کالم

افغانستان کی ہٹ دھرمی اور پاکستان کا صبر

پاکستان اور افغانستان کے تعلقات کی کہانی جذبات، قربانی اور پیچیدگیوں سے بھری ہے۔ یہ وہ رشتہ ہے جس میں پاکستان نے ہمیشہ بڑے بھائی کا کردار ادا کیا۔ افغان جنگ کے ایام ہوں یا شورش کا کوئی اور دور، پاکستان نے اپنے دروازے بند نہیں کیے۔ پچاس لاکھ سے زائد افغان مہاجرین کو دہائیوں تک پناہ دینا، ان کے بچوں کو تعلیم، روزگار اور تحفظ فراہم کرنا یہ وہ حقیقتیں ہیں جنہیں دنیا تسلیم کرتی ہے۔ مگر افسوس کہ آج انہی قربانیوں کے صلے میں پاکستان کو دہشت گردی، بداعتمادی اور الزام تراشی کا سامنا ہے۔حالیہ ہفتوں میں قطر اور ترکی کی ثالثی میں ہونے والے مذاکرات، جن سے امید تھی کہ دونوں ملک نئے باب کا آغاز کریں گے، کسی نتیجے کے بغیر ختم ہوگئے۔ سب سے بڑا تعطل اس وقت پیدا ہوا جب طالبان قیادت نے یہ تحریری یقین دہانی دینے سے انکار کر دیا کہ افغان سرزمین پاکستان کے خلاف استعمال نہیں ہوگی۔ بدقسمتی سے مذاکرات کے اختتام کے فورا بعد پاکستان میں دو بڑے دہشت گرد حملے ہوئے ، وانہ میں کیڈٹ کالج اور اسلام آباد کی کچہری کو نشانہ بنایا گیا۔ شواہد کے مطابق ان وارداتوں میں وہی عناصر ملوث تھے جنہیں پاکستان طویل عرصے سے اپنی سرحدوں کے لیے خطرہ قرار دیتا آیا ہے۔وزیرِ دفاع خواجہ محمد آصف نے واضح الفاظ میں کہا ہے کہ اگر افغان سرزمین سے دہشت گردی جاری رہی تو پاکستان اپنے دفاع کا حق محفوظ رکھتا ہے۔ انہوں نے یہ بھی باور کرایا کہ حالیہ حملوں کے شواہد ثالثوں کے سامنے رکھے جائیں گے تاکہ قطر اور ترکی جیسی بااعتماد ریاستیں خود دیکھ سکیں کہ پاکستان کے تحفظات بے بنیاد نہیں۔
پاکستان کا مقف مستقل اور واضح رہا ہے ہم امن کے خواہاں ہیں، لیکن امن یکطرفہ صبر سے ممکن نہیں۔ افغانستان کو یہ تسلیم کرنا ہوگا کہ اگر وہ اپنی سرزمین پر کالعدم تنظیموں کی سرگرمیاں روکنے میں ناکام رہا، تو اس کے اثرات پاکستان تک پہنچیں گے۔
افغانستان کی حکومت کے لیے یہ ایک اخلاقی اور قانونی ذمہ داری بھی ہے، کیونکہ اقوامِ متحدہ کے منشور کے مطابق کوئی ملک اپنی سرزمین کسی دوسرے ملک کیخلاف استعمال ہونے کی اجازت نہیں دے سکتا۔یہ وقت ہے کہ افغانستان کی قیادت کو دوراندیشی کا مظاہرہ کرئے اور پاکستان کے دیے گئے ثبوتوں کو سنجیدگی سے لے۔
بھارت کے کردار کو نظرانداز کرنا بھی ممکن نہیں۔ ماضی کے تجربات اور گرفتار بھارتی جاسوس کلبھوشن یادو کے اعترافات یہ ظاہر کرتے ہیں کہ بھارت افغانستان کے راستے پاکستان میں عدم استحکام پھیلانے کی کوششوں میں سرگرم رہا ہے۔ یہ صورتحال پاکستان کے لیے دوہرا چیلنج بن چکی ہے مشرق میں پرانا دشمن اور مغرب میں ایک غیر یقینی ہمسایہ۔ ان دونوں کے گٹھ جوڑ کے نتیجے میں پاکستان کے لیے امن کی راہیں تنگ تر ہوتی جا رہی ہیں۔
یہ امر بھی قابلِ توجہ ہے کہ پاکستان نے نہ صرف مذاکرات میں سنجیدگی دکھائی بلکہ اب بھی ثالثی کے دروازے بند نہیں کیے۔ پاکستان نے نہ کسی پر بلاجواز الزام لگایا اور نہ ہی کسی کی خودمختاری کو چیلنج کیا، بلکہ ہمیشہ دلیل اور شواہد کے ساتھ بات کی۔ لیکن جب تحریری یقین دہانی جیسی بنیادی شرط پر بھی ہٹ دھرمی دکھائی جائے، تو پھر پاکستان کے صبر کو کمزوری نہیں سمجھنا چاہیے۔افغانستان اگر واقعی امن چاہتا ہے تو اسے اپنی سرزمین پر موجود دہشت گرد گروہوں کے خلاف سخت اقدامات کرنا ہوں گے۔ ورنہ پاکستان کے پاس اپنی سلامتی کے لیے دفاعی اقدام اٹھانے کے سوا کوئی چارہ باقی نہیں رہے گا۔تاریخ گواہ ہے کہ پاکستان نے ہمیشہ بھائی چارے اور خیرسگالی کی پالیسی اپنائی۔ مگر اب وقت آ گیا ہے کہ کابل بھی اپنے طرزِ عمل سے یہ ثابت کرے کہ وہ پاکستان کا خیرخواہ ہے۔اگر افغانستان سنجیدگی سے اپنے وعدوں پر قائم نہیں رہتا اور دہشت گردی کا سلسلہ نہیں رک پاتا تو پھر پاکستان کو اپنے دفاع کے لیے فیصلہ کن قدم اٹھانا ہی پڑے گا۔ یہ کسی دشمنی کا نہیں، خودبقا کا معاملہ ہے۔ صبر، حکمت اور احتیاط اپنی جگہ، لیکن قومی سلامتی پر کوئی سمجھوتہ ممکن نہیں۔پاکستان امن کا خواہاں ہے مگر امن یکطرفہ نہیں ہوتا۔ اب گیند کابل کے کورٹ میں ہے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے