کالم

بلوچ یکجہتی کمیٹی کا پروپیگنڈا اور حقائق۔۔!

یہ بات قابلِ توجہ ہے کہ بلوچستان میں شورش، امن، ترقی اور سیاسی بیانیوں کی کشمکش ایک ایسا موضوع ہے جو نہ صرف قومی سلامتی بلکہ پاکستان کے مستقبل کیلئے بھی فیصلہ کن اہمیت رکھتا ہے۔ مبصرین کے مطابق گزشتہ چند برسوں میں ریاست نے جہاں ایک جانب ترقیاتی منصوبوں کو ترجیح دی، وہیں دوسری طرف دہشت گردی، گمراہ کن پراپیگنڈے اور جھوٹے انسانی حقوق کے بیانیوں کو بے نقاب کرنے پر توجہ مرکوز کی۔ اسی تناظر میں سابق بی ایل اے کمانڈر سرفراز بنگلزئی کے حالیہ انکشافات نے بلوچستان کی زمینی حقیقتوں کو ایک نئی روشنی میں پیش کیا ہے۔
سرفراز بنگلزئی کے مطابق ڈاکٹر مہرنگ بلوچ اور بلوچ یکجہتی کمیٹی (BYC) خود کو انسانی حقوق کے علمبردار کے طور پر پیش کرتی ہے، مگر عملی طور پر دہشت گرد تنظیموں کی سرگرمیوں کو چھپانے میں سرگرم ہے۔ یہ امر خصوصی توجہ کا حامل ہے کہ جعفر ایکسپریس ہائی جیکنگ میں ملوث بی ایل اے دہشت گردوں کی لاشیں جب اسپتال لائی گئیں تو BYC کے کارکن ان کی شناخت مٹانے، ثبوت ضائع کرنے اور میڈیا بیانیہ بدلنے کی کوشش میں مصروف تھے۔ یہ طرزِ عمل انسانی حقوق سے زیادہ دہشت گردی کی پشت پناہی کے مترادف ہے۔سفارتی ماہرین کے بقول ڈاکٹر مہرنگ کے والد غفار لانگو کی قبر پر آج بھی بی ایل اے کا پرچم لہرا رہا ہے، جو”سول سوسائٹی ایکٹوازم” اور مسلح شدت پسندی کے درمیان رشتے کی واضح علامت ہے۔ مزید برآں، یہ حقیقت بھی BYC کے بیانیے کو جھٹلا دیتی ہے کہ غفار لانگو ریاستی کارروائی میں نہیں بلکہ بی ایل اے کے اندرونی جھگڑے میں قتل ہوا، جیسا کہ ماما قدیر نے خود تصدیق کی۔اسی طرح سمی دین بلوچ کے حوالے سے سرفراز بنگلزئی کا کہنا ہے کہ وہ ریاست پر الزام تراشی کرتی ہیں جبکہ اس کے والد کا تعلق خود بی ایل اے سے تھا۔ دلچسپ امر یہ ہے کہ اس کا بھائی اللہ نذر گروپ کے ساتھ منسلک ہو کر عمان میں ”مارننگ بلو” کے نام سے فیملی کاروبار چلاتا اور فنڈنگ فراہم کرتا ہے۔ مبصرین کے مطابق یہ وہ پہلو ہیں جنہیں BYC اپنے بیانیے میں جان بوجھ کر نظر انداز کرتا ہے۔یہ بات قابل توجہ ہے کہ BYC مسلسل ہر اُس شخص کو ”لاپتہ” قرار دیتا ہے جو دہشت گرد کیمپوں میں شامل ہو جاتا ہے، مگر جب یہی افراد خودکش حملہ آور یا سرگرم دہشت گرد کے طور پر سامنے آتے ہیں تو بیانیہ خاموش ہو جاتا ہے۔ کریم جان، وادود ست تک زئی اور سہیب لانگو کی مثالیں اس کی واضح مثال ہیں۔ کریم جان کو BYC نے لاپتہ افراد کی فہرست میں شامل کیا، مگر بعد میں وہ بی ایل اے کے مجید بریگیڈ کے رکن کے طور پر مارا گیا، جس کا اعتراف خود اس کے خاندان نے کیا۔اسی تناظر میں سرفراز بنگلزئی یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ جو نوجوان مسلح تنظیم چھوڑنے کی کوشش کرتے ہیں انہیں بی ایل اے اندرونی انتقام میں قتل کر دیتا ہے اور الزام ریاست پر ڈال کر پراپیگنڈہ مہم شروع کر دیتا ہے۔
یہ بات خصوصی اہمیت رکھتی ہے کہ آج بلوچستان میں بیک وقت 57 میں سے 43 بڑے منصوبے تیزی سے جاری ہیں۔ تجزیہ کاروں کے مطابق ان منصوبوں میں سے 80 فیصد روزگار مقامی آبادی کو فراہم کیا جا رہا ہے، جس سے بیروزگاری میں نمایاں کمی اور مقامی سطح پر معاشی استحکام پیدا ہو رہا ہے۔ریاست کی جانب سے ریکوڈک، سیندک اور چمالانگ جیسے منصوبے ہزاروں خاندانوں کے لیے معاشی ریڑھ کی ہڈی بن چکے ہیں۔ اسی طرح کچھی کینال اور میرانی ڈیم لاکھوں ایکڑ پر محیط علاقوں کو زرعی پیداوار کے قابل بنا رہے ہیں جبکہ پینے کے پانی کی قلت بھی کم ہو رہی ہے۔یہ امر قابل ذکر ہے کہ 90 بلین ڈالر کے سینٹرل بزنس ڈسٹرکٹ اور گوادر پورٹ کی توسیع آئندہ دہائی میں 400 ارب روپے تک آمدن فراہم کر سکتی ہے۔ گوادر سیف سٹی منصوبہ شہریوں، سرمایہ کاروں اور مزدوروں کے لیے ایک محفوظ ماحول تشکیل دے رہا ہے۔تعلیمی میدان میں نئی اسکالرشپس، ٹیکنیکل انسٹیٹیوٹس اور ووکیشنل تربیت نوجوانوں کو جدید صنعتوں کے لیے تیار کر رہی ہے، جبکہ صحت کے شعبے میں نئے میڈیکل کمپلیکسز، ٹراما سینٹرز اور اسپتال صوبے کے پسماندہ علاقوں میں امید کا چراغ بن رہے ہیں۔یہ بات قابل توجہ ہے کہ بعض حلقوں میں بلوچستان کے الحاق کے بارے میں غلط بیانیہ پھیلایا جاتا ہے، جبکہ تاریخی حقائق اس کے برعکس ہیں۔ برطانوی دور میں بلوچستان کو صوبائی حیثیت، قانون ساز اسمبلی اور جمہوری حقوق حاصل نہیں تھے۔ آل انڈیا مسلم لیگ کے نظریہ ساز علامہ اقبال نے بلوچستان کو مستقبل کی مسلم ریاست کا فطری حصہ قرار دیا، جبکہ قائداعظم محمد علی جناح نے 1935 کے گورنمنٹ آف انڈیا ایکٹ میں بلوچستان کے حقوق کے لیے بھرپور آواز اٹھائی۔اسی تناظر میں قائداعظم کی ہدایت پر قاضی محمد عیسیٰ نے 1939 میں بلوچستان مسلم لیگ قائم کی، جو سیاسی بیداری کی بنیاد بنی۔ 14 اگست 1947 سے قبل شاہی جرگہ اور کوئٹہ میونسپل کمیٹی نے پاکستان کے حق میں ووٹ دیا۔ اسی طرح مکران، خاران اور لسبیلہ کی ریاستوں نے بھی رضاکارانہ طور پر پاکستان میں شمولیت اختیار کی۔بعدازاں خانِ قلات نے بھی باقاعدہ طور پر ”انسٹرومنٹ آف ایکسیشن” پر دستخط کیے، جس کے ساتھ ہی بلوچستان آئینی طور پر پاکستان کا حصہ بن گیا۔ 1958 میں وزیر اعظم فیروز خان نون اور بیگم وقارالنسا نون کی کوششوں سے گوادر بھی پُرامن طریقے سے پاکستان میں شامل ہوا۔یہ امر خصوصی توجہ کا حامل ہے کہ بلوچستان کی اصل تصویر وہ نہیں جو سوشل میڈیا یا بیرونی ایجنڈوں پر مبنی بیانیوں میں دکھائی جاتی ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ ریاست نے صوبے کی ترقی، امن اور باوقار مستقبل کے لیے بے مثال اقدامات کیے ہیں، جبکہ دہشت گرد گروہ اور اُن کے ہم نوا اپنی بقا کے لیے نوجوانوں کو استعمال کر رہے ہیں۔ مبصرین کے مطابق وقت آ چکا ہے کہ بلوچستان کے عوام جھوٹے بیانیوں کے بجائے حقیقی ترقی، معاشی مواقع اور امن کی جانب قدم بڑھائیں — کیونکہ بلوچستان کا مستقبل امن، ترقی اور قومی یکجہتی سے جڑا ہے۔وقت آگیا ہے کہ بلوچستان کے تخریبی ٹولہ اپنی منفی روش کرکے ریاست ،ملک اور قوم کے ساتھ ملکر تعمیری روش اپنائے ۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے