تحریک آزادی کشمیر جدوجہد پر مبنی دیگر ایام کی طرح 6نومبر کی اہمیت بھی مسلمہ ہے ، درحقیقت اس دن کو منانے کا مقصد ان بے گناہ اور نہتے کشمیری شہدا کی یاد کو تازہ کرنا ہیجنھیں محض اس بنا پر بے دردی سے شہید کردیا گیا کہ مقبوضہ علاقے میں مسلمانوں کی آبادی کا تناسب کم کیا جاسکئے،1947 میں ماہ نومبر ہی تھا جب ڈوگرہ حکمران ہری سنگھ اور مسلح جھتوں نے جموں وکشمیر میں کم وبیش 4 لاکھ کشمیری مرد، خواتین، بزرگ اور بچوں کا قتل عام کیا ، بیشتر مورخین کا ماننا ہے کہ اس قتل عام کا اہم کردار ہری سنگھ ہی تھا، المناک اور درد ناک واقعہ کا دوسرا پہلویہ ہے کہ اس پر پوری منصوبہ بندی کے ساتھ عمل کیا گیا ، ان ہی حالات میں 5 لاکھ کشمیریوں کو جموں سے دھونس اور جبر کے زریعہ ہجرت پر مجبور کیا گیا، مورخین کا ماننا ہے کہ نومبر1947 میں ہونے والے اس سانحہ کے نتیجے میں ہی جموں میں مسلمان اقلیت میں آگے جب کہ اس سے قبل ان کی تعداد کل آبادی کا 61 فیصد تھی ، واقعہ کا دوسرا پہلو یہ ہے کہ دہائیاں گزر جانے کے باوجود سرکاری سطح پر لاکھوں کی تعداد میں مارے جانے والے کشمیری مسلمانوں کی حتمی تعداد کا ریکارڈ موجود نہیں، درحقیقت ہری سنگھ کے سری نگر سے جموں آنے کے بعد مہاراجہ اور اس کی انتظامیہ نے فرقہ وارانہ فسادات بھڑکانے کی منصوبہ بندی کی ، جموں میں ہندو فرقہ پرست جماعت آر ایس ایس کو منعظم اور مضبوط بنانے میں اہم کردار ادا کی گیا ، بلراج مدھوک، کیدار ناتھ ساہنی، وجے ملہوترا اور مدن لال کھرانہ جیسے آر ایس ایس کے اہم رہنما 1940 کی دہائی کے دوران آر ایس ایس کے انچارج کی حیثیت سے جموں میں تعینات رہے۔ گورنر چیت رام چوپڑا اور ڈی آئی جی پولیس بخشی ادھے چند نے بھی گھناونا کردار ادا کیا ، کشمیریوں کی تاریخ کا مطالعہ اس حقیقت پر مہر تصدیق ثبت کرتا ہے کہ تقسیم سے قبل ہی پر مظالم کا سلسلہ شروع ہوچکا تھا ، بادی النظر میں کہا جاسکتا ہے کہ جنت نظیر پر انتہاپسند ہندووں کی نظر کئی دہائیوں سے تھی چنانچہ وہ منعظم حکمت عملی کے تحت کشمیر سے کمشیری مسلمانوں کو بے دخل کرنے کی پالیسی پر کاربند رہے ، یوں آج یہ کہنا کسی طور پر غلط نہ ہوگا کہ اہل کشمیر کے لیے زندگی کبھی بھی آسان نہ تھی ، بظاہر جنت نظیر کی خوبصورتی اس کے بدخواہوں اور دشمنوں کو اس پرآمادہ کرتی ہے کہ وہ انھیں ان کے علاقوں سے دخل کرنے کی قابل مذمت کاوشوں کو جاری وساری رکھیں، یوں نریندر مودی کشمیریوں کے لیے نہ تو پہلی آفت ہیں اور نہ ہی آخری ، افسوس از حد افسوس کہ خود کو دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت کہلانے والے بھارت کی مقبوضہ وادی میں بدترین انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں جاری وساری ہیں ، اقوام متحدہ سمیت اہم مغربی ممالک کسی طور پر بے جے پی کا ہاتھ روکنے پر آمادہ نہیں اس کے برعکس حال ہی میں امریکہ نے بھارت سے 10 سالہ کا دفاعی معاہدہ کرلیا ، ایک نقطہ نظر یہ ہے کہ حماس کے اسرائیل پر حملہ کے بعد سے کراہ ارض پر قانون ، اخلاق یا انسانی حقوق کی خلاف وزریوں کی ہرگز کوئی اہمیت نہیں رہی ، طاقت اور صرف طاقت کا قانون ہی جا بجا رائج دکھائی دیتا ہے ، مثلا اس سے بڑھ کر ظلم وزیادتی کیا ہوگی کہ اسرائیل حماس امن معاہدے کے باوجود بے گناہ فلسطینیوں کا قتل عام جاری ہے ، ہمیں یاد رکھنا ہوگا کہ بھارت بھی مقبوضہ وادی میں کم وبیش وہی اقدمات کرتا چلا آرہا ہے جو اسرائیل مقبوضہ فلسطین میں جاری رکھے ہوئے ہے ، مودی اور نیتن یاہو کے درمیان قربت کی وجہ بھی اس کے سوا کچھ نہیں کہ دونوں ہی نہتے اور بے گناہ مسلمانوں کے قتل عام پر یقین رکھتے ہیں، تحریک آزادی کشمیر کی تاریخ دراصل ہمیں یہ پیغام دیتی ہے کہ گزریماہ وسال کی طرح آج بھی کشمیری اپنے ہی زور بازو پر جدوجہد جاری رکھے ہوئے ہیں۔ اس ضمن میں بھارت کے پاکستان پر الزامات کسی طور حقائق پر مبنی نہیں ، سچ تو یہ ہے کہ اسلام آباد کشمیری حریت پسندوں کی محض سیاسی وسفارتی مدد واعانت کرتا ہے، مقبوضہ کشمیر کی صورت حال پر نگاہ رکھنے والوں کی اکثریت اس بات پر متفق ہے کہ وادی میں جذبہ حریت ماضی کی طرح آج بھی طاقت ور و توانا ہے، نئی دہلی اور اس ہم خیال حلقے اگر یہ سمجھ رہے کہ مقبوضہ کشمیر کی خاموشی ان کی جیت اور تحریک آزادی کی شکست ہے تو بلاشبہ ان کی ناسمجھی ہے ، غزہ اور حماس جنگ کے نتیجے میں ایک پیغام جو اہل کشمیر کیلئے ہے وہ یہ کہ جدوجہد آزادی کی شمع روشن جہد مسلسل سے عبارت ہے، اس پس منظر میں یہ کہنا بھی غلط نہیں کہ مسلح جدوجہد کیلئے علاقائی اور عالمی حالات زیادہ سازگار نہیں چنانچہ کشمیری قیادت کو سیاسی محاذ پر زیادہ سے زیادہ متحرک رہنیکی ضرورت ہے ، سوشل میڈیا کے اس دور میں مقبوضہ کشمیر میں جاری انسانی حقوق کی خلاف وزریوں کو اسی طرح عالمی میڈیا کے سامنے آنا چاہے جس طرح فلسطینیوں کے قتل عام کی خبریں بین الاقوامی پلیٹ فارمز میں نمایان انداز میں سامنے آتی ہیں، یقینا آج نہیں تو کل مقبوضہ کشمیر میں جبر کی تاریک رات کا اختتام اب زیادہ دور نہیں۔ بقول فیض
اب ٹوٹ گریں گی زنجیریں اب زندانوں کی خیر نہیں
جو دریا جھوم کے اٹھے ہیں تنکوں سے نہ ٹالے جائیں گے
کالم
اب ٹوٹ گریں گی زنجیریں
- by web desk
- نومبر 6, 2025
- 0 Comments
- Less than a minute
- 30 Views
- 1 دن ago

