س سے زیادہ مکار حکمران اور عیار اپوزیشن پاکستان نے نہیں دیکھی۔ریاست اپنے بنیادی فرائض سے کوسوں دور اپنے شہریوں کو بے معنی اور لایعنی مسائل ، معاملات اور تماشوں میں الجھائے رکھتی ہے ۔ اب یہی دیکھ لیں، شائد انسانی تاریخ میں پہلی بار کسی ملک میں آرمی چیف کا تقرر ہونے والا ہے ۔حکومت ، اپوزیشن نے مل کر قوم کو بے وقوف بنا رکھاہے۔البتہ آرمی چیف کی تقرری کے درکار قابلیت اور معیار پر کوئی بحث یا اعتراض نہیں ہو سکتا ،اور یہ ایک خوش آئند بات ہے۔آرمی چیف بننے کے لیے اہلیت کا پہلا معیار لیفٹینٹ جنرل ہونا ہے۔یہ بنیادی شرط ہے اور باقی متصل شرائط اس کے بعد آتی ہیں ۔اس معاملے کی سب سے زیادہ اطمینان بخش بات یہ ہے کہ ؛اگرچہ آئین کی رو سے آرمی چیف کی تقرری کا اختیار کلی طور پر وزیراعظم کو حاصل ہے لیکن وزیراعظم کو یہ اختیار حاصل نہیں کہ وہ کسی میجر جنرل ،کسی برگیڈیئر یاکسی کرنل کو آرمی چیف بنا سکیں۔وزیر اعظم کا اختیار سینیئر ترین لیفٹیننٹ جنرلز تک محدود ہے۔لیکن میں یہاں آرمی چیف کی تقرری میں الجھائی گئی معصوم قوم کو متوجہ کرنا چاہتا ہوں کہ ؛ اس ملک میں آرمی چیف کی قابلیت اور معیار کے برعکس اعلی ترین تعلیمی اداروں یعنی یونیورسٹیوں کے وائس چانسلرز کی تقرری کے لیے کوئی بڑا اور واضح معیار مقرر نہیں کیا گیا۔اگر آرمی کی اصطلاحات میں بات کی جائے تو پاکستانی یونیورسٹیوں میں کوئی میجر ،کوئی کرنل یا کوئی برگیڈیئر بھی آرمی چیف یعنی وائس چانسلر بن سکتا ہے۔ میں اپنی بات کی وضاحت کےلئے تین وفاقی یونیورسٹیوں کے وائس چانسلرز کی تقرری کے لیے شائع شدہ اشتہار کی طرف متوجہ کرنا چاہوں گا ۔یہ اشتہار وفاقی وزارتِ تعلیم اور پروفیشنل ٹریننگ کی قائم کردہ سرچ کمیٹی کی طرف سے شائع کیا گیاہے ۔اس متنازع اور مجہول قسم کے اشتہار میں فاضل سرچ کمیٹی نے وفاق کی تین ایک دوسرے سے بالکل مختلف یونیورسٹیوں کے لیے وائس چانسلرز اور ریکٹر کی تقرری کے لیے بالکل یکساں معیار کی شرائط پر اہلیت اور تجربے کے امیدواروں سے درخواستیں طلب کی ہیں۔ نہ تو وفاقی وزارت تعلیم ، اور نہ ہی پاکستان میں اعلی تعلیم کا بیڑہ غرق کرنے والے ادارے ہائر ایجوکیشن کمیشن کو اس بات کا ادراک ہے کہ قائد اعظم یونیورسٹی اسلام آباد ، علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی اسلام آباد اور بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی میں کیا بنیادی فرق ہے۔ وفاقی وزارت تعلیم یا ہائر ایجو کیشن کمیشن فاصلاتی نظام تعلیم کے جملہ تقاضوں اور شرائط کو سمجھنے سے قاصر ہیں ۔یہاں تک کہ ہائر ایجوکیشن کمیشن کے پاس فاصلاتی نظام تعلیم کی یونیورسٹیوں کے لیے کوئی علیحدہ سے معیار بندی کا تصور بھی موجود نہیں ، یہی وجہ ہے کہ انہیں قائد اعظم یونیورسٹی اور علامہ اقبال کے اسم گرامی سے منسوب فاصلاتی نظام تعلیم کی یونیورسٹی میں کوئی فرق نظر نہیں آتا۔حالانکہ فاصلاتی نظام تعلیم کی یونیورسٹی کے لیے ایک بالکل علیحدہ سرچ کمیٹی ہونی چاہیئے،جو فاصلاتی نظام تعلیم کے حقیقی ماہرین پر مشتمل ہو۔ اس طرح کے ڈراموں کا پھر وہی نتیجہ نکلتا ہے جو پہلے نکلتا رہا ہے ۔ گزشتہ تعیناتیوں کے اسلوب کو دیکھتے ہوئے اندازہ قائم کیا جا سکتا ہے کہ یہ سرچ کمیٹی کیسے کام کرتی ہے ۔دراصل یہ اہم ترین تعلیمی اداروں کے ساتھ کھیلنے اور بری طرح سے کھیلنے کی افسوسناک مثال ہے۔ اب پھر یہ تماشا لگ چکا ہے۔میں عام پاکستانیوں کو بتانا چاہتا ہوں کہ ہماری یونیورسٹیوں میں وائس چانسلر بننے کےلئے امیدوار کا پروفیسر ہوناقطعاًضروری نہیں ۔ اشتہار میں دیئے گئے معیار کے مطابق وائس چانسلر/ ریکٹر بننے کے امیدوار کےلئے اہلیت کی صرف چار شرائط ہیں۔(اے)عمر 65سال سے زیادہ نہ ہو۔(بی) امیدوار نے ایچ ی سی یا یونیسکو کی منظورِ شدہ یونیورسٹی سے پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کر رکھی ہو۔(سی) امیدوار سینئر اکیڈمک ،ریسرچ،اور انتظامی پوزیشن کا تجربہ رکھتا ہو ۔ اور(ڈی)امیدوار ریسرچ اور پبلیکیشن کا ریکارڈ رکھتا ہو ۔ بس یہی چار شرائط ہیں۔سادہ لفظوں میں یوں سمجھئے کہ امیدوار نے پی ایچ ڈی کر رکھی ہو۔جہاں تک سینئر اکیڈمک ،ریسرچ اور انتظامی تجربے کا معاملہ ہے اور اس کے ساتھ پبلی کیشن والی شرط بھی شامل کرلیں ،تو اس کے لیے اتنی تفصیل میں آئیں بائیں شائیں کرنے کی بجائے صرف اتنا لکھنا کافی تھا کہ امیدوار کسی بھی پبلک سیکٹر یونیورسٹی میں پروفیسر ہو یا رہ چکا ہو لیکن میں پاکستانیوں کو متوجہ کرنا چاہتا ہوں کہ ہمارے یہاں یونیورسٹی کا وائس چانسلر بننے کے لیے امیدوار کا پروفیسر ہونا بالکل بھی ضروری نہیں ہے۔ لطف کی بات یہ ہے کہ بڑی بڑی یونیورسٹیوں میں ایسے نابغے وائس چانسلر رہ بھی چکے ہیں ،جو کبھی کسی یونیورسٹی میں پروفیسر منتخب نہیں ہو سکے تھے ۔ظاہر ہے کہ جب کوئی امیدوار پروفیسر منتخب ہوتا ہے تو اس سے مراد یہ ہے کہ اس کی اہلیت ، قابلیت ، ریسرچ اور پبلیکشنز کی مقدار اور معیار کو بین الاقوامی ماہرین کی طرف سے سند قبولیت عطا کی جا چکی ہے ۔ پروفیسر کی شرط عائد کرنے کے بعد طرح طرح کے کاغذی تجربات از قسم سینیئر اکیڈمک ، ریسرچ اور انتظامی پوزیشن وغیرہ کی الگ سے ضرورت نہیں رہتی۔یاد رکھنا چاہیئے کہ کسی بھی یونیورسٹی کے پروفیسر ہی ڈین بھی بنتے ہیں یا یونیورسٹی کے دیگر کلیدی مناصب پر فائز ہوتے ہیں لیکن پروفیسر کی شرط عائد کرنے کے عوض زبانی کلامی اور کاغذی اہلیت و قابلیت کے تذکرے کر کے عامتہ الناس کو احمق بنانے کی کوشش کی گئی ہے۔اس اشتہار میں قابلیت اور تجربے کی ذیل میں جو کہانی لکھی گئی ہے اس کے مطابق وائس چانسلر بننے کے امیدوار کو اس کی تعلیمی اور لیڈرشپ کی خوبیوںسے جانچا جائے گا۔اسکے علاہ بامعنی ریسرچ ، منصوبہ بندی کی صلاحیت،انتظامی قابلیت اور اعلی تعلیم سے متعلق جملہ معاملات مسائل کو حل کرنے نیز تعلیم کو عام کرنے کی اہلیت رکھتاہو ۔پھر چاہے وہ کبھی کسی یونیورسٹی میں پروفیسر کے طور پر منتخب نہ ہو سکا ہو۔اسی طرح کی بے معنی لفظی بازی گری کی بنیاد پر سرچ کمیٹی اپنی مرضی و منشا کے نفوس قدسیہ کے اسمائے گرامی کے پینل بنا دیتی ہے۔ایک پینل میں تین نام ہوتے ہیں ۔ان میں سے چانسلر یعنی صدر پاکستان کسی ایک کو وائس چانسلر تعینات کر دیتا ہے۔ ماضی کا ایک قصہ ہے ،یہاں اسلام آباد کی ایک منفرد وفاقی یونیورسٹی میں اس وقت کے وزیراعظم کے مشیر نے اپنے برادر خورد کوبندوبست کرکے پینل میں تیسرے نمبر پر شامل کروا لیا تھا ،وہ اس پینل کی فائل تھرو پراپر چینل بھیجنے کی بجائے خود اپنے ہاتھ میں لے کر اس وقت کے معمر صدر پاکستان کے پاس لے گئے تھے اور اپنے برادر خورد کے نام کو ریکمنڈ کروا کر لے آئے تھے۔انکے برادر خورد کبھی کسی یونیورسٹی میں پروفیسر نہیں رہے تھے۔وہ وائس چانسلر تو بن گئے مگر انہیں دو سال تک یقین ہی نہیں آیا کہ وہ وائس چانسلر بن چکے ہیں ۔اس طرح کے تماشوں سے بچنے کے لیے بارہ بارہ سال یا ایک کے بعد دوسری یونیورسٹی میں وائس چانسلر بنانے کا کھیل ختم کر دینا چاہئے۔سب سے بنیادی بات یہ ہے کہ وائس چانسلرز کی تقرری کے عمل سے ہائر ایجوکیشن کمیشن کو مکمل طور پر الگ کر دیا جائے ۔وجہ یہ ہے کہ خود ہائر ایجوکیشن کمیشن میں جس قابلیت اور جیسی اہلیت کے لوگ بیٹھے ہیں ،انہیں بلاخوف تردید پرائیویٹ سیکٹر کی جامعات کے نمائیندے قرار دیا جاسکتا ہے۔وہ سوائے بجٹ برابر کرنے کے ،دوسرا کوئی کام نہیں کر سکتے۔اللہ کا شکر ہے آرمی چیف کی تقرری ہائر ایجوکیشن کمیشن کی ذمہ داریوں میں شامل نہیں ،ورنہ ممکن ہے کہ اس وقت کوئی صوبیدار میجر یا کرنل آرمی چیف مقرر کر دیا جاتا۔
کالم
آرمی چیف اور وائس چانسلرز: قابلیت اور معیار کا موازنہ
- by Daily Pakistan
- نومبر 23, 2022
- 0 Comments
- Less than a minute
- 1871 Views
- 2 سال ago