کالم

دہشت گردی پیچیدہ اور سنگین چیلنج

پاکستان کے دفاع’ سالمیت اور بقا کو محفوظ بنانے کے لئے اپنی جانیں نچھاور کرنے والے راہ حق کے شہیدوں کو پوری قوم سلام پیش کرتی ہے ملک میں دہشت گردی کا مسئلہ نیا نہیں یہ سلسلہ گزشتہ دو دہائیوں سے جاری ہے لیکن حالیہ دہشت گردی کی لہر قابو سے باہر ہوچکی ہے خیبر پختونخواہ اور بلوچستان دہشت گردوں کا خصوصی ہدف بنے ہوئے ہیں جبکہ سیکورٹی فورسز کے جوانوں کی شہادتیں بھی مسلسل اور کافی تعداد میں ہورہی ہیں قابل غور بات یہ ہے کہ دہشت گردی کے خلاف بڑی تعداد میں کارروائیوں اور جوانوں کی قربانیوں کی کے باوجود دہشت گردی کے واقعات میں کمی کی بجائے اضافہ ہوتا جارہا ہے ایسے میں سوال اٹھ رہا ہے کہ دہشت گردی کے واقعات میں اضافے کی وجوہات کیا ہیں اور وہ کون سے عوامل ہیں جن کے باعث اس وقت دہشت گردی کی ایک نئی لہر جنم لے رہی ہے جس کے دوران ملک میں پولیس اور سیکورٹی فورسز کے اہلکاروں کو نشانہ بنایا جارہا ہے صوبہ خیبر پختونخواہ میں دہشت گرد ان کے سہولت کاروں اور کیریئرز کا نیٹ ورک بھی متحرک ہے یہی وجہ ہے کہ دہشت گرد بڑے تواتر کے ساتھ اپنے مکروہ عزائم کو آگے بڑھانے اور ملک میں امن وامان کی صورت کو خراب کرنے کی کوشش کر رہے ہیں پاکستان کو درپیش سیکورٹی خطرات کا سرحد پار کے حالات سے ہمیشہ بہت گہرا تعلق رہا ہے ماضی میں بھی یہ سرحد کے حالات ہی تھے جنہوں نے پاکستان کو دہشت گردی کے خوفناک صورت حال سے دوچار کیا اور پھر اس سے نکلنے کے لئے ایک طویل جدوجہد کرنا پڑی 2021 کے وسط میں کابل میں آنے والی تبدیلی کے اثرات ایک بار پھر پاکستان کے سیکورٹی منظر نامے کو متاثر کر رہے ہیں افغانستان میں دہشت گردی کے نیٹ ورک کس طرح پروان چڑھ رہے ہیں وہ دنیا سے ڈھکا چھپا نہیں افغانستان میں طالبان کی عبوری حکومت قائم ہونے کے بعد سے پاکستان میں دہشت گردی کے واقعات میں تیزی آنا شروع ہوئی اور رواں سال اب تک دہشت گردی کے واقعات میں جتنا جانی ومالی نقصان ہوچکا ہے یہ 2015کے دوران دہشت گردی کے واقعات اور جانی نقصان سے زیادہ ہے افغانستان میں غیر ملکی اسلحے اور دفاعی آلات کی ریل پیل اور دہشت گردوں کی ان آلات اور اسلحہ تک رسائی اور پاکستان میں دہشت گردی کی وارداتوں میں اس کا استعمال ملک کی سیکورٹی کے حوالے سے انتہائی سنجیدہ مسئلہ بن چکا ہے افغانستان سے جدید امریکی اسلحہ کی پاکستان سمگلنگ اور ٹی ٹی پی کا سکیورٹی فورسز اور پاکستانی عوام کے خلاف امریکی اسلحہ کا استعمال افغان عبوری حکومت کا اپنی سر زمین پاکستان کیخلاف استعمال نہ ہونے کے دعوں پر بہت بڑا سوالیہ نشان ہے امریکہ نے 2005 سے اگست 2021 کے درمیان افغان قومی دفاعی اور سیکیورٹی فورسز کو 18.6 ارب ڈالر کا سامان فراہم کیا، امریکی انخلا کے بعد ان ہتھیاروں نے ٹی ٹی پی کو سرحد پار دہشت گرد حملوں میں مدد دی یہ تمام حقائق اس بات کی طرف اشارہ کرتے ہیں کہ افغان انتظامیہ نہ صرف ٹی ٹی پی کو مسلح کر رہی ہے بلکہ دیگر دہشت گرد تنظیموں کے لیے محفوظ راستہ بھی فراہم کر رہی ہے افغان طالبان کا رویہ یہ ثابت کرہا ہے کہ وہ اپنے ہمسایہ ممالک کے لئے خطرہ بننے کے امکانات بارے سنجیدہ نہیں دہشت گردی کے خاتمے کے حوالے سے افغان عبوری حکومت کی غیر سنجیدگی صرف پاکستان کے لئے نہیں پورے خطے کے لئے تشویش کا باعث ہونی چاہیے افغان سرزمین سے ابھرنے والے خطرات چونکہ خطے کے لئے مشترکہ اور وسیع نوعیت کا خطرہ پیدا کرتے ہیں اس لئے ان کے نمٹنے کے لئے بھی مشترکہ علاقائی اپروچ کی اشد ضرورت ہے ہمیں تسلسل کے ساتھ دہشت گردی کے واقعات کا انتہائی سنجیدگی سے جائزہ لینا ہوگا اور اس کے سدباب کی پوری طرح کوششیں کرنا ہوں گی دہشت گردی ایک ناسور ہے جس کے خلاف بڑا آپریشن ہونا چاہیے تاکہ خوشحالی کا خواب ممکن ہوسکے ہمیں دشمنوں کے اس وار کو سمجھنا ہوگا دشمن ہمیں کئی فرنٹ پر اندرونی لڑائیوں میں الجھانا چاہتا ہے حب الوطنی اور دور اندیشی کا تقاضا ہے کہ دشمن کی ان چالوں کو سمجھ کر ان کا مقابلہ کیا جائے دہشت گردوں کا کوئی مذہب نہیں ہوتا بلکہ گمراہ کن تصور کو لالچ اور دبائو سے مسلط کیا جاتا ہے جب تک ہماری سوچ انفرادی سے اجتماعی نہیں ہوتی ہم اپنے وسائل اور مشکلات کے مکمل خاتمے کی جانب نہیں بڑھ سکتے پاکستان دہشت گردی کے خلاف جنگ میں ہزاروں عام شہریوں کے علاہ پولیس اور فوج کے جوانوں اور افسروں کی قربانیاں دے چکا ہے لیکن جنگ ابھی ختم نہیں ہوئی-کامیابیاں بلا شبہ غیر معمولی ہیں لیکن یہ جنگ کا آخری مرحلہ ہے اور یہی وہ مرحلہ ہے جہاں ہمیں پہلے سے زیادہ چوکنا ہونے کی ضرورت ہے کہ دشمن ہماری کامیابیوں کا اثر زائل نہ کرسکے تا آنکے پاکستانی قوم مکمل امن کی منزل سے ہمکنار ہو اور ترقی کی طرف سے تیزی سے پیش قدمی کرے ریاست بلا شبہ پوری طاقت سے دہشت گردی کے خلاف نبرد آزما ہے ہمیں ہمیں سوچنا ہوگا کہ کمی کہاں پائی جاتی ہے؟ کیوں ہم اتنی قربانیوں کے باوجود اب تک اس لعنت سے چھٹکارا نہیں پاسکے’ کیونکہ افغانستان میں طالبان کی حکومت دہشت گردوں کی پناہ گاہیں ختم کرنے میں ناکام ہوئی ہے سب سے پیچیدہ اور مشکل مرحلہ پاک افغان سرحد پر عالمی معیار کے مطابق نظم وضبط قائم کرنا ہے لیکن گزشتہ چالیس برس میں آر پار آنے والے والے اس نظم وضبط کو ماننے کو تیار نہیں ہیں یہ وہ جھول ہے جو پاکستان میں ہونے والے دہشت گردی میں بہتر بڑا کردار ادا کرتی ہے پاکستان تو سرحدی نظام کو موثر بنانے کے لئے پر عزم نظر آتا ہے لیکن کابل میں اس عزم کی کمی واضح طور پر دیکھنے میں آرہی ہے پاک افغان سرحد پر تعینات پاک فوج کے افسران اور جوان جس بہادری اور جرات کا مظاہرہ کر رہے ہیں اس کی مثال نہیں ملتی اتنے دشوار گزار اور مشکل علاقے میں دہشت گردی کا مقابلہ کرنا ایک مشکل کام ہے اس کے ساتھ ساتھ اگر دہشت گردوں کو سرحد پار سے مدد مل رہی ہو تو کام مزید مشکل ہو جاتا ہے لیکن پاک فوج کے جوانوں نے ثابت کیا ہے کہ ان کی تربیت اعلی معیار کی ہے اور ان کے حوصلے چٹان کی مانند ہیں اور ان کے جذبے آسمان سے باتیں کر رہے ہیں پاکستان کے ریاستی اداروں کے لئے سب سے بڑا چیلنج دہشت گردوں اور پاکستان میں موجود اس کے سہولت کاروں سے نمٹنا ہے یہ بات طے ہے کہ دہشت گرد بغیر کسی سہولت کار اور ہینڈلر کی مدد کے پاکستانی شہروں میں واردات نہیں کرسکتے پاکستان شاید اس وقت دہشت گردوں سے زیادہ ان کے سہولت کاروں کے وجہ سے خطرات میں گھرا ہوا ہے ہماری سرزمین پر دہشت گردی کا جال پھیلانے والے سازشی عناصر کا کھوج لگا کر اور ان کی سرکوبی کے بغیر دہشت گردی کا مکمل خاتمہ ممکن نہیں اس لئے دہشت گردوں کے ملک میں موجود ٹھکانوں کے فوری خاتمے کو اولین ترجیح بنایا جائے پڑوسی ملک میں کالعدم تحریک طالبان پاکستان اور دیگر گروہوں کی پناہ گاہیں انہیں کارروائی کی آزادی دہشت گردوں کے پاس جدید ترین ہتھیاروں کی دستیابی پاکستان کی سلامتی’ بقا اور امن وامان کی صورت حال کو متاثر کرنے کی بڑی وجوہات ہیں ہمیں اب اس حقیقت کو تسلیم کرکے آگے بڑھنا ہوگا کہ افغانستان کی جانب سے جس بھائی چارے کی امید تھی اب اس کی کوئی توقع نہیں کی جاسکتی ملک کی موجودہ صورت حال میں دشمن کی پاکستان کو اندرونی محاذوں پر الجھانے کی کوشش کو ناکام بنانے اور اندرونی وبیرونی چیلنجز سے نبرد آزما ہونے کے لئے ٹھوس اقدامات ناگزیر ہیں۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے