اس ملک میں نہ قانون وقت اور حالات کے مطابق بنتے ہیں اور نہ ہی مکان مقامی موسموں کے مطابق بنتے ہیں۔ یہ سب کاپی پیسٹ ہیں۔ پنجاب اسمبلی سے حال ہی میں نیا قانون پاس کرایا ہے۔ جس پر لاہور ہائیکورٹ نے پراپرٹی آنر شپ آرڈیننس کے تحت دیے گیے فیصلوں کو روک کر لارجر بنچ تشکیل دے دیا ہے۔ کہا پنجاب حکومت کا بس چلے تو آئین کو بھی معطل کردے، چیف جسٹس لاہور ہائیکورٹ مس عالیہ نیلم نے اس پر سخت غصہ کا اظہار کرتے ہوئے چیف سیکرٹری سے کہا حکومت کو بتائیے کہ یہ قانون اگر رہ گیا تو جاتی امرا بھی آدھے گھنٹے میں نکل جائے گا۔ چیف جسٹس نے چیف منسٹر کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ آپ نے سول سیٹ اپ، سول رائٹس اور عدالتی سپرمیسی کو ختم کردیا ہے ۔ گزارش ہے قبضہ مافیا پر جو قانون عدالتوں میں چل رہا ہے اس پر عمل ہو رہا ہوتا تو پھر یہ پنجاب حکومت نیا قانون لاتی تو ہم سب چیف جسٹس صاحبہ کے ساتھ ہوتے مگر قانون جو ہے وہ سویا ہوا ہے اس کو جگاتے جگاتے مظلوم تھک چکا ہے اسے اس قانون کا کوئی فائدہ نہیں۔عدالتیں تاریخ پہ تاریخ دیتی رہتی ہیں۔ انصاف ملتا نہیں۔اسی لییکہا جاتا ہے انصاف میں تاخیر انصاف سے انکاری ہے ۔ عدلیہ جس ایکٹ پر ناراض ہے پنجاب اسمبلی کے ممبران کا کہنا ہے یہ کوئی عجلت میں لایا گیا آرڈیننس/ایکٹ نہیں ہے بلکہ یہ پنجاب پروٹیکشن آف اونرشپ آف اموویبل پراپرٹی ایکٹ 2025 ہے .یہ قانون سنجیدہ مشاورت اور آئینی تقاضوں کے تحت عوام کی زندگیوں میں آسانی اور سہولت جلد انصاف کیلئے بنایا گیا ہے۔محترمہ چیف جسٹس صاحبہ آپ کا اس پر غصہ جائز ہوتا جب اپ کی عدالتیں ججز عام ادمی کو ان قبضہ مافیا سے نجات دلا رہے ہوتے پھر تو اس قانون کو لانے کا کوئی جواز نہ تھا۔ مگر جن حالات میں یہ ایکٹ لایا گیا ہے۔ کیا اس کی ضرورت نہیں تھی ۔ آپ نے نہ صرف آڈینس/ ایکٹ کو کام کرنے سے روک دیا ہے بلکہ جن مظلوموں کو قبضہ مل چکا تھا وہ بھی کنسل کر کے واپس قبضہ مافیا کو دینے کا حکم آپ نے صادر کر دیا ہے۔زبانی تبصرے میں کھری کھری سنا بھی دیں۔ بہتر تھا اس پر بے جا تبصرہ نہ کرتی۔حکم صادر کرتیں ۔ میڈیا پر اب جنگ جاری ہے پہلا وار تم کر لو دوسرا ہمارا ہے۔ یعنی اب سپریم کورٹ یا ایف سی سی کورٹ جائیں گی۔ دنیا ساری میں قانون موجودہ صورتحال کے مطابق اسمبلیاں بناتی ہیں۔ اس قانون بنانے کی پنجاب حکومت کو ضرورت کیوں پیش ائی۔ اس لیے کہ قبضہ مافیا کے خلاف عام شہریوں کو فوری اور سستا شفاف انصاف نہیں مل رہا تھا۔ جس کی وجہ سے لوگ اب عدالتوں کے بجائے اپنے فیصلے خود کرنے لگے تھے ۔دو روز قبل راولپنڈی میں باپ بیٹا کیس کر کیکچہری سے گھر جا رہے تھے کہ ان کے مخالفین نے سرعام باپ بیٹے کو قتل کر دیا۔ کیا یہ عمل ظاہر نہیں کرتا کہ لوگ اس عدالتی نظام سے مایوسی ہو کر وہ اپنے فیصلے بازاروں گلیوں میں خود کرنے لگے ہیں۔ اس لیے کہ لوگوں کو انصاف نہیں مل رہا ۔قبضہ کیسوں کے فیصلے جلد نہیں ہوتے۔یہ سب جانتے ہیں کہ قبضہ بذاتِ خود کوئی حق پیدا نہیں کرتا۔چاہے قبضہ ایک سال کا ہو یا 30 سالوں کا پھر بھی وہ غیر قانونی قبضہ ہی کہلاتا ہے ۔ سب جانتے ہیں کہ قبضہ کرنا ایک جرم ہے حق نہیں لیکن ہمارے اس عدالتی نظام کی وجہ سے قبضہ مافیا زندہ ہے۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ کمزور ریکارڈ پٹواری سسٹم کی خرابی سیاسی اثر و رسوخ پولیس کی کمزور عملداری ان وجوہات سے قبضہ ممکن ہو جاتا ہے، لیکن عدالت کبھی قبضہ کرنے والے کو مالک تسلیم نہیں کرتی۔ مگر یہ بھی سچ ہے کہ اصل مالک کو موجودہ عدالتی سسٹم انہیں قبضہ فوری دلانے میں بری طرح ناکام ہے عدلیہ فیصلے فوری نہیں کرتی۔ عدالتیں تاریج پہ تاریخ دیتی رہتی ہیں۔جس سے کیس لٹک جاتے ہیں مافیا جیت جاتی ہے۔ اگر عدالتیں اپنا کام کر رہی ہوتی تو اس آڈینس،ایکٹ لانے کی حکومتِ پنجاب کو ضرورت نہ تھی۔یہی وجہ ہے پنجاب کی چیف منسٹر صاحبہ نے قبضہ مافیا کے خلاف قانونی سازی کرنا ضروری سمجھا۔ یہ قصور جوڈیشری کا ہے جو اصل مالکان اس عدالتی نظام کی خرابی کی وجہ سے قبضہ مافیا سے نجات نہیں پا رہے تھے ہمارے اس عدالتی نطام پر دنیا انگلیاں اٹھا چکی ہے۔ جو قانون نافز ہیں یہ قانون ہمارے نہیں گوروں کے بنائے ہوئے ہیں۔جبکہ قانون حالات و واقعات کے مطابق بنائے جاتے ہیں۔ ایسا کرنا وقت کی ضرورت تھی تانکہ عوام کو قبضہ مافیا سے نجات ملتی ۔ چیف جسٹس صاحبہ راقم بھی ایک قانون کا طالب علم ہے ۔ سوچنے کی ضرورت ہے کہ جب قانون موجود تھا تو پھر نیا قانون لانے کی ضرورت کیوں کر ہوئی۔ لیکن موجودہ حالات میں پنجاب حکومت کو چاہیئے تھا ایکٹ کے ساتھ ہی ٹریبونل فوری بنا دیتی اور ڈی سی پٹواری کے غلط کام کرنے پر سزائیں اور جرمانے بھی بتاتے۔ اس سے بہت سے خدشات دور یوجاتے۔ تبصرہ کرنے پہلے لاجر بنچ کے فیصلے کا انتظار کر لیا جاتا تو بہتر ہوتا ابھی کیس سنا نہیں اور آڈر لکھ دیا کہ جو قبضہ دلوا چکے ہیں وہ واپس کریں۔ لاجر بنچ جو فیصلہ کرتا اس کے مطابق ایکشن لیا جاتا تو اچھا تھا۔ ایک ڈی سی صاحبہ بتا رہی تھیں کہ پچاس کیسوں میں چالیس کیسوں کا فیصلے ہم نے دونوں فریقوں کی رضامندی سے کر دئے تھے۔ ان کیسوں میں رینٹ جہیز کے کیس بھی شامل ہیں ہمیں یہ کیس تین ماہ میں مکمل کر رپورٹ دینا ہوتی ہے اس لیے عوام خوش ہیں کہ جلدی فیصلے یو رہے ہیں۔ ہم کاغزات کی جانچ پڑتال کے بعد نتیجے میں پہنچ جاتے ہیں کہ کون حقدار ہے لہذا فوری فیصلہ کر دیتے ہیں۔ لیکن اب یہ کام رک دیا گیا ہے۔یعنی نہ خود کام کرنا ہے اور نہ دوسروں کو کرنے دینا ہے۔ جوڈیشری جو گل کھلا رہی ہے وہ سب کے سامنے ہے ججز کا اپنے بچوں کیلئے قانون الگ کام تیز رفتاری بسے اوربدوسروں کے بچوں کے لیے قانون الگ۔ حال ہی میں میڈیکل کالجوں میں ہونے والے پی ایم ڈی سی کے بنائے گئے سسٹم پر والدین اساتزہ اور بچوں نے لاہور کی سڑکوں پر جلوس نکالے۔ اور ہائی کورٹ میں ان بچوں نے رٹ دائر کیں مگر کوئی ریلیف انہیں نہیں ملا۔ ججز کے بچوں کے کیس دو جانوں کے کچل جانے کے بعد بھی ہفتے میں ختم ہو جاتے ہیں کہ یہ دیت کا کیس تھا۔ لہٰذا وارثان نے معاف کر دیا کیس ختم۔ لیکن وہ سزا وہ جرم کہاں گیا۔ جس میں گاڑی چلانے والا نا بالخ تھا۔اس کے پاس ڈرائیونگ لائسنس نہیں تھا۔ گاڑی کی نمبر پلیٹ جعلی تھی۔ گاڑی کے کاغذات نہیں تھے۔کیا یہ جرم نہیں۔ کیا ان جرائم پر سزائیں واجب نہیں ۔کیا قانون اس لیے خاموش ہے کہ مجرم جج کا بیٹا ہے۔جب کہ عام والدین کے بچوں کومیڈیکل ٹیسٹ میں اس لیے نہیں بیٹھنے دیا جاتا کہ سسٹم بتاتا ہے کہ ان بچوں نے وقت پر چالان جمع نہیں کرایا تھا جبکہ آن لائن چالان یہ بچے جمع کرا چکے تھے لیکن ان کے سسٹم کی خرابی کی سزا بچوں کو دی گئی۔ سال بچوں کا برباد کر دیا ۔ سوال یہاں یہ ہے کہ ججز ان بچوں کو اپنا بچہ کیوں نہیں سمجھتے ۔ یہ کہانی ہائی کورٹ کی تھی۔ اب سپریم کورٹ کی بھی سن لیں۔سپریم کورٹ میں قبضہ مافیا کے خلاف کیس سنا جاتا ہے۔ فیصلہ اصل مالک کے حق میں ہو جاتا ہے۔ اصل مالک قبضہ لینے جاتا ہے تو قبضہ والے کہتے ہیں جناب یہ فیصلہ تو اپ کی ملکیت کو شو کرتا ہے مگر انہوں نے قبضہ دینے کا تو نہیں لکھا لہٰذا اپ ان سے قبضے کا بھی لکھوا کر لائیں ۔ یہ سن کر اصل مالک پریشان ہوجاتا ہے۔ کیا اب قبضہ کیلیے مزید بیس سال انتظار کروں گا۔ ایسے میں پٹواری مشورہ دیتا ہے ک قبضہ گروپ کو اس میں سے پانچ کنال زمین دے کر باقی زمین کا قبضہ لے لو۔ اس مشورے پر عمل کرتا ہے اور اسے باقی زمین کا قبضہ مل جاتا ہے کیا انصاف اسے عدالتوں نے دیا۔ یہ سچ ہے پاکستان کے عدالتی نظام کو اس وقت سنگین مسائل کا سامنا ہے۔مگر ساتھ ہی اصلاحات کی گنجائش بھی موجود ہے۔ حالات واقعات کے مطابق نئے قانون بنانے کی اشد ضرورت ہے۔ کاپی پیسٹ والے قانون سے کام نہیں چلے گا۔

