کالم

بھارتی آئین میں مذہبی آزادی

بھارتی آئین تمام شہریوں کو مذہبی آزادی اور اظہار رائے کی مکمل آزادی دیتا ہے اور آئین کے آرٹیکل 25 میں واضح طور پر لکھا ہے کہ تمام شہریوں کو اپنے مذاہب پر عمل کرنے کی مکمل آزادی حاصل ہے جبکہ آرٹیکل 19 کی ذیلی شق ایک کے پیرا اے میں درج ہے کہ تمام شہریوں کو اظہار رائے کی مکمل آزادی حاصل ہے ماسوائے اس صورت کہ اس سے براہ راست نفرت یا اشتعال انگیزی کا خدشہ ہو۔ڈی سی پی دنیش تریپاٹھی کے مطابق حکومت کے قوانین مذہبی جلوسوں میں نئی رسمیں شامل کرنے کی اجازت نہیں دیتے۔ کچھ افراد نے روایتی خیمہ ہٹا کر نیا خیمہ اور بینر لگا دیا تھا، جسے پولیس نے روایتی مقام پر واپس کیا۔ دنیش تریپاٹھی کا کہنا تھا کہ بینر کے لیے کوئی ایف آئی آر درج نہیں کی گئی تھی۔تاہم، دونوں ہندو اور مسلم گروپوں نے ایک دوسرے پر پوسٹر پھاڑنے کے الزامات لگائے، اور پولیس کی کوششوں کے باوجود حالات مزید کشیدہ ہو گئے۔بعدازاں 15 ستمبر کو آل انڈیا مجلسِ اتحاد المسلمین کے سربراہ اسدالدین اویسی نے ایک پوسٹ شیئر کی تھی جس میں انہوں نے کہا تھا کہ I Love Muhammad کہنا جرم نہیں ہے۔ انہوں نے پولیس کارروائی پر تنقید کی تھی اور کانپور پولیس کو ٹیگ کیا تھا جس سے تنازع مزید بڑھ گیا۔کانپور پولیس کا موقف ہے کہ بینر کے حوالے سے کوئی ایف آئی آر نہیں ہے، مقدمات صرف اس کے نئے مقام پر لگانے اور دوسرے گروپ کے پوسٹرز کو نقصان پہنچانے سے متعلق ہیں۔ پولیس نے عوام سے غلط معلومات نہ پھیلانے کی اپیل کی ہے۔ یہ احتجاج اتر پردیش کے مختلف شہروں جیسے اناو، مہاراج گنج، مہاراج گنج، لکھن، ناگپور، اتراکھنڈ اور دیگر مقامات پر ہوا جہاں متعدد گرفتاریاں عمل میں لائی گئیں۔بھارت سماج وادی پارٹی کے ترجمان کے مطابق پولیس کی ناکامی کی وجہ سے احتجاج میں اضافہ ہواکہ ہم آزادیِ اظہار کے حق کا دفاع کرتے ہیں چاہے نعرہ I Love Ram ہو یا I Love Muhammad۔بھارتیہ جنتا پارٹی کے نمائندوں کا کہنا ہے کہ قانون شکنی یا پولیس پر حملہ برداشت نہیں کیا جائے گا۔مذہبی رہنما، جیسے مولانا صوفیان نظامی، جماعت رضا مصطفی، اور ورلڈ صوفی فورم نے تشدد کی مذمت کی، امن اور آئینی حقوق کی پاسداری کا پیغام دیا۔بھارت میں مودی حکومت کے دور میں مسلم دشمن پالیسیوں اور اقدامات میں تیزی آ گئی ہے جس سے مسلمانوں کے لیے زندگی گزارنا مشکل ہوتا جا رہا ہے۔ بھارتی ویب پورٹل ”دی وائر ”نے اپنی ایک رپورٹ میں کہاہے کہ اتر پردیش کی ریاستی حکومت اور اس کے زیر اثر پولیس آر ایس ایس کے ہندوتوا نظریے کے تحت مسلمانوں کیخلاف کارروائیاں تیز کر رہی ہے۔ متھورا شہر کو ستمبر 2021میں مقدس قرار دیے جانے کے بعد سے مسلم اکثریتی علاقوں میں گوشت کی دکانیں اور ہوٹل بند کر دیے گئے ہیں جس سے مقامی مسلمانوں کا روزگار شدید متاثر ہوا ہے ۔ پولیس کو گائے کے تحفظ کے قوانین کے تحت وسیع اختیارات حاصل ہیں جنہیں مسلمانوں کیخلاف استعمال کیا جا رہا ہے۔ مسلمانوں کیخلاف جھوٹے مقدمات کا اندراج، بلاجواز گرفتاریاں اور سماجی امتیاز ایک معمول بن چکا ہے۔ مسلمانوں میں خوف کی فضا اس قدر پھیل چکی ہے کہ وہ گوشت کھانے یا خریدنے سے بھی گریز کر رہے ہیں۔ متھورامیں مسلم مخالف نفرت انگیز بیانات میں اضافہ دیکھنے میں آ رہا ہے۔ ہندو انتہا پسند رہنما مسلمانوں کو دیمک کہہ کر پکارتے ہیں جبکہ نوجوان مسلمان ہندو شدت پسندوں کے حملوں سے بچنے کیلئے ہندو مذہبی رنگوں والے زعفرانی کپڑے پہننے پر مجبور ہیں۔ اس کے علاوہ مسلمانوں کے قبرستانوں کے قریب کچرے کے ڈھیر لگائے جا رہے ہیں اور مساجد کے قریب بیت الخلاء تعمیر کیے جا رہے ہیں۔ بعض علاقوں میں مساجد پر قبضوں، اذان پر پابندی اور گھروں کی مسماری کی کارروائیاں بھی تیز ہو گئی ہیں جو آر ایس ایس کے ہندوتوا ایجنڈے کا حصہ قرار دی جا رہی ہیں۔تجزیہ کاروں کے مطابق بھارت میں بڑھتی ہوئی مسلم دشمنی مودی حکومت کے نظریاتی بیانیے اور ہندو قوم پرستی کے عروج کا نتیجہ ہے جس نے ملک کے سیکولر تشخص کی دھجیاں اڑادی ہیں۔بھارت میں ”آئی لو محمدۖ” کہنے پر ہزاروں مسلمان مقدمات کی زد میں ہیں اور مذہبی اظہار کو بھی جرم بنا دیا گیا ہے۔ آئی لو محمدۖ کہنے پر ڈھائی ہزار مسلمانوں کے خلاف کیسز درج کیے جا چکے ہیں اور درجنوں گرفتاریاں بھی ہو چکی ہیں جبکہ مسلمانوں کے گھروں پر بلڈوزر بھی چلائے جا رہے ہیں۔آئی لو محمد ۖکہنے پر مسلمانوں پر مذہبی منافرت کے الزامات لگائے گئے، اور ریاست اتر پردیش سے شروع ہونے والا معاملہ پورے بھارت میں پھیل گیا۔ بھارت میں وزیرِاعظم نریندر مودی کی حکمران جماعت بی جے پی کے زیر انتظام کئی ریاستوں میں مسلمانوں کے خلاف کریک ڈاؤن جاری ہے، جہاں”آئی لو محمدۖ”لکھنے یا کہنے پر اب تک 2500 سے زیادہ مسلمانوں کے خلاف 22 مقدمات درج کیے جا چکے ہیں اور 40 کے قریب مسلمانوں کو گرفتار بھی کیا جا چکا ہے۔یہ مہم شمالی ریاست اتر پردیش کے شہر کانپور سے شروع ہوئی جہاں میلاد النبی ۖ کے موقع پر ”آئی لو محمدۖ ” کا بورڈ لگایا گیا تھا، جسے بعض ہندو گروہوں نے اعتراض کا نشانہ بنایا۔ 20 فیصد مسلم آبادی پر مشتمل کانپور کی پولیس نے مقامی ہندو رہنماؤں کی درخواست پر کارروائی کرتے ہوئے درجنوں مسلمانوں پر مذہبی منافرت پھیلانے کے سنگین الزامات لگا کر متعدد افراد کو گرفتار کر لیا اور کئی گھروں پر بلڈوزر چلا دیے ۔ اس واقعے کے بعد ملک بھر میں مسلمانوں نے احتجاج شروع کر دیا، اتر پردیش سے شروع ہونیوالا احتجاج کا سلسلہ تلنگانہ، مہاراشٹرا، گجرات، اتر کھنڈ اور مقبوضہ جموں و کشمیر تک پھیل گیا جس پر پولیس نے مزید مسلمانوں کو گرفتار کر لیا۔ دوسری جانب آئی لو محمدۖ کے ہورڈنگز اور لکھائی والی ٹی شرٹس کے ساتھ سوشل میڈیا پر بھی پھیل گئیں ۔ اتر پردیش کے شہر بریلی میں کانپور میں ہونیوالی گرفتاریوں کیخلاف احتجاج کرنے والے مسلمانوں پر پولیس نے ہلا بولا اور 75 افراد کو گرفتار کر لیا، اور امام مسجد سمیت 4 افراد کی املاک پر بلڈوزر چلا دیے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے