کالم

ملک ماہی داؤسے کوئی روئے تے کوئی ہسے

نصف صدی سے کچھ اوپر پھیلی میری صحافتی زندگی میں میری لکھی ہوئی خبروں پر بڑے بڑے اقدامات بڑے بڑے فیصلے اور تبدیلیاں ہوئی ہیں اور بہت سے معاشرتی مسائل کا منٹوں میں حل ہوتے بھی دیکھا ہے اور یہی وجوہات اور عوامل ایک صحافی کو اعتماد اور اطمینان دیتے ہیں کہ اس کی قلم سے نکلے ہوئے لفظ اور حرف ایوانوں سے لے کر مکانوں تک پڑھے جاتے ہیں ۔اسی طرح کالم نگاری میں مجھے خبر کے مقابلے میں اور بڑے معجزوں کے تجربات ہیں کہ جن میں طاقتور سے طاقتور قوتوں کو بھی اپنے رستے بدلنے پڑے ہیں لیکن اس مرتبہ اپنے گزشتہ کالم فیصلہ تو نوشتہ دیوار ہے پر ہونے والے رد عمل پر جہاں مجھے لا تعداد پیغامات اور حوصلہ افزائی کے انعامات ملے ہیں ان پر رب علیم وبصیر کا شکریہ ادا کر رہا ہوں۔ دو موضوعات پر مبنی کالم میں گرمی کے دورانیے کے طویل ہونے اور بارشوں کے خاموش تماشائی بننے والے الفاظ شاید اس قدر پر اثر تھے کہ گرمی کو خلق خدا کی حالت پر رحم آگیا تھا اور بارشوں کو بھی احساس ہو گیا تھا کہ عام آدمی سخت پریشان ہے اور بات اب خبروں سے نکل کر کالموں تک پہنچ گئی ہے ،ادھر کالم چھپا ادھر اسی رات اور اگلے دن بارشوں اور ژالہ باری نے راولپنڈی سے لے کر جنوبی علاقوں تک سندھ کے کچھ علاقوں میں بھی ایسی اینٹری دی کہ راتوں رات موسم میں سرمائی تبدیلیاں ظاہر ہونے لگی اور یہی نہیں بلکہ ایک عالمی موسمیاتی رپورٹ بھی سامنے آگئی کہ جس میں یہ خوفناک پیشن گوئی بھی کر دی گئی کہ نومبر میں امریکہ سے لیکر پورے یورپ تک اور پاکستان سے لے کر پورے خطے میں شدید بارشیں تیز ہواؤں کو طوفانی شکل دیتے ہوئے موسم سرماکو گزشتہ 50 سالوں کے سرد ترین موسموں کا ریکارڈ توڑتے ہوئے اسے اس عروج پر پہنچا دیں گی کہ لوگ سردی سے پناہ مانگنے پر مجبور ہو جائیں گے، مزید یہ کہ یہ نومبر ہی میں تین زلزلے بھی آئیں گے، کالم کے بعد پہلا زلزلہ تو پاکستان میں آ کر گزر گیا ہے شکر ہے کہ اس میں کوئی جانی یا مالی نقصان نہیں ہوا ،البتہ افغانستان میں زلزلے کی تباہی انسانی جانوں
کیلئے تباہ کن رہی۔ گزشتہ کالم کا دوسرا حصہ قومی اسمبلی کے حلقہ این اے 66 میں ضمنی انتخاب کے متعلق تھا کہ جس میں لکھا گیا تھا کہ وزیرآباد سے قومی اسمبلی کے اس حلقہ سے ماضی میں کامیاب ہونے والے تقریبا ًہر ممبر کو یا تو وفاقی کابینہ میں شامل کیا جاتا رہا یا اسپیکر قومی اسمبلی جیسا اعزاز حاصل ہوتا رہا سوائے چیمہ برادران کے کہ جنہوں نے ایسا کوئی عہدہ قبول نہیں کیا یا پھر کچھ اور وجوہات رہی مسلم لیگ نون کے دور میں ہی ریٹائرڈ جج مسٹر جسٹس افتخار احمد چیمہ تین مرتبہ کامیاب ہوئے وہ بیرسٹر تھے ماتحت عدلیہ سے ترقی کرتے ہائی کورٹ کے جج بنے ۔ریٹائرمنٹ کے بعد اپنے آبائی گاؤں سے قومی سیاست میں حصہ لیا۔ افتخار چیمہ مضبوط کردار اور نظریات کے حامل تھے مسلم لیگ کے قائد میاں نواز شریف سے اس خاندان کے دوستانہ مراسم تھے انتخابی جنگ میں ان کے مد مقابل ہمیشہ سے مضبوط امیدوار سابق سپیکر قومی اسمبلی حامد ناصر چھٹا رہے جن کی سیاسی شہرت اور عزت محض اس حلقہ تک محدود نہیں تھی بلکہ قومی سیاست سے گنے چنے چند سیاست دانوں میں
ان کا شمار ہوتا ہے، کے بعد ان کے بھائی ڈاکٹر نثار احمد چیمہ سابق ڈائریکٹر جنرل ہیلتھ پنجاب اس نشست پر کامیاب ہوئے مگر اس مرتبہ تحریک انصاف کے مرکزی رہنما اور عمران خان کے قریبی ساتھی چوہدری محمد احمد چٹھا اس نشست پر بھاری اکثریت سے کامیاب ہوئے مگر دہشت گردی کی عدالت سے سزا یاب ہونے کے بعد الیکشن کمیشن نے انہیں ڈی سیٹ کر کے نااہل قرار دیا اور اس خالی نشست پر ضمنی انتخابات کا اعلان کر دیا تو مسلم لیگ کے مقامی دھڑوں میںبہت سے امیدوار پارٹی ٹکٹ کے لیے سامنے آئے لیکن پارٹی نے چیمہ چٹھا خاندانوں کی اکثریت اور سیاسی پس منظر کو ایک طرف رکھتے ہوئے ،سابق صدر پاکستان جسٹس رفیق تارڑ کے پوتے اور وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات عطا تاڑ رکے چھوٹے بھائی بیرسٹر بلال فاروق تارڑ کو نامزد کر دیا اور پارٹی نے کچھ اس طرح کی حکمت عملی اختیار کی کہ سب دھڑوں کو یہ فیصلہ قبول بھی کرنا پڑا جبکہ بلال فاروق تاڑر نے جس طرح وزیرآباد کے عوام میں اپنے حسن سلوک سے رسائی بلکہ محبت حاصل کی وہ بھی ایک الگ کہانی ہے تحریک انصاف کے بائیکاٹ کرنے اور تحریک لبیک کے کالعدم ہونے کے بعد مقابلہ آزاد امیدواروں کے ساتھ تھا لیکن وہ بھی کسی نہ کسی طریقے سے آوٹ ہوتے گئے اور پھر نتیجہ تو نوشتہ دیوار تھا ہوا یوں کہ اخری امیدوار کہ دستبردار ہونے کے بعد میدان خالی تھا اور بیلٹ باکس تک نوبت پہنچنے سے پہلے ہی برسٹر بلال فاروق بلا مقابلہ کامیاب ہو گئے میرا گزشتہ کالم شاید معرفت کی منزلوں سے لکھا گیا تھا موسم بھی بدلا اور بلال فاروق کا نتیجہ بھی نوشتہ دیوار ہوا لیکن عجیب اتفاق ہے کہ جس دن بلال فاروق کی کامیابی کا اعلان ہو رہا تھا عین اسی روز اسی نشست پر تین مرتبہ کامیابیاں سمیٹنے والے جسٹس افتخار چیمہ اچانک دل کا دورہ پڑنے سے اپنے خالق حقیقی سے جا ملے ،عجیب سا عالم تھا ایک آنکھ سے آنسو اور دوسری سے خوشی کے آثار تھے دنیا بھی کیا چیز ہے کہ ملک ماہی دا ؤسے کوئی روئے تے کوئی ہسے۔ آخری بات کہ اہلیان علاقہ نے بلال فاروق تارڑ کو انتخابی مہم کے دوران جو محبتیں اور پیار دیا ہے بلا مقابلہ کامیابی کے بعد بلال فاروق کے کندھوں پر دراصل بھاری ذمہ داریاں ڈال دی ہیں دیکھنا یہ ہے کہ وہ حواریوں کے حصار سے نکل کر اپنے علاقے اور عوام کے ساتھ کیسا رویہ اختیار کرتے ہیں ان کی اگلی کامیابی کا انحصار ان کے بعد از کامیابی رویہ پر ہوگا جب تک یہ کالم آپ تک پہنچے گا وہ قومی اسمبلی کے ممبر کی حیثیت سے حلف اٹھا چکے ہوں گے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے