قلم کاروان اسلام آباد عالمی حلقہ کی مطالعاتی نشست میں”قبائل تہامہ کے قبول اسلام”کے موضوع پر محترمہ ڈاکٹر عفت طاہرہ نے قبائل تہامہ کاتعارف،ان کا محل وقوع اوران کی مختصرتاریخ کے ساتھ حسب نسب بھی بیان کیااوربتایاکہ کس طرح ان تک دعوت اسلام پہنچی۔ انہوں نے واضح کیاکہ اگرچہ اسلام کی حقانیت اور قرآن کی فصاحت و بلاغت بہت بڑے بڑے حقائق ہیں لیکن اشاعت اسلام میں حسن خلق نبویکابہت اہم کرداررہاہے۔اسلامی تعلیمات نے ان قبائل پراپنااثر چھوڑااور خلق نبوی نے فیصلہ کن چوٹ لگائی اوران کے قلوب اسلام کی طرف متوجہ ہوئے اورانہوں نے اپنی زبان سے کلمہ شہادت کہتے ہوئے اطاعت رسول کاقلاوہ اپنی گردنوں میں ڈال لیا۔ آج بھی اسلام اپنی حقانیت کے زورسے آغے بڑھ رہاہے اور دنیاکے ہرکونے میں پھیل رہاہے لیکن حاملین قرآن مجیدکی بدخلقی اوربے عملی اس کی اشاعت میں رکاوٹ ہے جسٍ کاتدارک بہت ضروری ہے۔مقررین نے کہا کہ تہامہ کے قبائل میں اسلام کو جذب کرنے کی صلاحیت اس لیے بھی زیادہ تھی کیونکہ ان قبائل کے جد امجد کا نسب حضرت ابراہیم علیہ السلام سے تھا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت بھی حضرت ابراہیم علیہ السلام کے سلسلے میں وارد ہوئی۔عرب قبائل کا ایک گروہ ایک راہب کے پاس گیا اور اس سے نبوت کی نشانیوں کے حوالے سے بات کی۔ اس راہب نے 3 سوالات ان کو بتائے اگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم ان سوالات کے جوابات اس انداز سے دیں تو پھر سمجھ لو وہی آخری نبی ہیں۔ یہ سوالات ذوالقرنین , اصاحب کہف اور روح کے مسئلے سے متعلق تھے۔حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم معمول کے مطابق حج میں آنے والے قبائل کو دعوت اسلام دینے کے لئے منیٰ کے میدان میں تشریف لے گئے اور قرآنِ مجید کی آیتیں سنا سنا کر لوگوں کے سامنے اسلام پیش فرمانے لگے۔ حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم منیٰ میں عقبہ (گھاٹی) کے پاس جہاں آج “مسجد العقبہ” میں تشریف فرما تھے کہ قبیلہ خزرج کے چھ آدمی آپ کے پاس آ گئے۔ آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے ان لوگوں سے ان کا نام و نسب پوچھا۔ پھر قرآن کی چند آیتیں سنا کر ان لوگوں کو اسلام کی دعوت دی جس سے یہ لوگ بے حد متاثر ہوگئے اور ایک دوسرے کا منہ دیکھ کر واپسی میں یہ کہنے لگے کہ یہودی جس نبی آخر الزمان کی خوشخبری دیتے رہے ہیں یقینا وہ نبی یہی ہیں۔ لہٰذا کہیں ایسا نہ ہو کہ یہودی ہم سے پہلے اسلام کی دعوت قبول کر لیں۔ یہ کہہ کر سب ایک ساتھ مسلمان ہو گئے اور مدینہ جا کر اپنے اہل خاندان اور رشتہ داروں کو بھی اسلام کی دعوت دی۔ ان چھ خوش نصیبوں کے نام یہ ہیں۔ (۱) حضرت عقبہ بن عامر بن نابی۔ (۲) حضرت ابو امامہ اسعد بن زرارہ (۳) حضرت عوف بن حارث (۴) حضرت رافع بن مالک (۵) حضرت قطبہ بن عامر بن حدیدہ (۶) حضرت جابر بن عبد بن ریاب ۔ (رضی اللہ تعالیٰ عنہم اجمعین)حج کے موقع پر مدینہ کے بارہ اشخاص منیٰ کی اسی گھاٹی میں چھپ کر مشرف بہ اسلام ہوئے اور حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم سے بیعت ہوئے۔ تاریخ اسلام میں اس بیعت کا نام “بیعت عقبہ اولیٰ” ہے۔ ساتھ ہی ان لوگوں نے حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم سے یہ درخواست بھی کی کہ احکامِ اسلام کی تعلیم کے لئے کوئی معلم بھی ان لوگوں کے ساتھ کر دیا جائے۔ چنانچہ حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے حضرت مصعب بن عمیر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو ان لوگوں کے ساتھ مدینہ منورہ بھیج دیا۔ وہ مدینہ میں حضرت اسعد بن زرارہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے مکان پر ٹھہرے اور انصار کے ایک ایک گھر میں جا جا کر اسلام کی تبلیغ کرنے لگے اور روزانہ ایک دو نئے آدمی آغوش اسلام میں آنے لگے۔ یہاں تک کہ رفتہ رفتہ مدینہ سے قباءتک گھر گھر اسلام پھیل گیا۔قبیلہ اوس کے سردار حضرت سعد بن معاذ رضی اللہ تعالیٰ عنہ بہت ہی بہادر اور بااثر شخص تھے۔ حضرت مصعب بن عمیر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے جب ان کے سامنے اسلام کی دعوت پیش کی تو انہوں نے پہلے تو اسلام سے نفرت و بیزاری ظاہر کی مگر جب حضرت مصعب بن عمیر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ان کو قرآنِ مجید پڑھ کر سنایا تو ایک دم ا±ن کا دل پسیج گیا اور اس قدر متاثر ہوئے کہ سعادتِ ایمان سے سر فراز ہو گئے۔ ان کے مسلمان ہوتے ہی ان کا قبیلہ “اوس” بھی دامنِ اسلام میں آ گیا۔اسی طرح عرب میں جا بجا بہت سے میلے لگتے تھے جن میں دور دراز کے قبائل عرب جمع ہوتے تھے۔ ان میلوں میں بھی آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم تبلیغ اسلام کے لئے تشریف لے جاتے تھے۔ چنانچہ عکاظ، مجنہ، ذوالمجاز کے بڑے بڑے میلوں میں آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے قبائل عرب کے سامنے دعوت اسلام پیش فرمائی۔ عرب کے قبائل بنو عامر، محارب، فزارہ، غسان، مرہ، سلیم، عبس، بنو نصر، کندہ، کلب، عذرہ، حضارمہ وغیرہ ان سب مشہور قبائل کے سامنے آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے اسلام پیش فرمایا مگر آپ کا چچا ابولہب ہر جگہ آپ کے ساتھ ساتھ جاتا اور جب آپ کسی قبیلہ کے سامنے وعظ فرماتے تو ابولہب چلا چلا کر یہ کہتا کہ ” یہ دین سے پھر گیا ہے، یہ جھوٹ کہتا ہے۔قبیلہ بنو ذہل بن شیبان کے پاس جب آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم تشریف لے گئے تو حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ بھی آپ کے ساتھ تھے۔ اس قبیلہ کا سردار “مفروق” آپ کی طرف متوجہ ہوا اور اس نے کہا کہ اے قریشی برادر ! آپ لوگوں کے سامنے کونسا دین پیش کرتے ہیں ؟ آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے فرمایا کہ خدا ایک ہے اور میں اس کا رسول ہوں۔ پھر آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے سورہ انعام کی چند آیتیں تلاوت فرمائیں۔ یہ سب لوگ آپ کی تقریر اور قرآنی آیتوں کی تاثیر سے انتہائی متاثر ہوئے لیکن یہ کہا کہ ہم اپنے اس خاندانی دین کو بھلا ایک دم کیسے چھوڑ سکتے ہیں ؟ جس پر ہم برسہا برس سے کار بند ہیں۔ اس کے علاوہ ہم ملک فارس کے بادشاہ کسریٰ کے زیر اثر اور رعیت ہیں۔ اور ہم یہ معاہدہ کر چکے ہیں کہ ہم بادشاہ کسریٰ کے سوا کسی اور کے زیر اثر نہیں رہیں گے۔ حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے ان لوگوں کی صاف گوئی کی تعریف فرمائی اور ارشاد فرمایا کہ خیر، خدا اپنے دین کا حامی و ناصر اور معین و مدد گار ہے۔