کالم

بھارت کی سیلابی جارحیت

بھارت نے پانی چھوڑ کر پاکستان پر آبی دہشتگردی مسلط کی جس سے مختلف دریا ئوں میں سیلابی صورتحال ہے۔بھارت کی سیلابی جارحیت سے پنجاب کے بعد اب سندھ میں سیلاب کا امکان ہے، بھارت کی آبی جارحیت سے اربوں روپے کا نقصان ہوا ہے۔پاکستان پر حملے کے حوالے سے مودی پر سوالات اٹھ رہے ہیں اسی وجہ سے اس نے اب پاکستان کو آبی دہشتگردی کا نشانہ بنایا ہے مگر پاکستان مودی کی آبی جارحیت دنیا کے سامنے رکھے گا ۔بھارت کی سیلابی جارحیت سے سالہا سال سے خشک دریائے راوی میں سیلاب آگیا۔ دریائے راوی کا بند ٹوٹنے سے 45 ہزار لوگ متاثر ہوئے۔ اس وقت راوی، چناب اور ستلج میں اونچے درجے کا سیلاب ہے اور جانی و مالی نقصانات میں اضافہ ہو رہا ہے۔ حافظ آباد پل تباہ ہو گیا ہے جبکہ قادر آباد ہیڈ ورکس کو بچانے کیلئے بند کو دھماکہ خیز مواد سے اڑا دیا گیا۔ دریائے راوی میں بڑے سیلاب کا 32 سالہ ریکارڈ ٹوٹا ہے۔ اسی طرح چناب میں سیلاب کا گیارہ سالہ ریکارڈ ٹوٹا ہے۔ سیلاب سے متاثرہ علاقوں میں وفاقی اور پنجاب حکومت کے علاوہ فوج اور نجی فلاحی تنظیموں کی ٹیمیں بھی امدادی کیمپ لگا کر امدادی کارروائیاں جاری رکھے ہوئے ہیں جبکہ بھارت نے پاکستان کی جانب مزید پانی چھوڑنے کی وارننگ دیدی ہے اور محکمہ موسمیات نے پنجاب اور خیبر پی کے میں 2 ستمبر تک مزید بارشوں کی پیشین گوئی کی ہے۔اس وقت ملک کے تین دریاؤں میں سیلابی صورتحال ہے۔پاک فوج کے جوان اور افسران مشکل کی اس گھڑی میں قوم کیساتھ کھڑے ہیں۔امدادی کارروائیوں کے دوران اب تک پاک فوج کے دو جوان شہید اور دو زخمی ہوئے ہیں۔ کرتار پور میں کشتیوں کے ذریعے ریسکیو آپریشن جاری ہے اور قراقرم ہائی وے کو کھول دیا گیا ہے۔ خیبرپختونخوا اور گلگت بلتستان میں جب سے سیلاب آیا ہے اور کل رات سے پنجاب میں بھی سیلابی صورتحال ہے، پاک فوج نے ان تمام متاثرہ علاقوں میں امدادی کارروائیاں مسلسل جاری رکھی ہوئی ہیں۔اس بارے میں تو اب کوئی دو رائے نہیں رہی کہ ہمارے مکار دشمن بھارت نے پہلگام دہشتگردی کا ڈرامہ رچا کر اس کی آکڑ میں گزشتہ اپریل میں سندھ طاس معاہدہ یکطرفہ طور پر معطل کرنے سمیت پاکستان کی سلامتی کو چیلنج کرنیوالے متعدد فیصلے کیئے اور اقدامات اٹھائے تو اس کا مقصد آنیوالے مون سون کے سیزن میں پاکستان کیخلاف کھلی اور بے دھڑک جنگی جارحیت اور آبی دہشتگردی کے اقدامات اٹھانے کا ہی تھا۔ کشمیر پر قیام پاکستان کے وقت سے ہی ناجائز تسلط جمانے کی بھارتی نیت بھی یہی تھی کہ کشمیر بسے پاکستان آنیوالے دریاؤں کا پانی اپنے قابو میں لیکر اسے پاکستان کیخلاف آبی دہشتگردی کیلئے استعمال کیا جائے ۔بھارت کی سازشوں کو پاکستان میں سندھ طاس معاہدے کی روشنی میں زیادہ سے زیادہ ڈیمز تعمیر کر کے ناکام بنایا جاسکتا تھا ۔ یہ ڈیمز نہ صرف بھارت کے چھوڑے سیلابی ریلوں کا زور توڑنے میں معاون بنتے بلکہ ان ڈیمز کے ذریعے پاکستان کی توانائی کی ضرورت بھی پوری ہوتی رہتی اور عوام کو مہنگی اور ناپید بجلی کے عذاب سے بھی دوچار نہ ہونا پڑتا تاہم بھارت کے ہاتھوں میں کھیلنے والے عناصرنے بالخصوص کالا ڈیم کو متنازعہ بنا کر اس کی تعمیر میں روڑے اٹکائے اور بدقسمتی ہمارے متعلقہ فیصلہ ساز اداروں نے دوسرے ڈیمز کی تعمیر کی جانب بھی توجہ نہ دی۔ بھارت تو قیام پاکستان کے وقت سے ہی پاکستان کی سلامتی کسی نہ کسی طریقے سے تاراج کرنے کی گھناؤنی سازشوں میں مصروف ہے جس کیلئے وہ جنگی جارحیت کے ساتھ ساتھ آبی دہشتگردی میں بھی کوئی کسر نہیں چھوڑتا۔ رواں سال اپریل اور مئی کے دوران پاک فوج نے فیلڈ مارشل سید عاصم منیر کی زیر کمان جس سرعت اور چابکدستی سے بھارت کا جنگی جنون اور اس کا عسکری برتری کا غرور توڑا اور اسے پوری دنیا میں خفت اٹھانا پڑی، اس کے تناظر میں یہی توقع تھی کہ بھارت اپنی خفت مٹانے اور پاکستان کے ہاتھوں شکست کا داغ دھونے کیلئے مون سون کے آنیوالے سیزن میں پاکستان کیخلاف بیدردی کیساتھ آبی دہشتگردی کا ارتکاب کریگا اور بھارت کی جنونی مودی سرکار نے ایسا ہی کیا ہے۔ نتیجتاًآج پاکستان کی سرزمین کا غالب حصہ بھارت کے چھوڑے گئے پانی میں ڈوبا ہوا ہے جبکہ اس کی جانب سے مزید پانی چھوڑنے کی دھمکی بھی دی جا چکی ہے۔ اسی تناظر میں پاک فوج نے سیلاب سے متاثرہ علاقوں میں امدادی کاموں کے ساتھ ساتھ ملک کی سرحدوں کے دفاع کے عظیم فریضہ کی ادائیگی میں بھی کوئی کمی نہیں آنے دی تاکہ ہمارے اس مکار دشمن کو ملک کے کسی بھی قسم کے حالات اور کسی کمزور پہلو سے فائدہ اٹھانے کا موقع نہ مل سکے۔بیشک یہ صورتحال بھارت کے ہاتھوں میں کھیلنے والے ملک کے بدخواہ عناصر کیلئے بھی لمحہ فکریہ ہے کہ وہ پاکستان کی سلامتی کیخلاف بھارتی گھناؤنی سازشوں کو عملی جامہ پہنایا جاتا دیکھ کر ہی راہ راست پر آجائیں اور سیلاب سے متاثرہ اپنے بھائیوں کی امداد و بحالی پر اپنی توجہ فوکس کر لیں ۔ بیشک یہی زندہ قوموں کا شیوا ہوتا ہے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے