یہ امر کسی سے پوشیدہ نہیں کہ حالیہ بارشوں اور دریائی طغیانی نے پاکستان کے کئی صوبوں میں بڑے پیمانے پر تباہی مچائی ہے۔ ایک جانب سندھ اور بلوچستان کے نشیبی علاقوں میں ہزاروں ایکڑ پر کھڑی فصلیں برباد ہوئیں تو دوسری طرف خیبرپختونخوا اور جنوبی پنجاب کے متعدد اضلاع شدید متاثر ہوئے۔ یہ بات خصوصی توجہ کی حامل ہے کہ دریاؤں میں پانی کی سطح معمول سے کئی گنا بڑھ چکی ہے جس سے نہ صرف مقامی آبادی بلکہ ملک کی مجموعی معیشت بھی دباؤ میں ہے۔ معاشی ماہرین کے مطابق بارشوں اور سیلابی ریلوں نے زرعی شعبے کو سب سے زیادہ نقصان پہنچایا ہے اور اس کا اثر غذائی رسد اور قیمتوں پر طویل عرصے تک محسوس کیا جا سکتا ہے۔ مبصرین کے مطابق متاثرہ علاقوں میں بنیادی ڈھانچے کی بحالی ایک کٹھن اور مہنگا مرحلہ ثابت ہوگا جس کے لیے فوری اور مربوط اقدامات ناگزیر ہیں ۔ اسی ضمن میں یہ بات بھی اہم ہے کہ پنجاب کی قیادت خصوصاً وزیراعلیٰ مریم نواز نے نہ صرف متاثرہ علاقوں کے دورے کیے بلکہ ریلیف اور بحالی کے متعدد اعلانات بھی کیے۔ ایک طرف انہوں نے صوبائی و ضلعی انتظامیہ کو ہنگامی بنیادوں پر متاثرین کی مدد کی ہدایت دی تو دوسری جانب زرعی اراضی کی بحالی اور کاشتکاروں کے نقصانات کے ازالے کیلئے خصوصی پیکیج کا اعلان کیا اور اسی ضمن میں بڑے پیمانے پر مویشیوں کی حفاظت کیلئے خصوصی اقدامات کیے گئے جس میں تقریبا 22لاکھ سے زائد مویشیوں کو بچایا گیا۔ یہ امر قابل ذکر ہے کہ صوبائی حکومت نے ریلیف کیمپوں میں طبی سہولیات، خشک راشن اور صاف پانی کی فراہمی کو اولین ترجیح دی ہے۔ مبصرین کے مطابق یہ اقدامات وقتی ریلیف سے آگے بڑھ کر طویل مدتی حکمت عملی کی بنیاد
رکھ سکتے ہیں اگر فنڈز کی شفاف تقسیم اور مؤثر نگرانی کو یقینی بنایا جائے۔پنجاب میں جاری ترقیاتی سکیموں کا جائزہ لیا جائے تو مریم نواز کی حکومت نے حالیہ مہینوں میں متعدد منصوبے شروع کیے ہیں جن کا مقصد صوبے کے بنیادی ڈھانچے کو مضبوط بنانا اور عوامی سہولتوں میں اضافہ کرنا ہے۔ ایک جانب ”اپنی زمین، اپنا گھر” پروگرام کے ذریعے کم آمدنی والے خاندانوں کو رہائشی سہولت دینے کی کوشش کی جا رہی ہے، تو دوسری طرف دیہی علاقوں کے لیے پانچ ہزار کلومیٹر طویل فارم ٹو مارکیٹ روڈز کی تعمیر اور توسیع کا عمل شروع ہو چکا ہے تاکہ زرعی اجناس بروقت منڈیوں تک پہنچ سکیں۔ یہ امر خصوصی توجہ کا حامل ہے کہ ان منصوبوں میں ماحولیاتی پہلو اور بارشوں کے پانی کے نکاس کو بھی ڈیزائن کا حصہ بنایا جا رہا ہے تاکہ مستقبل میں بارشوں کے نقصانات کم سے کم ہوں۔ اسی ضمن میں یہ بات بھی اہم ہے کہ جنوبی پنجاب میں صاف پانی کی فراہمی کے لیے میگا اسکیمیں شروع کی گئی ہیں جو مقامی آبادی کی دیرینہ ضرورت تھی۔معاشی ماہرین کے مطابق ان ترقیاتی اقدامات سے روزگار کے مواقع میں اضافہ اور صوبائی معیشت میں بہتری متوقع ہے، تاہم وہ یہ بھی کہتے ہیں کہ جاری سیلابی تباہ کاریوں کے پیش نظر ترقیاتی فنڈز کے استعمال اور ترجیحات کی ازسرنو ترتیب ناگزیر ہے۔ ایک طرف متاثرینِ سیلاب کو فوری امداد کی ضرورت ہے تو دوسری طرف طویل مدتی منصوبوں کو جاری رکھنا بھی معاشی استحکام کے لیے ضروری ہے۔ مبصرین کے مطابق اگر صوبائی حکومت نے ریلیف اور ترقیاتی منصوبوں میں توازن قائم رکھا تو یہ پنجاب کے لیے ایک اہم موڑ ثابت ہوگا۔یہ امر قابل ذکر ہے کہ حالیہ بحران نے ماحولیاتی تبدیلی کے خطرات کو ایک بار پھر اجاگر کیا ہے۔ مبصرین کے مطابق پالیسی سازوں کے لیے یہ ایک سخت پیغام ہے کہ بنیادی ڈھانچے کی منصوبہ بندی میں موسمیاتی تغیر کو نظرانداز نہیں کیا جا سکتا۔ ایک جانب شدید بارشیں اور سیلاب ہیں تو دوسری طرف مستقبل کے لیے پائیدار منصوبہ بندی کی ضرورت ہے۔ اسی ضمن میں یہ بات بھی اہم ہے کہ ماہرینِ معیشت اور ماحولیاتی تجزیہ کار مشترکہ طور پر اس بات پر زور دیتے ہیں کہ قومی سطح پر پانی کے ذخائر، نکاسی آب اور شہری منصوبہ بندی کو فوری توجہ دی جائے تاکہ آئندہ تباہ کاریوں کو کم کیا جا سکے۔مجموعی طور پر دیکھا جائے تو ملک بھر میں حالیہ سیلابی صورتحال ایک بڑے چیلنج کے طور پر سامنے آئی ہے۔ مبصرین کے مطابق وفاقی اور صوبائی حکومتوں کو اس بحران کو صرف ایک قدرتی آفت کے بجائے قومی سلامتی اور معاشی استحکام کے تناظر میں دیکھنا ہوگا۔ یہ امر خصوصی توجہ کا حامل ہے کہ مریم نواز نے پنجاب میں نہ صرف ریلیف اقدامات کو تیز کیا بلکہ ترقیاتی سکیموں کی رفتار بھی برقرار رکھنے کی کوشش کی ہے۔ ایک طرف فوری امداد اور بحالی کی سرگرمیاں جاری ہیں، تو دوسری طرف مستقبل کے لیے پائیدار ترقی کا ایجنڈا بھی زیر عمل ہے۔ یہ متوازن حکمت عملی اگر مؤثر انداز میں جاری رہی تو نہ صرف پنجاب بلکہ پورے ملک کے لیے امید کی کرن ثابت ہو سکتی ہے۔
کالم
پنجاب میں ترقیاتی اقدامات اور سیلاب
- by web desk
- اکتوبر 2, 2025
- 0 Comments
- Less than a minute
- 8 Views
- 3 گھنٹے ago