھے؟ نہیں، اس وقت یہ موجود بھی نہ تھے۔ مگر آج آزادی کی تقریبات میں یہی "نئے ہیرو” چھائے ہوئے ہیں۔ سڑکیں، چوراہے اور گلیاں ایسی نظر آتی تھیں جیسے کوئی خاندانی البم دیواروں پر چسپاں کر دیا گیا ہو۔ لاہور کی سڑکوں پر چلتے ہوئے لگتا تھا کہ قائداعظم کہیں چھٹی پر گئے ہیں اور ان کی جگہ اقتدار کے وارثانِ وقت نے لے لی ہے۔ طنز یہ ہے کہ جنہوں نے کبھی ایک دن بھی آزادی کی تحریک میں حصہ نہیں ڈالا، وہ خود کو آزادی کا نشان بنا کر پیش کر رہے ہیں۔ اگر یہی رویہ جاری رہا تو شاید کل نصابِ تعلیم میں بھی 14 اگست کے ہیرو کے طور پرتحریک کے رہنماؤں کی جگہ پنجاب کے چند وزیروں کے نام شامل کر دیے جائیں۔حیرت ہے کہ جنہیں اپنی وزارت، اپنی کرسی اور اپنے عہدے کے سوا کچھ نظر نہیں آتا، وہ بھی اپنے آپ کو قوم کا نجات دہندہ سمجھنے لگے ہیں ۔ قائداعظم کی تصویر ہٹا دینا صرف ایک تصویر کا ہٹنا نہیں، یہ سوچ کی تبدیلی ہے۔یہ پیغام ہے کہ اب تاریخ کی ضرورت نہیں، بس سیاسی برانڈنگ ہی کافی ہے۔ یہ بالکل ویسے ہی ہے جیسے کوئی دکان دار اپنی دکان پر "Sale”کا بورڈ لگا دے، چاہے اندر گاہک کیلئے کچھ ہو نہ ہو۔ یومِ آزادی بھی اب ایک "سیزنل سیل” بن گیا ہے: بینر بدل گئے، نعرے نئے ہو گئے، اور ہیرو بھی نئے تراش لیے گئے۔افسوس! ہم نے اپنے اصل ہیرو بھلا دیے اور ان کی جگہ کرسیوں کے قیدیوں کو کھڑا کر دیا۔ قوم کی یادداشت سے کھیلنا سب سے بڑا جرم ہے۔ اگر آنیوالی نسلوں نے بینرز پر صرف حکمرانوں کے چہرے دیکھے تو وہ سوچیں گے کہ شاید پاکستان انہی کی بدولت بنا تھا۔ یوں تاریخ نہ صرف جھوٹی ہوگی بلکہ مضحکہ خیز بھی لگے گی ۔ یاد رکھیے!ہیرو وہ نہیں ہوتے جو اپنے نام کے ساتھ پروٹوکول لگوائیں اور اپنی تصویر ہر کھمبے پر ٹانک دیں۔ ہیرو وہ ہوتے ہیں جو قوم کیلئے سب کچھ قربان کر دیں اور بدلے میں صرف عزت کمائیں۔ قائداعظم کی تصویر ہٹا کر آپ نے خود اپنے قد کو چھوٹا کیا ہے، نہ کہ ان کے مرتبے کو۔یومِ آزادی قوم کا دن ہے، کسی ایک پارٹی کا نہیں۔ لیکن افسوس، ہم نے اسے بھی "پارٹی فنکشن” بنا دیا ہے۔ کاش یہ سیاستدان سمجھ پائیں کہ ان کی اصل عزت اسی میں ہے کہ وہ اپنے چہرے ہٹا کر قائداعظم کا عکس نمایاں کریں۔ ورنہ تاریخ یہ لکھے گی: ایک زمانہ تھا جب قائداعظم قوم کے ہیرو تھے، پھر ایک زمانہ آیا جب سیاستدانوں نے اپنے آپ کو ہیرو منوانے کی کوشش کی اور قوم نے انہیں بھولنے میں زیادہ دیر نہیں لگائی۔”

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے