کالم

بھارت میں کرسمس پر پابندیاں

بھارت میں کرسمس کے موقع پر ہندو انتہا پسند آپے سے باہر ہوگئے۔ مسیحی برادری کو ہندو انتہا پسندوں کے تشدد اور ہراسانی کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ بھارتی علاقے رائے پور میں کرسمس کی تقریب کی سجاوٹ کو تہس نہس کرنے کی ویڈیو سامنے آگئی ہے۔ انتہا پسندوں نے شاپنگ مال میں سجی کرسمس کی سجاوٹ کو بھی نہیں چھوڑا۔ اسی طرح آسام میں بجرنگ دل کے انتہا پسندوں نے کرسمس کی سجاوٹ کو آگ لگادی جبکہ اتر پردیش میں گرجا گھر کے باہر نعرے بازی کی۔ مدھیہ پردیش میں گرجا گھر میں گھس کر توڑ پھوڑ کی گئی اور انتہا پسند نعرے لگائے گئے۔
بھارتی دارالحکومت نئی دہلی میں بجرنگ دل کے کارندوں نے سانتا کلاز کی ٹوپیاں پہننے والی خواتین اور بچوں کو سرعام ہراساں کیا اور انہیں غیر ہندو ثقافت قرار دے کر گھروں تک محدود رہنے کی دھمکی دی۔ کیرالہ میں 21 دسمبر کو کرسمس گیت گانے والے بچوں کے ایک گروپ پر حملہ کیا گیا تھا اور ان کے ساز و سامان توڑ دیے گئے تھے۔اتر پردیش حکومت نے اسکولوں میں کرسمس کی چھٹی ختم کر دی جس پر مسیحی برادری نے تشویش کا اظہار کیا ہے۔
ایک سیکولر ملک کے شہر میں کرسمس اور نیو ایئر پارٹیز کے انعقاد پر پابندی عائد کر دی گئی ہے۔ دنیا بھر میں نیو ایئر کا جشن منانے کی تیاریاں زور وشور سے جاری ہیں۔ تاہم بھارت کے ایک علاقے میں ایسے جشن پر پابندی عائد کر دی گئی ہے۔ ریاست اترپردیش کے ایک شہر نوئیڈا میں کرسمس اور نئے سال کی پارٹی منعقد کرنے پر پابندی عائد کر دی گئی ہے اور ان تقریبات کے لیے انتظامیہ سے پیشگی اجازت لینے کی شرط عائد کی ہے۔ ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ میدھا روپم کا کہنا ہے کہ بلا اجازت ان پارٹیوں کے انعقاد پر پابندی کسی غیر متوقع حادثے (آتشزدگی، بھگدڑ، بد انتظامی) جیسے واقعات سے بچنے کے لیے عائد کی گئی ہے۔
ضلع انتظامیہ کی جانب سے جاری نوٹیفکیشن میں کہا گیا ہے کہ کرسمس اور نئے سال کے دوران ہونے والے ہر پروگرام کے لیے پہلے سے اجازت لینا لازمی ہوگا، ورنہ منتظمین کے خلاف سخت کارروائی کی جائے گی۔ضلع مجسٹریٹ کی جانب سے جاری گائیڈ لائن کے مطابق ہوٹل، پب، ریسٹورنٹ، کلب، پارک، میرج لان، فارم ہاؤس اور دیگر عوامی مقامات پر منعقد ہونے والے تمام تفریحی پروگرام انتظامیہ کی اجازت کے بغیر منعقد نہیں کیے جا سکیں گے ۔بھارت میں رواں سال کرسمس کے تہوار کے موقع پر ہندو انتہاپسند گروہوں کی جانب سے عیسائی برادری کے خلاف تشدد، ہراسانی اور دھمکیوں کے متعدد واقعات سامنے آئے ہیں جنہوں نے ملک کی مذہبی ہم آہنگی اور رواداری کو سنگین چیلنج سے دوچار کر دیا ہے۔ انسانی حقوق کی تنظیموں کے مطابق یہ حملے انفرادی نہیں بلکہ منظم نوعیت کے ہیں جن کے باعث ملک بھر میں عیسائی برادری میں خوف، عدم تحفظ اور بے چینی کی فضا پھیل گئی ہے۔
ممبئی میں آرچ ڈائیوسیز آف بامبے کے معاون بشپ ڈومینک ساویو فرنینڈیز نے کرسمس کی تقریبات کے دوران پیش آنے والے ان واقعات پر گہری تشویش کا اظہارکرتے ہوئے کہا کہ عیسائی برادری سے اپیل کی کہ وہ خوفزدہ نہ ہوں اور نفرت یا غصے کو اپنے دلوں میں جگہ نہ دیں۔ یہ کارروائیاں چند انتہاپسند عناصر کی ہیں اور یہ بھارتی معاشرے کی اصل روح یا مجموعی سوچ کی نمائندگی نہیں کرتیں۔یونائیٹڈ کرسچن فورم، اوپن ڈورز اور کیتھولک بشپس کانفرنس آف انڈیا (سی بی سی آئی) سمیت متعدد تنظیموں نے ان واقعات کی سخت الفاظ میں مذمت کی ہے۔ کیتھولک بشپس کانفرنس آف انڈیا نے 23 دسمبر کو جاری کیے گئے ایک باضابطہ بیان میں مرکزی وزیر داخلہ امیت شاہ سے مطالبہ کیا تھا کہ عیسائی برادری کی جان و مال کے تحفظ کے لیے فوری اور مؤثر اقدامات کیے جائیں تاکہ کرسمس کا تہوار امن اور سکون کے ساتھ منایا جا سکے۔ان حملوں کے پس منظر میں اکثر جبری مذہبی تبدیلی کے بے بنیاد الزامات سامنے آتے ہیں جن کے تحت اینٹی کنورژن قوانین کا مبینہ طور پر غلط استعمال کیا جاتا ہے۔
وشوا ہندو پریشد اور دیگر انتہاپسند تنظیموں کی جانب سے عوام کو کرسمس کی تقریبات میں شرکت سے روکنے اور دکانوں کو کرسمس کی سجاوٹ نہ کرنے کی ہدایات بھی جاری کی گئیں۔ ان واقعات کے دوران پیش آنے والے چند نمایاں اور تشویشناک واقعات درج ذیل ہیںچھتیس گڑھ کے ضلع کنکر میں 17 دسمبر کو انتہاپسندوں نے دو گرجا گھروں کو آگ لگا دی اور متعدد عیسائی گھروں کو نقصان پہنچایا۔
یہ واقعہ ایک عیسائی شہری کی تدفین کے معاملے پر پیدا ہونے والے تنازعے کے بعد پیش آیا۔مدھیہ پردیش کے شہر جبل پور میں 20 اور 22 دسمبر کو دعائیہ اجتماعات پر حملے کیے گئے جہاں ایک مقامی بی جے پی رہنما پر ایک معذور عیسائی خاتون کو ہراساں کرنے کا الزام بھی سامنے آیا۔کیرالہ میں 21 دسمبر کو آر ایس ایس سے وابستہ ایک کارکن نے کم عمر بچوں پر مشتمل کرسمس کیرول گانے والے گروپ پر حملہ کیا۔دارالحکومت دہلی میں سانتا کلاز کی ٹوپیاں پہنے عیسائی خواتین کو بجرنگ دل کے ارکان نے ہراساں کیا اور ان پر جبری مذہب تبدیلی کے الزامات عائد کیے۔
رائے پور کے ایک شاپنگ مال میں کرسمس کی سجاوٹ اور سانتا کلاز کے مجسموں کو نقصان پہنچایا گیا۔اوڈیشہ میں سڑک کنارے کرسمس کی اشیائ فروخت کرنے والے دکانداروں کو زبردستی روک دیا گیا اور ہندو راشٹر کے نعرے لگائے گئے۔بھارت کی مجموعی آبادی میں عیسائیوں کا تناسب محض 2.3 فیصد ہے تاہم ہندوتوا نظریے کے فروغ کے بعد ان کے خلاف حملوں میں نمایاں اضافہ دیکھا جا رہا ہے۔ انسانی حقوق کے اداروں نے ان واقعات کو منظم تشدد قرار دیتے ہوئے حکومت کی جانب سے مؤثر کارروائی نہ ہونے پر شدید تنقید کی ہے۔ عیسائی رہنماؤں کا کہنا ہے کہ کرسمس جیسے خوشی کے تہوار اب خوف اور عدم تحفظ کے سائے میں منائے جا رہے ہیں۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے