وزیراعظم محمد شہباز شریف کا اپنے دورہ چین کے دوران تیانجن یونیورسٹی میں فیکلٹی ممبران اور طلبا سے خطاب کرتے چین کے ساتھ مل کر ترقی کی منزل حاصل کرنے چین کی ترقی کو روڈ ماڈل بنانے اور پاک چین دوستی کو وقت کی ہر آزمائش پر پورا اترنے والا قرار دینا محض زیب داستان یا رسمی جملہ نہیں بلکہ ایک آزمودہ حقیقت ہے پاکستان اور چین کے درمیان باقاعدہ سفارتی تعلقات مئی 1951 میں قائم ہوئے اکتوبر 1949میں عوامی جمہوریہ کے قیام کے بعد جن اولین ممالک نے چین کی نئی حکومت کو تسلیم کیا تھا پاکستان ان میں شامل تھا بلکہ اسلامی ملکوں میں پاکستان پہلا ملک تھا جس نے عوامی جمہوریہ چین کو تسلیم کیا گزشتہ تقریبا 74برس کے دوران پاکستان اور چین کے باہمی تعلقات میں فقیدالمثال اضافہ ہوا ہے ان میں معاشی تعاون تجارت اور سرمایہ کاری میں اضافہ دفاعی ثقافتی زرعی صنعتی اور توانائی کے شعبوں میں تعاون علاقائی اور عالمی چیلنجز کامل کر مقابلہ کرنے کیلئے سٹریٹجک پارٹنرشپ کا قیام اور دونوں ملکوں کے عوام کو ایک دوسرے کے قریب لانے کیلئے طلبا دانشوروں صحافیوں اور آرٹسٹوں کے وفود کے تبادلے بھی شامل ہیں 1950 کی دہائی میں جب پاکستان اور چین کے درمیان دوطرفہ بنیادوں پر باقاعدہ تعلقات قائم ہوئے تو اس وقت کی دنیا موجودہ دنیا سے بالکل مختلف تھی سابقہ سوویت یونین اور ریاستہائے متحدہ امریکہ عالمی سیاست کے دو محور تھے چین کا اگرچہ بڑی طاقتوں میں شمار ہوتا تھا اور اس وجہ سے اسے 1971میں اقوامِ متحدہ کی سلامتی کونسل کا مستقل رکن بھی بنایا گیا مگر طویل عرصے تک بیرونی جارحیت اور خانہ جنگی کا شکار ہونے کی وجہ سے متعدد اندرونی مسائل مثلا معاشی پسماندگی بھوک غربت اور بیروز گاری کا شکار تھا اس دور میں امریکہ نے نئے چین کو دنیا میں الگ تھلگ کرنے کی پالیسی اختیار کر رکھی تھی پاکستان نے امریکہ کی اس چین دشمن پالیسی کی پروا نہ کرتے ہوئے چین کی نئی حکومت کو نہ صرف تسلیم کیا بلکہ اس کے ساتھ باقاعدہ سفارتی تعلقات قائم کرکے ہر بین الاقوامی فورم پر چین کی حمایت کی پاکستان اقوام متحدہ خصوصا سلامتی کونسل میں چین کی نشست بحال کرانیوالے ممالک میں بھی شامل تھا چین نے بھی اس وقت پاکستان کی خیر سگالی کا احترام کرتے ہوئے پاکستان کے ساتھ دوستی اور قریبی تعلقات کیلئے ہاتھ بڑھایا پاکستان اور چین کے باہمی تعلقات کو جن دو معاہدوں نے ملکوں کی دوستی کے رشتوں کو ٹھوس بنیادوں پر استوار کیا وہ سرحدی معاہدہ (1963)اور اسی سال پاکستان انٹرنیشنل ایئرلائنز کو اسلام آباد بیجنگ ایئر روٹ پر سروس شروع کرنے کی اجازت تھی کہنے کو تو یہ دونوں دوطرفہ معاہدے تھے مگر ان کے دور رس اور اہم بین الاقوامی مضمرات بھی تھے ان دو معاہدوں کے بعد پاکستان اور چین کے دو طرفہ تعلقات اور روابط میں تیزی سے اضافہ ہوا پاکستان اور چین کے موجودہ باہمی تعلقات کا ایک نیا اور نمایاں پہلو معاشی اور ثقافتی شعبوں میں روزافزوں تعاون ہے معاشی تعاون کی سب سے نمایاں مثال تو سی پیک ہے جس کے تحت پاکستان اور چین کے انفراسٹرکچر کی تعمیر اور توانائی کی پیداواری اضافے کیلئے مشترکہ منصوبوں پر کام کررہے ہیں مگر گزشتہ دو دہائیوں میں دو طرفہ تجارت میں کئی گنا اضافہ بھی دونوں ملکوں میں اقتصادی تعاون کی بلند سطح کو ظاہر کرتا ہے گزشتہ چار’ پانچ عشروں کے دوران چین نے 70کروڑ سے زائد افراد کو غربت کی دلدل سے باہر نکالا ہے اور جس طرح بیجنگ نے یہ اہم سنگ میل عبور کیا دنیا میں اس کی مثال نہیں ملتی قابل غور امریہ ہے کہ چین نے غربت کے خاتمے اور معاشی ترقی کا ہدف بیرونی مدد کے ذریعے نہیں بلکہ درمیانے اور چھوٹے درجے کی صنعتوں اور زراعت کو فروغ دے کر اپنے زور بازو اور دستیاب وسائل کی بنیاد پر ترقی کا سفر شروع کرکے حاصل کیا ہے چین کی ترقی دو چار منصوبوں یا چند سالوں کی کوششوں کا نہیں بلکہ کئی دہائیوں تک ریاست اور عوام کی انتھک محنت کا نتیجہ ہے چین نے ریاست پاکستان کے ماٹو کام’ کام اور کام’تنظیم اتحاد اور یقین محکم کے اصولوں کو عملی طور پر قومی زندگی میں نافذ کرکے اپنی ترقی کے سفر کا آغاز کیا آج دنیا کیلئے چین ایک ناگزیر ضرورت بن چکا ہے جو ممالک چین کے سیاسی نظام سے اختلاف رکھتے ہیں وہ بھی اس سے درآمدات کے بغیر اپنی طلب پوری کرنے سے قاصر ہیں دنیا کی سب سے بڑی معیشت امریکہ اور سب سے بڑی کنزیومر مارکیٹ بھارت کا بھی چین کے بغیر گزارا نہیں پاکستان کی تمام سیاسی قیادت چین کی کامیابیوں کا ذکر تو تواتر کے ساتھ کرتی ہے جس سے یہ واضح ہوتا ہے کہ وہ اس پیش رفت پر گہری نظر رکھے ہوئے ہے مگر گزشتہ دو عشروں میں اعلانات کے باوجود کوئی ایسا منصوبہ پیش نہیں کرسکی جو صنعتی ترقی اور تخفیف غربت میں چینی ماڈل سے استفادہ کرنے کی غمازی کرتا ہو پاکستان کی قیادت اگر واقعتا دونوں ممالک کے عوام بالخصوص سرمایہ کاروں اور کاروباری اداروں کے درمیان روابط بڑھانے میں مخلص ہے تو اسے زبانی دعوں سے نکل کر اب عملی اقدامات سے اپنی سنجیدگی کو ظاہر کرنا ہوگا پاکستان چین کیساتھ صنعتی تعاون کو فروغ دیکر نہ صرف براہ راست فوائد حاصل کرسکتا ہے بلکہ عالمی سطح پر چیلنجز کا شکار صنعتوں کو نئے مواقعوں سے بھی روشناس کروا سکتا ہے چین کو ٹیکنالوجی تجربہ فنانسگ اور صنعتی صلاحیتوں کا امتیاز حاصل ہے جبکہ پا کستان اپنے وسائل افرادی قوت اور مارکیٹ کے ذریعے فائدہ حاصل کر سکتا ہے دونوں ممالک کے درمیان اقتصادی تعاون کو وسعت دینے اور بڑھانے کے ساتھ ساتھ ترقی کی نئی راہیں ہموار کرنے کیلئے صنعتی تعاون نہایت اہمیت کا حامل ہے اس شعبے میں تعاون کے فروغ کے بڑے مواقعوں کو بروئے کار لاکر روشن مستقبل کو یقینی بنایا جا سکتا ہے۔