کالم

نفرت کی دیواریں توڑیں۔۔۔!

انسان اپنی فطرت میں ایک سماجی وجود ہے۔ وہ تنہا جینے کی صلاحیت نہیں رکھتا، نہ ہی وہ اکیلا خوش رہ سکتا ہے۔ اس کیلئے دوسروں کی موجودگی، دوسروں کا پیار، دوسروں کا سہارا اور دوسروں کی رفاقت اتنی ہی ضروری ہے جتنی سانس لینے کیلئے ہوا مگر حیرت انگیز حقیقت یہ ہے کہ سب سے زیادہ تکلیف بھی انسان کو دوسرے انسان ہی دیتے ہیں۔ انسان انسان کے ہاتھوں سب سے زیادہ ظلم سہتا ہے، سب سے زیادہ دکھ جھیلتا ہے اور سب سے زیادہ زخم کھاتا ہے۔ جنگیں، قتل و غارت، نفرت، تعصب، جبر اور استحصال ، یہ سب انسان نے انسان کے خلاف ہی ایجاد کیے لیکن اس کے باوجود انسان انسان کے بغیر زندہ نہیں رہ سکتا۔ اگر ایک طرف انسان انسان کے لیے سب سے بڑی آزمائش ہے تو دوسری طرف انسان ہی انسان کے لیے سب سے بڑا سہارا بھی ہے۔یہی تضاد انسانی تاریخ کا سب سے اہم باب ہے اور یہی تضاد ہمیں یہ سوچنے پر مجبور کرتا ہے کہ ایسی صورت میں انسان کو انفرادی اور اجتماعی طور پر کیا کرنا چاہیے؟ کس طرح وہ اپنے رویے بدل سکتا ہے؟ کس طرح نفرت کی دیواریں گرائی جا سکتی ہیں؟ کس طرح دلوں کو جوڑا جا سکتا ہے؟ کس طرح انسان انسان کا سہارا بن سکتا ہے نہ کہ اس کے لیے عذاب؟ یہی وہ بنیادی سوال ہے جس کا جواب تلاش کرنا ہماری بقا اور ہماری خوشی کے لیے ضروری ہے۔اگر ہم تاریخ پر نظر ڈالیں تو ہمیں صاف نظر آتا ہے کہ انسان نے جب بھی دوسروں پر ظلم کیا ہے، انجام میں خود بھی بربادی دیکھی ہے۔ قدیم جنگیں ہوں یا جدید ایٹمی ہتھیار، ہر بار انسان نے اپنی ہی نسل کو مٹانے کی کوشش کی ہے مگر دوسری طرف ہمیں یہ بھی نظر آتا ہے کہ انسان نے جب دوسروں کے لیے قربانیاں دیں، ایثار کیا اور محبت کی تو دنیا جنت کا منظر پیش کرنے لگی۔ صحرا میں قافلوں کو پانی پلانے والے، جنگل میں اجنبی کی رہنمائی کرنے والے، اپنے بچوں کی بھوک برداشت کر کے دوسروں کے بچوں کو کھلانے والے،یہ سب مثالیں ہمیں یہ یاد دلاتی ہیں کہ اصل انسانیت دوسروں کے لیے جینے میں ہے۔انفرادی سطح پر سب سے پہلی ذمہ داری یہ ہے کہ ہر انسان اپنے دل میں یہ عہد کرے کہ میں دوسروں کے لیے سہارا بنوں گا، نہ کہ تکلیف۔ اپنی ذات کے خول سے باہر نکلنا ہی اصل کامیابی ہے۔ انسان کو یہ سوچنا ہوگا کہ میرے رویے دوسروں کے لیے کیسے ہیں؟ کیا میری زبان دوسروں کے زخم بڑھاتی ہے یا مرہم رکھتی ہے؟ کیا میرے اعمال دوسروں کے لیے آسانی پیدا کرتے ہیں یا مشکلات بڑھاتے ہیں؟ اگر ہر فرد یہ محاسبہ کرے اور اپنی غلطیوں کو درست کرنے کی کوشش کرے تو معاشرے کی فضا بدل سکتی ہے۔اجتماعی سطح پر معاشرے کو ایسے ادارے اور نظام قائم کرنے چاہئیں جو محبت کو فروغ دیں اور نفرت کو کم کریں۔ تعلیم اس میں سب سے بنیادی کردار ادا کر سکتی ہے۔ اگر اسکولوں اور گھروں میں بچوں کو یہ سکھایا جائے کہ دوسروں کے ساتھ ہمدردی اور رواداری رکھنی ہے، دوسروں کے دکھ کو سمجھنا ہے، دوسروں کے اختلاف کو قبول کرنا ہے تو آنے والی نسلیں ایک بہتر دنیا بنا سکتی ہیں۔ اسی طرح میڈیا اور فنونِ لطیفہ بھی انسانیت کا پیغام پھیلا سکتے ہیں۔ ایک اچھی فلم، ایک مثر ڈرامہ، ایک خوبصورت شعر یا ایک دل کو چھو لینے والی کہانی انسانوں کو قریب کر سکتی ہے۔انسانی نفسیات کے ماہرین کہتے ہیں کہ انسان کو سب سے زیادہ سکون تب ملتا ہے جب وہ دوسروں کے لیے کچھ کرتا ہے۔ دوسروں کی مدد کرنے سے انسان کے دماغ میں ایسے کیمیائی اثرات پیدا ہوتے ہیں جو خوشی کا باعث بنتے ہیں۔ گویا دوسروں کے لیے آسانی پیدا کرنا دراصل اپنے لیے سکون پیدا کرنا ہے۔ اسی طرح روحانی تعلیمات بھی یہی کہتی ہیں کہ انسان کا اصل درجہ دوسروں کی خدمت اور دوسروں کی محبت میں ہے۔ دنیا کے ہر بڑے مذہب نے یہی پیغام دیا کہ انسانوں کے درمیان دیواریں نہ کھڑی کرو بلکہ دلوں کو جوڑو۔یہ یاد رکھنا ضروری ہے کہ اختلاف فطری ہے۔ ہر انسان ایک جیسا نہیں سوچ سکتا، ہر انسان کی پسند اور ذوق مختلف ہے مگر یہ فرق ہی دنیا کی خوبصورتی ہے۔ اگر سب انسان ایک جیسے ہوتے تو زندگی بے رنگ ہو جاتی۔ ہمیں دوسروں کے فرق کو قبول کرنا سیکھنا ہوگا۔ اختلاف کو دشمنی میں بدلنے کے بجائے تنوع کے طور پر دیکھنا ہوگا۔ یہی رویہ معاشروں میں ہم آہنگی پیدا کر سکتا ہے۔دیواریں چاہے نسل کی ہوں، مذہب کی ہوں، زبان کی ہوں یا دولت کی، سب انسانوں کو تقسیم کرتی ہیں اور یہ دیواریں صرف محبت سے گرائی جا سکتی ہیں۔ اگر ہم دوسروں کو انسان سمجھنے لگیں، ان کے دکھ کو اپنا دکھ سمجھنے لگیں، ان کی خوشی کو اپنی خوشی سمجھنے لگیں تو نفرتوں کے لیے کوئی جگہ باقی نہیں رہے گی۔انسان کو چاہیے کہ وہ اپنی طاقت کو نفرت پھیلانے کے بجائے محبت بانٹنے میں استعمال کرے۔ ہر انسان کے پاس یہ صلاحیت ہے کہ وہ دوسروں کے لیے روشنی کا چراغ بن سکے۔ ایک نرم بات، ایک مددگار ہاتھ، ایک مسکراہٹ، یہ سب وہ چھوٹی چھوٹی چیزیں ہیں جو دلوں کو جوڑ دیتی ہیں۔ جب یہ رویے انفرادی اور اجتماعی دونوں سطحوں پر عام ہو جائیں گے تو دنیا بدل جائے گی۔انسان کو انسان سے ہی سکون ملتا ہے اور انسان کو انسان سے ہی زخم لگتے ہیں۔ اب یہ فیصلہ ہمیں کرنا ہے کہ ہم دوسروں کے لیے زخم ہیں یا مرہم؟ ہم دوسروں کے لیے دیوار ہیں یا پل؟ ہم دوسروں کو تنہا کرتے ہیں یا سہارا بنتے ہیں؟ یہ فیصلہ ہماری انسانیت کی اصل پہچان طے کرتا ہے۔اگر ہم دلوں کو جوڑنے کا راستہ اختیار کر لیں، نفرتوں کی جگہ محبتوں کو جگہ دے دیں، دوسروں کی غلطیوں کو معاف کر دیں، دوسروں کے دکھ کو اپنا دکھ سمجھیں تو کوئی وجہ نہیں کہ یہ دنیا امن اور سکون کا گہوارہ نہ بن جائے۔ انسان کے پاس سب سے بڑی طاقت اس کا دل ہے۔ اگر یہ دل نفرت کے بجائے محبت سے بھر جائے تو دنیا کی سب دیواریں گر جائیں گی اور صرف دل رہ جائیں گے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے