ایک جانب چند ماہ قبل امریکہ نے جعفر ایکسپریس پر ہونے والی دہشتگردی کے بدترین واقعے کے بعد ”بی ایل اے” اور ” مجید برگیڈ” کو باقاعدہ طور پر دہشتگرد تنظیم قرار دیا تھا ۔سنجیدہ حلقوں کے مطابق اسے ایک ستم ظریفی ہی قرار دیا جا سکتا ہے کہ بعض حلقے ماہ رنگ بلوچ کو نوبل انعام دینے کی وکالت کر رہے ہیں ۔یاد رہے کہ گزشتہ برس کراچی میں چین کے اساتذہ پر جس خاتون نے خودکش حملہ کیا تھا اس کا تعلق بھی ماہ رنگ بلوچ کے قریبی ساتھیوں سے تھا ۔دوسری طرف یہ ا مر انتہائی توجہ کا حامل ہے کہ رپورٹس کے مطابق بعض بین الاقوامی ذرائع نے حالیہ مہینوں میں ماہ رنگ بلوچ کو عالمی امن کی علمبردار اور نوبل انعام کی امیدوار کے طور پر پیش کرنے کی مہم کا ذکر کیا ہے۔ بعض غیر ملکی جریدوں اور تجزیاتی ویب سائٹس نے دعویٰ کیا ہے کہ یہ مہم ایک منظم لابنگ کا نتیجہ ہے جس میں ایسے افراد اور نیٹ ورکس شامل ہیں جن پر کالعدم گروہوں کے ساتھ روابط کے الزامات لگائے گئے ہیں۔ مبصرین کے مطابق اسی تناظر میں بلوچستان کی سیاسی و سماجی صورتِ حال ایک بار پھر عالمی توجہ کا مرکز بنی ہے۔ پاکستانی نقطہ نظر سے یہ معاملہ محض ایک انسانی حقوق کا مسئلہ نہیں بلکہ ملک کی سلامتی، علیحدگی پسند تحریکوں اور بیرونی اثرات کا پیچیدہ امتزاج ہے۔غیر ملکی ذرائع کے مطابق ماہ رنگ بلوچ ایک سماجی کارکن کے طور پر عالمی سطح پر متعارف کرائی جا رہی ہیں۔اکثر مبصرین یہ بھی دعویٰ کرتے ہیں کہ وہ ایک ایسے خاندان سے تعلق رکھتی ہیں جس پر ماضی میں عسکریت پسندوں کی حمایت کے الزامات لگتے رہے ہیں۔یاد رہے کہ ماہ رنگ بلوچ نے مختلف عوامی جلسوں اور بین الاقوامی فورمز پر بلوچستان میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے خلاف آواز بلند کی ہے، لیکن بعض رپورٹس کے مطابق انہوں نے علیحدگی پسند گروہوں کے پرتشدد اقدامات پر کبھی بھی کھل کر تنقید نہیں کی بلکہ باواسطہ طور پر اکثر ان کی حمایت کی ہے ۔ بعض تحقیقی اداروں کی رپورٹس میں کہا گیا ہے کہ موصوفہ کی قیادت میں نام نہاد بلوچ یکجہتی کمیٹی (BYC) نہ صرف انسانی حقوق بلکہ سیاسی مطالبات کو بھی اجاگر کرتی ہے جبکہ بعض رپورٹوں کے مطابق اس پلیٹ فارم کے کچھ ارکان پر یہ الزام لگایا گیا کہ وہ ایسے بیانیے کو تقویت دیتے ہیں جو علیحدگی پسند تنظیموں کے مؤقف سے مماثلت رکھتا ہے۔ تاہم BYC کی جانب سے ایسے الزامات کی باضابطہ تردید بھی سامنے آتی رہی ہے اور تنظیم اپنے آپ کو محض ایک پرامن حقوقِ انسانی گروہ قرار دیتی ہے۔غیر ملکی جریدے Balochistan Pulse نے 15 ستمبر 2024 کی رپورٹ میں دعویٰ کیا کہ ناروے میں PEN Norway کے ادارے اور نوبل کمیٹی کے ایک رکن جورگن واٹنے فریدنس کے ساتھ مہرنگ بلوچ کی ملاقات کرائی گئی۔ رپورٹ کے مطابق اس ملاقات میں ناروے میں مقیم ایک اور کارکن کا بھی کردار بیان کیا گیا ہے۔ بعض تجزیہ کاروں کے مطابق یہ ملاقات نوبل انعام کے نامزدگی عمل پر سوال اٹھاتی ہے، خاص طور پر اس لیے کہ نوبل کمیٹی کے اراکین سے براہِ راست رابطہ ایک حساس معاملہ سمجھا جاتا ہے۔ مبصرین اس معاملے کو وسیع تر جیو پولیٹیکل تناظر میں دیکھتے ہیں اور انکے مطابق بھارت کی خفیہ ایجنسی ”را” اور دیگر بیرونی عناصر بلوچستان میں بدامنی پیدا کرنے کی کوشش کرتے رہے ہیں۔
پاکستانی سلامتی ادارے بارہا یہ مؤقف پیش کر چکے ہیں کہ بعض علیحدگی پسند گروہ بیرونی مدد سے سرگرم ہیں۔ تاہم چند بین الاقوامی انسانی حقوق کی تنظیمیں پاکستان کے ان دعوؤں پر مکمل اتفاق نہیں کرتیں اور بلوچستان میں سیاسی حقوق کے تحفظ پر زور دیتی ہیں۔یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ اگر واقعی نوبل انعام کے انتخابی عمل میں ایسے رابطے اور لابنگ ثابت ہوتے ہیں تو اس کے عالمی انعام کی ساکھ پر سوال اٹھ سکتا ہے۔ غیر جانبدار بعض تجزیہ نگار اس خدشے کا اظہار کرتے ہیں کہ عالمی سطح پر ایسے انعامات کو بعض اوقات جیو پولیٹیکل مقاصد کیلئے استعمال کیا جاتا ہے۔یہ معاملہ کئی پہلوؤں سے حساس ہے۔ ایک طرف بلوچستان میں انسانی حقوق کی شکایات ہیں جنہیں سننا اور حل کرنا ضروری ہے، دوسری طرف پاکستان کے اندرونی امن و سلامتی کے خدشات ہیں جنہیں کسی بھی طور نظرانداز نہیں کیا جا سکتا۔ اسی لیے ماہرین کا کہنا ہے کہ اس نوعیت کی خبروں میں متوازن نقطہ نظر ضروری ہے، اور ہر دعویٰ صرف ”رپورٹس کے مطابق” یا ”فلاں ادارے کے مطابق” جیسی نسبت کے ساتھ بیان کیا جانا چاہیے تاکہ صحافتی اور قانونی تقاضے پورے ہوں۔پاکستانی نقطہ نظر سے اصل ضرورت یہ ہے کہ ملکی ادارے بلوچستان میں ترقی اور شمولیت کے ایسے اقدامات کریں جو نوجوانوں کو شدت پسندی کے بیانیے سے دور رکھیں، جبکہ عالمی ادارے محض الزامات پر نہیں بلکہ
کالم
نوبل کمیٹی کی ساکھ داؤ پر
- by web desk
- اکتوبر 4, 2025
- 0 Comments
- Less than a minute
- 70 Views
- 2 مہینے ago

