کالم

ہمارا میانوالی ۔۔۔!

اگلا پڑا میانوالی تھا،میں جس والہانہ محبت سے اس سفر کا منتظر تھا، اس کی کوئی مثال نہیں۔ میانوالی میرا آبائی ضلع ہے، میرے وجود کی خوشبو اسی مٹی سے جڑی ہوئی ہے۔ یہ سرزمین میرے خمیر کا حصہ ہے۔ جب کبھی میں اس طرف کا رخ کرتا ہوں، یوں لگتا ہے جیسے روح کے بکھرے ہوئے ذرے دوبارہ یکجا ہو رہے ہوں۔ میانوالی صرف ایک جغرافیائی خطہ نہیں بلکہ یہ احساس، عقیدت اور محبت کا استعارہ ہے۔ خالقِ کائنات نے اس خطے کے لوگوں میں جو خلوص اور احترام کی چاشنی رکھی ہے، وہ کم کم جگہوں پر دکھائی دیتی ہے۔ یہاں کے لوگ شائستہ گفتار، محبت میں ڈوبے ہوئے اور عزت دینے والے ہیں۔ ان کے لہجے میں ایسی مٹھاس ہے جو دلوں کو چھو لیتی ہے۔میانوالی کے لوگوں کی سب سے بڑی پہچان ان کا تعلق اپنے علاقے سے ہے۔ وہ جہاں بھی چلے جائیں، اپنے دیس کو نہیں بھولتے۔ ان کے لہجے میں ہمیشہ اپنی مٹی کی خوشبو بولتی ہے۔ روشن لعل چیکر بٹوارے کے وقت دہلی جا بسے مگر آج بھی میانوالی ان کے دل کے نہاں خانوں میں زندہ ہے۔ وقت گزر گیا، سرحدیں بدل گئیں مگر محبت کی وہ رشتہ داری نہیں بدلی۔ وہ اب بھی گاہے بگاہے اپنے "بھومی جہنم” میانوالی آتے ہیں جیسے کوئی اپنی ماں کے آنگن میں لوٹتا ہو۔ یہی جذبہ میانوالی کے ہر شخص کی رگ و پے میں دوڑتا ہے ۔ میانوالی نے ہمیشہ بڑے لوگوں کو جنم دیا۔ یہاں کی مٹی بڑی زرخیز ہے، نہ صرف فصلوں کیلئے بلکہ کرداروں کیلئے بھی۔مولانا عبد الستار خان نیازی کا فکری قد، نواب آف کالاباغ ملک امیر محمد خان کا سیاسی اثر و رسوخ، عمران خان کی قیادت اور عالمی مقام ، عطا اللہ عیسیٰ خیلوی کی آواز یہ سب میانوالی کی شناخت ہیں۔ یہ وہ نام ہیں جنہوں نے نہ صرف اپنے علاقے بلکہ پورے ملک کا نام روشن کیا۔ میانوالی کا ذکر آتے ہی ایک ایسی سرزمین کا تصور ابھرتا ہے جس نے سیاست، مذہب، ادب، فن اور موسیقی ہر میدان میں اپنی چھاپ چھوڑی ہے۔تاریخ کی ورق گردانی کریں تو میانوالی کا ماضی صدیوں پر محیط ہے۔ یہ خطہ کبھی افغانوں، مغلوں اور سکھوں کے زیرِ اثر آیا اور برطانوی راج میں ایک اہم مقام اختیار کیا۔ 9 نومبر 1901 میں جب ضلع بنوں سے الگ ہو کر ضلع میانوالی بنا تو اس نے اپنی الگ شناخت حاصل کی۔ اس کی جغرافیائی حیثیت بڑی منفرد ہے، ایک طرف دریائے سندھ آب و تاب سے بہتا ہے تو دوسری طرف تھل کا بے کنار صحرا پھیلا ہوا ہے۔ کہیں بلند و بالا پہاڑ ہیں تو کہیں ہرے بھرے میدان،شاید یہی تضاد میانوالی کو حسن عطا کرتا ہے، ایک طرف گرمی کی شدت، دوسری طرف پہاڑوں کی خنکی،کہیں بیابان، کہیں لہلہاتے کھیت۔ دریا سندھ کا پرسکون بہاؤ، چشمہ بیراج کی وسعتیں، جناح بیراج کے کنارے شام کا نظارہ، یہ سب منظر روح کو سرشار کر دیتے ہیں ۔ ان بیراجوں سے پنجاب اور خیبرپختونخوا کے لاکھوں ایکڑ زمین سیراب ہوتی ہے۔ یہاں کا پانی زندگی کی علامت ہے۔ جب دریا کے کنارے شام ڈھلتی ہے تو آسمان پر سنہری رنگ بکھر جاتے ہیں اور ہوا میں ایک عجیب سا سکون پیدا ہو جاتا ہے۔ وہ لمحے دل میں ہمیشہ کے لیے نقش ہو جاتے ہیں۔میانوالی کے لوگ سادہ مگر خوبصورت زندگی گزارتے ہیں۔ ان کے رہن سہن میں ایک مخصوص وقار ہے۔ ان کی زبان میں مٹھاس، عادت میں خلوص اور چال ڈھال میں وقار جھلکتا ہے۔ لباس سفید کپڑے ان کی پہچان ہیں۔ بوسکی قمیض اور سفید شلوار کے ساتھ طلے دار جوتا ان کی شان ہے ۔ ان کے انداز میں ایک مقامی وقار ہے جو ان کے کلچر کی گہرائی کو ظاہر کرتا ہے ۔ کھانوں میں میانوالی کا کٹوا مشہور ہے۔ مٹی کا چھوٹا سا برتن جس میں گوشت پکایا جاتا ہے، اس کی خوشبو ہی بھوک بڑھا دیتی ہے۔ اس دیسی ذائقے میں وہی مٹی بولتی ہے جو اس علاقے کی پہچان ہے۔ کٹوا صرف کھانے کی ڈش نہیں بلکہ یہ ایک ثقافتی علامت ہے۔ لوگ اکٹھے بیٹھ کر کھانا کھاتے ہیں، باتیں کرتے ہیں اور یوں لگتا ہے جیسے وقت رک گیا ہو۔ میانوالی کا موسم بھی اپنے رنگ بدلتا رہتا ہے۔ گرمی میں تھل کے علاقے جلتی دھوپ کا نظارہ دیتے ہیں مگر جیسے جیسے آپ پہاڑی علاقوں کی طرف بڑھتے ہیں، فضا بدل جاتی ہے۔ کہیں خنکی ہے، کہیں خوشگوار ہوا اور بعض مقامات پر راتوں کو کمبل اوڑھنا پڑتا ہے۔ قدرت نے اس سرزمین کو تضادات کا حسین امتزاج بنا دیا ہے۔میانوالی کے لوگوں میں عزت و احترام کا جذبہ پیدائشی طور پر موجود ہے۔ کوئی مہمان اگر ان کے در پر آ جائے تو وہ اپنا سب کچھ اس کیلئے حاضر کر دیتے ہیں۔ مہمان نوازی ان کے خون میں شامل ہے۔ ان کے ہاں تعلقات صرف رسمی نہیں ہوتے بلکہ دل سے ہوتے ہیں۔ ان کے رویے میں ایسی سچائی ہے جو مصنوعی دنیا میں کم کم دکھائی دیتی ہے ۔ میانوالی کی ثقافت میں لوک گیتوں، دیہاتی میلوں اور روایتی کھیلوں کی جھلک آج بھی موجود ہے۔ ڈھول کی تھاپ پر جھومتے جوان، محفلوں میں عطا اللہ عیسیٰ خیلوی کے گیت اور بزرگوں کی باتوں میں چھپی حکمت، یہ سب میانوالی کے روز و شب کا حصہ ہیں۔ تھل کی ریت پر ڈھلتی شامیں اور دریا کنارے گزرتی راتیں، زندگی کو ایک نیا مفہوم دیتی ہیں ۔ میانوالی کے لوگوں کے چہرے گلاب کے پھولوں کی ماند کھلے اور دلوں میں اخلاص، ان کی آنکھوں میں خواب اور لہجے میں یقین ہیں ۔ میانوالی صرف ایک ضلع نہیں، یہ ایک جذبہ ہے، ایک احساس ہے، ایک روایت ہے۔ یہاں کے لوگوں نے وقت کے ساتھ ترقی کی ہے مگر اپنی روایات نہیں بھولے۔ چاہے وہ دیہاتی میلوں کی چہل پہل ہو یا شہری زندگی کی چمک دمک، میانوالی کی روح ہمیشہ برقرار رہتی ہے۔جب بھی میں میانوالی سے واپس لوٹتا ہوں تو ایک عجیب سی کسک دل میں رہ جاتی ہے جیسے کچھ پیچھے رہ گیا ہو۔ شاید وہ مٹی کی مہک، شاید وہ دریا کے کنارے کی شام، شاید وہ خلوص بھری مسکراہٹیں۔ میں جانتا ہوں کہ جہاں بھی جاں، میرے اندر ایک میانوالی ہمیشہ زندہ رہے گا۔ یہ سرزمین میری پہچان ہے ، میرا فخر ہے اور میری محبتوں کا مرکز ہے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے