کالم

آزادی اورمقاصد

لاہور سے 249 کلومیٹر کے فاصلے پر رسولی گاﺅں ہے۔یہ گاﺅں بھارت کے ضلع پٹیالہ کی تحصیل پتران میں واقع ہے۔گاوں رسولی پٹیالہ سے 72کلومیٹر جبکہ پتران سے 15 کلومیٹر کے فاصلے پر ہے۔ اس گاں کی 584 ایکٹر زمین ہے۔ گاں رسولی کی کل آبادی 1276 نفوس پر مشتمل ہے ، اس میں 690 مرد اور 586خواتین ہیں۔گاں رسولی کے قریب ترین ریلوے اسٹیشن سجوما ہے ،رسولی کے لوگوں کا اقتصادی مرکز پتران ہے ۔ گاﺅں رسولی کے قریب دریائے گھگر ہے، اس کی لمبائی 320کلومیٹر ہے، یہ دریا مون سون میں بہتا ہے۔ ظاہر ہے کہ جنم بھومی سے محبت فطری عمل ہےاور ان کی یادیں ناقابل فراموش ہوتی ہیں۔ ہمیں صبح سویرے جگایا گیا اور والدین نے بتایا کہ چلو پاکستان چلتے ہیں ، پاکستان مسلمانوں کا ملک بن گیا ہے، وہاں ہم سکون سے رہیں گے اور وہاں نظام مصطفی قائم ہوگا، وہاں عدل وانصاف ہوگا، وہاں امیر وغریب کے ساتھ یکساں سلوک ہوگا، پاکستان میں صرف چار اسلامی ٹیکس ہونگے، اس کے علاہ کوئی غیر اسلامی،غیرشرعی اور ظالمانہ ٹیکس نہیں ہونگے، وہاں ٹیکس صرف عوام پر خرچ ہونگے، پاکستان رفاعی اور فلاحی ریاست ہوگی ، وہاں تعلیم اور علاج فری ہوگا،وہاں صرف کاغذی ڈگری نہیں بلکہ عملی تعلیم ہوگی، تعلیم کے حصول کے بعد کوئی بے روزگار نہیں ہوگا، وہاں مہنگائی اور غربت نہیں ہوگی، وہاں چین اور سکون سے رہیں گے، وہاں ترقی اور خوشحالی ہوگی، میں اپنے والد کی یہ باتیں سن کر جھٹ پٹ چارپائی سے اٹھا، منہ پر پانی کے دو تین چھینٹیں ماریں، ماں نے لسی کا ایک گلاس اور روٹی پر مکھن رکھ کر دیا ، میرے بھائی اور بہنیں بھی پاکستان جانے کی خوشی میں جلدی سے تیار ہوئے۔ ہم پاکستان جانے کےلئے بے تاب تھے لیکن آبائی گھر اور گاﺅں چھوڑنے پر اداس تھے۔ اپنے یار بیلی اور لنگوٹی دوستوں کے بچھڑنے پر غمگین بھی تھے ، نہ جانے پھر ان سے ہماری ملاقات ممکن ہوگی یا نہیں جن دوستوں کیساتھ ملکر ہم نے گاﺅں میں جانور چرائے تھے جن کے ساتھ ہم کھیلے تھے، جن کے ساتھ ہم ناچے کودے اور دوڑے بھاگے تھے، ہم ان سے ہمیشہ کیلئے جدا ہورہے تھے ، ان کے آنکھوں میں آنسو تھے اور ہماری نگاہیں بھی پرنم تھیں۔ بٹوارے کے وقت شر پسند افراد کے باعث لوگوں کو پریشانی، خوف اور الم تھا ۔قافلوں پر حملوں کی بری خبریں بھی گردش کررہی تھیں،ہمیں بتایا گیا کہ ہجرت یا موت میں سے کسی ایک کا انتخاب کریں۔ اب ہمارا یہاں رہنا خطرے سے خالی نہیں تھا۔ ہم نے ہجرت کا انتخاب کیا کیونکہ پیغمبر اسلام حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بھی ہجرت کی تھی، ہم نے بھی حضور کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سنت پر عمل کرتے ہوئے ہجرت کی،ہم نے بیل گاڑیوں پر اپنا سفر شروع کیا، ہم مڑ مڑ کر اپنے گاں کی طرف دیکھتے رہے اور ہماری آنکھوں سے آنسو جاری تھے ، اپنے آبائی گھر اور پینڈ چھوڑنا آسان نہیں۔ ہمارا قافلہ پر خطر راستوں سے ہوتا ہوا پاکستان کی جانب رواں دواں تھا، متعدد قافلے لوٹے گئے، لاکھوں افراد کا قتلِ عام ہوا، ہزاروں لاکھوں مضروب ہوئے اور خواتین کی عصمت پامال ہوئیں۔ یہ قتل وغارت کرنے والے نہ مسلمان ،نہ ہندو اور نہ سکھ تھے بلکہ یہ شیطان تھے، جرائم پیشہ افراد تھے ،ان میں سادہ لوح لوگ بھی شامل ہوگئے۔ ان واقعات سے سب سے بڑا نقصان انسانیت کا ہوا۔ الحمد اللہ ہمارا قافلہ خیر وعافیت سے پاکستان پہنچا، ہم ایک ہفتہ لاہور میں رہے ، پھر مظفرگڑھ جانے کےلئے کہا گیا ، ہم مظفرگڑھ گئے، ڈیڑھ ماہ رہنے کے بعد دوبارہ لاہور جانے کا حکم صادر ہوا، دھیرے دھیرے حالات بہتر ہوئے اور بعد ازاں ہمیں کنگن پور میں زرعی زمینیں دی گئیں ۔ وہاں ہم نے کھیتی باڑی شروع کی اور پنجاب کی زمین زراعت کےلئے بہترین ہے۔ گو کہ پاکستان کی ستر فیصد آبادی زراعت سے وابستہ ہے لیکن ہم نے زراعت کےلئے سائنس ، ٹیکنالوجی اور جدید طریقے استعمال نہیں کیے، وطن عزیز میں زرعی زمینوں پر ہاسنگ سوسائٹیز قائم کی جارہی ہیں جو کہ دانشمندانہ فعل نہیں ہے ۔ علاہ ازیں ہم نے جس مقصد کےلئے پاکستان بنایا تھا ہم اس راہ پر گامزن نہیں ہوئے۔ ہم سے بعد میں آزاد ہونےوالے ممالک نے خوشحالی کے ثمرات سمیٹے ، سائنس اور ٹیکنالوجی کے میدان میں ترقی کی اور اقتصادی لحاظ سے کامران ہوئے ، ستاروں پر کمند ڈالے جبکہ ہم ترقی اور خوشحالی کی بجائے مقروض ہو گئے، آئی ایم ایف جیسی مالیاتی اداروں کے اشاروں پر ناچنے لگے ، یہ آزاد قوموں کا شیوا نہیں۔ہمیں عیاشیوں کی بجائے کفایت شعاری اپنانی چاہیے، ظالمانہ ، غیر انسانی اور غیر شرعی ٹیکسوں کی بجائے صرف اور صرف چار اسلامی اور شرعی ٹیکس نافذ کرنے چاہئیں ۔ سودی نظام کو فی الفور ختم کرنا چاہیے ، کسانوں اور صنعت کاروں کو فری بجلی اور گیس فراہم کرنا چاہیے ، ڈالر، بجلی ، پٹرولیم مصنوعات کی قیمتیں ہمسائے ممالک کے برابر رکھنے چاہئیں۔ پاکستان کی ترقی اور خوشحالی کا یہی فارمولا ہے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے