کالم

سیرت النبی ۖ: عصری بحرانوں کا آفاقی حل

ہر دور میں انسانیت نے کسی رہنما، کسی مشعل راہ کی تلاش کی۔ کبھی فلسفوں کی طرف رجوع کیا، قانون کے نئے ضابطے تراشے، نظام ہائے سلطنت بدلے، مگر سکون، عدل اور فلاح کا وہ معیار نہ پا سکی جو اسے درکار تھا۔ آج جب دنیا سوشل میڈیا کے شور میں، تہذیبی الجھنوں میں، معاشی عدم توازن اور روحانی افلاس میں گھری ہوئی ہے، تو ضرورت ہے کہ ہم پلٹ کر دیکھیں اس ذاتِ مقدس ۖ کی طرف، جو تمام انسانیت کے لیے رحمت بنا کر بھیجے گئے:وما ارسلنا ِلا رحم لِلعالمِین(سورة الانبیا ، 107)حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سیرتِ طیبہ نہ صرف مسلمانوں کے لیے بلکہ پوری انسانیت کے لیے ہدایت و نجات کا چراغ ہے۔ آپ ۖ کی زندگی کا ہر پہلو انفرادی، معاشرتی، سیاسی، معاشی، حتیٰ کہ سفارتی و عدالتی پہلو بھی ایسا کامل و اکمل نمونہ ہے جس کی مثال انسانی تاریخ میں نہیں ملتی۔آپ ۖ کی نجی و عوامی زندگی میں کوئی فرق نہ تھا۔ صداقت، دیانت اور وفا داری آپ کا شعار تھا۔ اعلانِ نبوت سے پہلے بھی مکہ کے کافر آپ کو الصادق ، الامین کہتے نہ تھکتے، اور اپنی امانتیں آپ کے پاس رکھتے۔ حضرت علی سے روایت ہے: رسول اللہ ۖ کے کردار کی عظمت ایسی تھی کہ دشمن بھی آپ کے انصاف کے معترف تھے۔ (نہج البلاغہ)آپ ۖ نے مکہ کی سنگلاخ وادیوں میں جہاں شرک، ظلم، استحصال اور جاہلیت کا راج تھا، وہاں صبر، حکمت، عفو و درگزر اور عدل کا ایسا نظام قائم کیا جو دنیا کے لیے قیامت تک نمونہ ہے۔ فتح مکہ کے روز آپ ۖ کا وہ جملہ :جاؤ! تم سب آزاد ہو۔ انسانیت کے ماتھے پر عدل و رحم کی ایسی چمک بکھیر گیا جو صدیوں گزرنے کے باوجود ماند نہیں پڑی۔آپ ۖ کی تعلیمات میں معیشت کو بھی پاکیزگی، دیانت اور انصاف کے ساتھ جوڑا گیا۔ سود کی لعنت کو ختم کرکے تجارت کو حلال اور معزز پیشہ قرار دیا، مگر شرط رکھی کہ نفع بھی انصاف پر مبنی ہو۔ قرآن پاک نے آپ ۖ کی سیرت کو ہمارے لیے اسوہ حسنہ قرار دیا:”لقد ان لکم فِی رسولِ اللہِ اسوة حسن” (سور الاحزاب، آیت 21 ) آج جب سوشل میڈیا کے ذریعے معاشرے میں بدگمانی، جھوٹ، بہتان، نفرت انگیزی اور اخلاقی زوال کو فروغ مل رہا ہے، ہمیں اس بحرانی دور میں سیرتِ طیبہ ۖ کی روشنی میں کردار سازی، تہذیبی نکھار اور معاشرتی ہم آہنگی کی طرف رجوع کرنا ہوگا۔اسی ضرورت کو مدنظر وزارت مذہبی امور و بین المذاہب ہم آہنگی کے زیر اہتمام 50ویں بین الاقوامی سیرت النبی ۖ کانفرنس 6ستمبر کو جناح کنونشن سینٹر میں ہو رہی ہے۔ عالمی اسلامی تقویم کے مطابق 1500ویں سال ولادتِ نبوی ۖ کی مناسبت سے اسے خصوصی انداز میں منایا جا رہا ہے، اسلامی تعاون تنظیم (OIC)نے ہجری سال کو "نبی الرحمت” کے عنوان سے موسوم کیا ہے۔اس سال کانفرنس کا موضوع عصرِ حاضر کی ایک نہایت اہم بحث سے متعلق ہے:”سوشل میڈیا کے مثبت استعمال کی تعلیم و تربیت میں ریاستی ذمہ داریاں، سیرت النبی ۖ کی روشنی میں”۔یہ موضوع اس لیے بھی قابلِ توجہ ہے کہ سوشل میڈیا جہاں ابلاغ کا موثر ذریعہ ہے، وہیں اسکے غیر ذمہ دارانہ استعمال سے معاشرتی انتشار اور اخلاقی زوال پیدا ہو رہا ہے۔ حضور اکرم ۖ نے فرمایا:”آدمی کے جھوٹا ہونے کے لیے اتنا ہی کافی ہے کہ وہ ہر سنی بات کو ( بلا تحقیق) بیان کرتا پھرے۔(ابو داد)یہ فرمانِ نبوی آج سوشل میڈیا کے سیلابی دور میں ہماری اخلاقی ذمہ داریوں کا آئینہ دار ہے۔ ہمیں یہ تسلیم کرنا ہوگا کہ سیرتِ رسول ۖ کے اندر وہ بصیرت موجود ہے جو ہمیں تحقیق، تصدیق، حسنِ اخلاق اور تہذیب کا شعور عطا کرتی ہے۔پاکستان، جو اسلام کا قلعہ ہے، بدقسمتی سے آج تہذیبی پستی، مذہبی انتہا پسندی اور فکری انتشار کی زد میں ہے۔ ہمیں دشمن کی ان سازشوں کو سمجھنا اور ان کا توڑ صرف اسوہ نبوی ۖ سے تلاش کرنا ہوگا، آپ ۖ نے فرمایا:”تم میں سب سے بہتر وہ ہے جس کا اخلاق سب سے اچھا ہو”(صحیح بخاری)اسی حسنِ اخلاق، عفو، بردباری، رواداری، اور حق گوئی پر مبنی معاشرہ ہی ایک فلاحی ریاست کی بنیاد ہے۔ہمیں اسوہ حسنہ کو فرد، خاندان، معاشرہ اور ریاست کے ہر شعبے میں نافذ کرنے کی عملی کاوش کرنی ہوگی۔ حضور ۖ نے دنیا کو بتایا کہ حکومت انصاف سے، معیشت دیانت سے، معاشرت اخلاق سے ، اور انسانیت محبت سے زندہ رہتی ہے۔آج اگر ہم سیرتِ مصطفی ۖ کو زندگی کا ضابطہ بنا لیں تو وہی ریاستِ مدینہ کا تصور عملی طور پر ابھر سکتا ہے جہاں عدل ہو، امن ہو، بھائی چارہ ہو۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے