کالم

خوارج کے خلاف کامیاب کارروائی

حکومت نے کالعدم تحریک طالبان پاکستان کو فتنہ الخوارج قرار دیا جبکہ پاکستان پر دہشت گرد حملوں کے مرتکب افراد کا حوالہ دیتے وقت تمام اداروں کو خارجی کی اصطلاح استعمال کرنے کا حکم دیاگیا۔ ٹی ٹی پی نے 2022 میں حکومت کے ساتھ جنگ بندی کا ایک نازک معاہدہ توڑا۔ اس کے بعد دہشت گردانہ حملوں میں اضافہ ہوا ہے۔2023 میں، پاکستان نے 789 دہشت گرد حملوں اور انسداد دہشت گردی کی کارروائیوں کا سامنا کیاجن میں 1,524 ہلاکتیں اور 1,463 زخمی ہوئے۔دہشت گردانہ حملوں میں مجموعی طور پر ہلاکتیں،چھ سال کی بلند ترین سطح پر ہیں۔چند روز قبل بنوں میں ڈبل کیبن گاڑی پر نامعلوم مسلح افراد کی فائرنگ سے قبائلی سردار اور خاتون سمیت چار افراد جاں بحق اور اتنے ہی زخمی ہو گئے تھے۔کچھ روز قبل شمالی وزیرستان کی سرحد پر ایک چیک پوسٹ سے نصف درجن سے زائد پولیس اہلکاروں کو اغوا کر لیا گیا تھا۔ پولیس نے قبائلی عمائدین کی مدد سے انہیں بحفاظت بازیاب کرایا۔
بنوں کے علاقے ہوید میں خوارج کے خلاف پاک فوج اور پولیس نے مشترکہ سرچ اینڈ ٹارگٹڈ آپریشن کامیابی سے مکمل کرلیا۔یہ آپریشن خفیہ معلومات اور انٹیلی جنس رپورٹس کی بنیاد پر کیا گیا جس کا مقصد علاقے کو دہشت گردی کے ناسور سے پاک کرنا اور امن و امان کو یقینی بنانا تھا۔ آپریشن کے دوران خوارج کے دو مقامی سہولت کاروں کے گھر بھی مسمار کیے گئے۔
بنوں کے علاقے مالی خیل میں دہشت گردوں کے حملے میں بارہ سکیورٹی اہلکار شہید ہوئے ہیں۔خوارج نے سکیورٹی چیک پوسٹ کو نشانہ بنایا۔سکیورٹی اداروں کی جوابی کارروائی میں چھ دہشت گرد مارے گئے۔یہ واقعہ خاص طور پر بلوچستان اور کے پی میں سکیورٹی فورسز اور دیگر قانون نافذ کرنے والے اداروں کو نشانہ بنانے والے حملوں کی تعداد میں تیزی سے اضافے کی علامت ہے۔شورش زدہ ضلع بنوں میں تشدد کے واقعات پچھلے کچھ عرصے سے بڑھے ہیں،یہاں عسکریت پسندوں کی کارروائیوں میں اضافہ دیکھا جا رہاہے، جس میں پولیس اہلکاروں کا اغوا، لڑکیوں کے سکول پر حملہ اور فائرنگ کے واقعات شامل ہیں۔
کچھ عرصہ پہلے کے پی کی وادی تیراہ میں عسکریت پسندوں کے ساتھ شدید فائرنگ میں کم از کم آٹھ سکیورٹی اہلکار شہید اور تین زخمی ہوئے۔بلوچستان کے علاقے قلات میں ایک چیک پوسٹ پر دہشت گردوں کے حملے میں 7 سکیورٹی اہلکار شہید اور 18 زخمی ہوئے۔ سیکیورٹی فورسز نے واقعے میں چھ دہشت گردوں کو ہلاک اور چار کو زخمی بھی کیا۔
یہ صورتحال ایک طرف سکیورٹی اداروں کی مسلسل قربانیوں کا اعتراف اور دوسری طرف دہشت گردوں کے خلاف زیادہ طاقت استعمال کرنے کا کہتی ہے۔پاکستان میں معاشی ترقی، سماجی امن ، جمہوری نشونما اور خوشحالی کے تمام وسائل موجود ہیں ،بس ایک دہشت گردی ہے جو قوم کو آگے بڑھنے نہیں دے رہی۔پاکستانی طرز زندگی کو تحفظ اور فروغ دیا جانا چاہئے کیونکہ یہ محنت، مہمان نوازی، خیرات، رواداری، تکثیریت اور خوشی کے حصول کی اقدار پر مبنی ہے۔
بابائے قوم قائد اعظم محمد علی جناح نے قوم کو کام کرنے، کام کرنے اور کام کرنے کا مشورہ دیا تھا۔ غربت، ناخواندگی، تشدد، دہشت گردی اور انتہا پسندی کو معاشرے کے تمام طبقات کی مشترکہ کوششوں سے شکست دی جاسکتی ہے۔دہشت گردی سے نمٹنے کے لئے پاکستان کو کسی مغربی فارمولے سے زیادہ اپنی مقامی دانش اور حکمت عملی پر بھروسہ کرنا چاہئے۔پسند ناپسند یا سیاسی تفریق کو انسداد دہشت گردی کی کارروائی میں حائل نہیں ہونا چاہئے،جو گروہ دہشت گردی میں ملوث ہیں ان کو واضح پیغام ملنا چاہئے کہ پاکستانی قوم اپنا دفاع کرنا جانتی ہے۔
اس میں تو کوئی شک و شبہ نہیں کہ اس ارضِ وطن پر گذشتہ تین دہائیوں سے جاری دہشت گردی میں بنیادی ہاتھ ہمارے مکار دشمن بھارت کا ہے جو شروع دن سے ہماری سلامتی کے درپے ہے۔ اس نے سانحہ سقوط ڈھاکہ تک ہم پر تین جنگیں مسلط کیں اور پھر باقیماندہ پاکستان کی سلامتی کے بھی درپے ہو گیا۔ اس مقصد کے لئے اس نے ایٹمی ٹیکنالوجی بھی حاصل کی اور کشمیر پر ناجائز تسلط جمانے کے باعث دریاؤں کے پانی کا ہتھیار بھی ہماری سلامتی کمزور کرنے کے لئے استعمال کرنا شروع کردیا جبکہ اس نے پاکستان کے اندر بھی نقب لگا کر بلوچستان اور خیبر پی کے میں موجود پاکستان کے بدخواہ عناصر کی فنڈنگ اور سرپرستی کرکے انہیں پاکستان کی سلامتی کمزور کرنے کے راستے پر لگایا۔ اس کے لئے بھارت کو پاکستان کی اندرونی کمزوریوں سے فائدہ اٹھانے کا بھی موقع ملا۔
ملک میں دہشت گردی اور خودکش حملوں کا راستہ امریکی افغان جنگ میں پاکستان کے فرنٹ لائین اتحادی کے کردار کے ردعمل میں کھلا تھا جس سے بھارت نے فائدہ اٹھایا اور افغان سرزمین کو پاکستان میں دہشت گردی کے لئے بروئے کار لانا شروع کر دیا۔ بے شک پاکستان نے امریکہ کو افغانستان سے اپنی افواج اور شہریوں کو نکالنے کا محفوظ راستہ دیا اور طالبان کی کابل کے اقتدار میں واپسی یقینی بنائی مگر طالبان کے دلوں میں پاکستان کے فرنٹ لائین اتحادی کے کردار کے باعث پیدا ہونے والی شکرنجی نے انہیں پاکستان کے ساتھ بغضِ معاویہ کے اظہار کے راستے پر اب تک لگایا ہوا ہے اور وہ افغان سرزمین سے بھارتی تربیت یافتہ دہشت گرد پاکستان میں داخل کرنے کے لئے بھارت کی بدستور معاونت کر رہا ہے چنانچہ حالیہ پاک بھارت جنگ میں جب بھارت کو پاکستان کی بہادر اور چاک و چوبند مسلح افواج کے ہاتھوں سخت ہزیمت اٹھانا پڑی اور دنیا بھر میں اس کی جنگی دفاعی صلاحیتوں کا پول کھلا تو اسی وقت یہ خدشہ لاحق ہوگیا تھا کہ بھارت اب پاکستان میں اپنی پراکسیز کے ذریعے دہشت گردی کا سلسلہ تیز کرے گا۔ چنانچہ دس مئی کے بعد سے اب تک بالخصوص پاکستان کے دو صوبوں بلوچستان اور خیبر پی کے میں ہونے والی دہشت گردی کی بیسیوں وارداتوں کا پس منظر یہی ہے جن میں بطور خاص سکیورٹی فورسز کو ہدف بنایا جاتا ہے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے