کالم

کشمیرجوائنٹ ایکشن کمیٹی کے خطرناک اثرات

سبھی جانتے ہیں کہ بنیان مرصوص اور مارکہ حق کی بے مثال کامیابی نے بھارت کو بری طرح پاگل کر دیا ہے اور اب مودی سرکار کی ساری توجہ کا مرکز آزاد جموں کشمیر پر ہے۔اسی تناظر میں یہ امر خصوصی توجہ کا حامل ہے کہ آزاد جموں و کشمیر میں حالیہ مہینوں کے دوران نام نہاد جوائنٹ ایکشن کمیٹی کا کردار نہایت متنازعہ صورت اختیار کرچکا ہے۔ واضح رہے کہ ابتدا میں یہ پلیٹ فارم عوامی مسائل، خصوصاً مہنگائی، بجلی کے نرخ اور بنیادی سہولیات کے مطالبات کیلئے سامنے آیا تھا، مگر وقت گزرنے کے ساتھ اس کے اقدامات اور بیانات نے سیاسی و سکیورٹی حلقوں میں تشویش پیدا کر دی ہے۔ مبصرین کے مطابق پاکستانی نقط نظر سے اس کمیٹی کا متنازعہ کردار کئی پہلوؤں سے اہم اور تشخیص طلب ہے۔سب سے پہلی اور نمایاں بات یہ ہے کہ جے اے سی نے عوامی احتجاج کو پرامن رکھنے کے بجائے بارہا ایسے اقدامات کیے جنہیں ریاستی قوانین سے انحراف اور سکیورٹی اداروں کو چیلنج سمجھا گیا۔ سڑکوں کی بندش، دکانوں کی زبردستی شٹر ڈاؤن ہڑتالیں اور پولیس اہلکاروں سے جھڑپیں اس تاثر کو تقویت دیتی ہیں کہ کمیٹی احتجاج کو دباو کی سیاست میں بدل رہی ہے اور بادی النظر میں یہ سب کچھ بھارتی ایجنڈے کی تکمیل کی خاطر کیا گیا جا رہا ہے۔اسی ضمن میں قابل ذکر ہے کہ پچھلے چند مہینوں میں بھارتی وزیر دفاع راج ناتھ سنگھ نے آزاد جموں کشمیر کے حوالے زہر اگلا ہے ۔ ایسے میں غیر جانبدار سنجیدہ حلقے بجا طور پر اس امر پر متفق ہیں کہ پاکستانی عوام اور ریاست پاکستان کیخلاف حالیہ زہر افشانی کے پس پشت دہلی سرکار ہے اور جوائنٹ ایکشن کمیٹی محض بھارتی کٹھ پتلی ہے ۔اسی تناظر میں یہ بات اہم ہے کہ جمہوری حق کے طور پر احتجاج ہر شہری کو حاصل ہے، مگر یہ حق اس وقت اپنی ساکھ کھو دیتا ہے جب وہ تشدد اور انتشار کا ذریعہ بن جائے۔اسی ضمن میںوزیراعظم آزاد کشمیر چوہدری انوار الحق نے ڈارک ویب پر بھارتی سائفر کے لیک ہونے اور جے اے سی کے ممکنہ روابط کا انکشاف کر کے ایک سنگین سوال اٹھایا ہے۔کسے معلوم نہیں کہ بھارت ماضی میں بھی مقبوضہ کشمیر اور پاکستان میں بدامنی پھیلانے کیلئے مختلف طریقے استعمال کرتا آیا ہے۔ اس پس منظر میں جے اے سی کے بعض رہنماؤں کی سخت زبان، پرانی فوٹیجز کے ذریعے نوجوانوں کو مشتعل کرنے کے الزامات اور پاکستان مخالف بیانیے کے شواہد ریاست کے لیے مزید تشویش کا باعث ہیں۔ اگر یہ روابط محض افواہ نہیں تو یہ قومی سلامتی کا مسئلہ ہے اور اس کی شفاف تحقیقات ناگزیر ہیں۔تیسرا متنازعہ پہلو کمیٹی کے مطالبات کی نوعیت ہے۔ بعض رہنماؤں نے پاکستان اور بیرون ملک کشمیریوں کیلئے آزاد کشمیر اسمبلی میں مخصوص نشستوں کے خاتمے جیسے مطالبات بھی سامنے رکھے۔ یہ مطالبہ نہ صرف آئینی طور پر ناقابلِ قبول ہے بلکہ پاکستان اور کشمیر کے تاریخی اور سیاسی رشتے کو کمزور کرنے کی شعوری کوشش اور سازش ہے۔ایسے میں وفاقی حکومت اور آزاد کشمیر کی قیادت نے واضح کر دیا ہے کہ اس طرح کے کسی اقدام پر بات بھی نہیں ہو سکتی۔اس کے ساتھ ساتھ کمیٹی پر یہ الزام بھی ہے کہ اس نے عوامی مشکلات کو سیاسی ایجنڈے کیلئے استعمال کیا۔ تین روپے فی یونٹ بجلی جیسے مطالبات کو مبالغہ آرائی کے ساتھ پیش کر کے عوام میں جذباتی لہر پیدا کی گئی، حالانکہ یہ سہولت خود وفاقی حکومت کی جانب سے رعایت کے طور پر دی جا رہی تھی ۔ مبصرین کے مطابق ایسے بیانیے عوام کو وقتی طور پر تو جوش دلا سکتے ہیں لیکن طویل المدتی طور پر رشتوں میں بداعتمادی پیدا کرتے ہیں۔اس تما م پس منظر میں یہ بات اہم ہے کہ پاکستانی نقط نظر سے جوائنٹ ایکشن کمیٹی کا سب سے بڑا چیلنج یہی ہے کہ اس کے اقدامات سے دشمن قوتوں کو فائدہ نہ پہنچے۔ مقامی سطح پر عوامی مسائل کا حل ضرور تلاش ہونا چاہیے مگر ریاستی اداروں پر حملے، افواہوں کا پھیلاؤ اور تشدد کی ترغیب کسی بھی صورت برداشت نہیں کی جا سکتی۔ اگر جے اے سی واقعی عوامی نمائندہ پلیٹ فارم ہے تو اسے اپنی صفائی کے لیے شفاف تحقیقات میں تعاون کرنا ہوگا، اپنے مالی ذرائع ظاہر کرنے ہوں گے اور آئینی دائرہ کار میں رہتے ہوئے مطالبات منوانے ہونگے ۔ آخر میں یہ کہنا ضروری ہے کہ جوائنٹ ایکشن کمیٹی کا موجودہ رویہ کشمیری عوام کی جائز جدوجہد کو کمزور کر رہا ہے اور پاکستان کے دیرینہ موقف کو نقصان پہنچانے کا باعث بن رہا ہے۔یہ کوئی راز کی بات نہیںکہ کشمیری عوام اور پاکستان کے درمیان رشتہ قربانیوں اور اعتماد پر قائم ہے۔ کسی بھی تنظیم یا گروہ کیلئے یہ قابلِ قبول نہیں کہ وہ وقتی سیاسی فائدے کیلئے اس رشتے میں دراڑ ڈالے۔ اس لیے جے اے سی کو اپنے متنازعہ کردار کا ازالہ کرنا ہوگا اور یہ ثابت کرنا ہوگا کہ اس کے اقدامات واقعی عوامی فلاح کیلئے ہیں، نہ کہ کسی بیرونی ایجنڈے کا حصہ۔ایسے میں امید کی جانی چاہیے کہ نام نہاد جوائنٹ ایکشن کمیٹی بھارتی کٹھ پتلی کا کردار ادا کرنے کی بجائے آزاد جموں کشمیر کے عوام کے حقیقی مسائل کے حل کی جانب توجہ دیگی۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے