کالم

آپریشن سندور۔بھارت کا مکروہ چہرہ مزید بے نقاب

یہ امر قابل توجہ ہے کہ 7 مئی 2025 کو بھارت نے ”آپریشن سندور” کے نام پر ایک ایسا بزدلانہ اور غیر انسانی حملہ کیا جس نے نہ صرف پاکستان بلکہ پورے خطے کو لرزا کر رکھ دیا۔ اس حملے میں آزاد جموں و کشمیر، پنجاب، سندھ اور خیبر پختونخوا کے شہری علاقے بھارتی جارحیت کا نشانہ بنے اور 65 سے زائد پاکستانی شہری شہید ہوئے جن میں معصوم بچے، ضعیف بزرگ اور خواتین شامل تھیں جبکہ 240 سے زائد زخمی ہوئے۔ ان میں کئی ایسے زخمی بھی ہیں جو شدید معذوری کا شکار ہوچکے ہیں اور اب زندگی بھر اس سانحے کے زخم اپنے ساتھ اٹھائے پھریں گے ۔ واضح رہے کہ بھارت کی اس جارحانہ کارروائی نے ایک بار پھر ثابت کر دیا کہ وہ انسانی جان کی حرمت اور عالمی قوانین کو یکسر نظر انداز کرتے ہوئے صرف اپنے مذموم مقاصد کے حصول کے لیے بے گناہوں کی زندگیاں ختم کرنے پر تلا ہوا ہے۔یاد رہے کہ یہ حملے ایسے علاقوں میں کیے گئے جہاں عام شہری اپنی روزمرہ زندگی گزار رہے تھے۔تفصیل اس معاملے کی کچھ یوں ہے کہ کے پی میں 2 شہری شہید اور متعدد زخمی ہوئے جبکہ سندھ میں 1 شہید اور 11 زخمی سامنے آئے۔ آزاد جموں و کشمیر سب سے زیادہ متاثر ہوا جہاں 32 افراد شہید اور 164 زخمی ہوئے۔ یہ اعداد و شمار اس حقیقت کو اجاگر کرتے ہیں کہ بھارت نے دانستہ معصوم شہریوں کو نشانہ بنایا تاکہ زیادہ سے زیادہ جانی نقصان پہنچایا جا سکے۔ گھروں کے کفیل ان حملوں میں مارے گئے جس کے نتیجے میں کئی خاندان غربت و یتیمی کی دلدل میں جا پھنسے بہت سے بچے یتیم ہو گئے، خواتین بیوہ اور والدین اپنے لختِ جگر سے محروم ہوگئے۔مبصرین کے مطابق بھارت کی یہ درندگی عالمی برادری کے ضمیر کو جھنجھوڑنے کیلئے کافی ہونی چاہیے لیکن افسوسناک امر یہ ہے کہ دنیا بڑی حد تک خاموش تماشائی بنی ہوئی ہے۔ان حملوں میں صرف عام شہری ہی متاثر نہیں ہوئے بلکہ پاک فوج اور پاک فضائیہ کے بہادر جوان بھی اپنی جان کا نذرانہ پیش کر گئے۔ سات پاک فوج کے جوان اور چھ پاک فضائیہ کے اہلکار شہید ہوئے جبکہ 78 اہلکار زخمی ہوئے۔ یہ حقیقت بھارت کی جارحیت کی سنگینی کو مزید واضح کرتی ہے کہ اس نے صرف دفاعی تنصیبات یا عسکری مقامات کو نشانہ نہیں بنایا بلکہ دانستہ طور پر ایسی کارروائی کی جس کا مقصد پاکستان کی سلامتی کو ٹھیس پہنچانا اور خوف و ہراس پھیلانا تھا۔یہ بات بھی تو جہ طلب ہے کہ بھارت نے مظفرآباد، بہاولپور، ساہیوال اور کوٹلی جیسے بڑے شہروں کو نشانہ بنایا اور یہ تمام علاقے غیر فوجی اور گنجان آباد شہری مراکز ہیں۔اس ضمن میں اس حقیقت کو نظرانداز نہیں کیا جا سکتا کہ ایسے حملے جنیوا کنونشن کی کھلی خلاف ورزی ہیں جو عالمی قوانین کے تحت جنگی جرائم کے زمرے میں آتے ہیں۔ غیر فوجی مقامات کو نشانہ بنانا عالمی ضمیر او ر انسانی حقوق کے عالمی اداروں کی نااہلی پر سوالیہ نشان ہے کیوں کہ عالمی برادری اگر واقعی انسانی حقوق کی علمبردار ہے تو اسے بھارت کی اس کارروائی کا سخت نوٹس لینا چاہیے۔ لیکن آج تک عالمی ادارے محض بیانات پر اکتفا کر رہے ہیں، کوئی عملی قدم سامنے نہیں آیا۔دو سری جانب پاکستانی عوام اس سانحے کے بعد شدید کرب اور غم میں مبتلا ہیں۔ شہیدوں کے جنازے اٹھے تو پورا ملک سوگوار تھا اور ہر آنکھ اشکبار اور ہر دل غم سے بوجھل تھا۔ شہیدوں کے لواحقین یہ سوال پوچھنے میں حق بجانب ہیں کہ ان کے پیاروں کا خون رائیگاں کیوں جا رہا ہے اور عالمی برادری خاموش کیوں ہے؟ کیا معصوم پاکستانی شہریوں کی جان کی کوئی قدر نہیں؟ کیا عالمی قوانین صرف کمزور ریاستوں پر لاگو ہوتے ہیں اور بڑی طاقتوں یا ان کے اتحادیوں کیلئے ان کی کوئی اہمیت نہیں؟یہ بات بھی قابل غور ہے کہ بھارت کی اس طرح کی کارروائیوں سے نہ صرف پاکستان بلکہ پورے خطے کے امن کو خطرات لاحق ہیں ۔ سنجیدہ حلقوں کے مطابق اگر عالمی برادری نے بھارت کو جوابدہ نہ ٹھہرایا تو اس کی خاموشی مزید جارحیت کو بڑھاوا دے گی۔غیر جانبدار مبصرین کے مطابق کسے معلوم نہیں کہ خطہ پہلے ہی انتہا پسندی، غربت اور سیاسی کشیدگی کا شکار ہے اور ایسے میں اگر ایسے غیر ذمہ دارانہ اقدامات جاری رہے تو یہ خطے کو مکمل طور پر عدم استحکام کی طرف دھکیل دیں گے۔ بھارت کے اس رویے کو روکے بغیر جنوبی ایشیا میں امن قائم نہیں ہو سکتا۔کسے علم نہیں کہ پاکستان نے ہمیشہ امن کی کوشش کی ہے اور عالمی برادری کو شواہد فراہم کیے ہیں کہ بھارت جارحیت پر آمادہ ہے۔ لیکن بدقسمتی سے بین الاقوامی اداروں نے سنجیدگی سے کوئی اقدام نہیں اٹھایا۔ وقت آگیا ہے کہ عالمی ادارے محض بیانات سے آگے بڑھ کر عملی اقدامات کریں تاکہ خطے کو مزید خونریزی سے بچایا جا سکے اور ان معصوم جانوں کے لہو کا حساب لیا جا سکے جو بھارت کے آپریشن سندور کی بھینٹ چڑھ گئے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے