کالم

امت مسلمہ کا قبلہ اول یہودیوں کے قبضے میں

دوسری جنگ عظیم کے دوران نازیوں کے ہاتھوں یورپ میں لاکھوں یہودیوں کے قتل عام کے بعد ایک علیحدہ یہودی ریاست کو تسلیم کرنے کےلئے بین الاقوامی دباو¿ بڑھنے لگا۔ عربوں اور یہودیوں کے درمیان بڑھتی ہوئی کشیدگی کو حل کرنے میں ناکامی کے بعد برطانیہ نے یہ مسئلہ اقوام متحدہ کے زیر غور لایا۔29 نومبر 1947 ءکو اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے فلسطین کی تقسیم کے منصوبے کی منظوری دی۔ اس میں ایک عرب ملک اور یہودی ریاست کے قیام کی سفارش کی گئی اور یروشلم کےلئے خصوصی انتظامات کا بھی بندوبست کیا گیا۔اس منصوبے کو یہودیوں نے قبول کیا لیکن عربوں نے اسے مسترد کر دیا۔ انہوں نے اسے اپنی زمین کھونے کے طور پر دیکھا۔ یہی وجہ تھی کہ اقوام متحدہ کے منصوبے پر کبھی عمل درآمد نہ ہوسکا۔ آزاد اسرائیل کے قیام کا اعلان فلسطین پر برطانیہ کے تسلط کے خاتمے سے ایک دن قبل 14 مئی 1948ءکو کیا گیا تھا۔ اگلے دن اسرائیل نے اقوام متحدہ کی رکنیت کے لیے درخواست دی اور ایک سال بعد اس کی منظوری مل گئی۔ اقوام متحدہ کے 83 فیصد رکن ممالک اسرائیل کو تسلیم کر چکے ہیں۔ دسمبر 2019 تک 193 میں سے 162 ممالک نے اسرائیل کو تسلیم کر لیا تھا۔اقوام متحدہ کی تاریخ میں یہ سب سے پرانا مسئلہ ہے جو یہود و نصاریٰ کی ہٹ دھرمی کی وجہ سے ابھی تک حل نہیں ہو سکا۔ اسرائیل پر حماس کے فاتحانہ حملے کے بعد بھی مسلم ممالک خواب غفلت میں ڈوبے رہے۔ دو تین ممالک کے سوا‘ عرب دنیا اور او آئی سی نے بھی فوری طورپر کوئی ردعمل ظاہر نہیں کیا۔ تین چار روز بعد اب مسلم دنیا کی قیادتوں نے حماس کے ساتھ رسماً یکجہتی کے اظہار کا سلسلہ شروع کیا ہے تو اس میں بھی زور حماس پر انسانیت کے احترام کا درس دینے پر لگایا جا رہا ہے۔ اور تنازعہ اسرائیل و فلسطین کے دو ریاستی حل پر زور دیا جا رہا ہے۔ ترک صدر اردوان کا فلسطینیوں کی حمایت میں پہلے روز ہی جاندار بیان آ گیا تھا جبکہ وزیر خارجہ پاکستان کا یہ بیان آیا کہ ہم فلسطینیوں کے ساتھ کھڑے ہیں۔ قابض اسرائیل تشدد بند کرے۔ امت مسلمہ کا قبلہ اول یہودیوں کے قبضے میں ہے ۔ اسرائیل ، فلسطین تنازعہ کی ابتداءبیسویں صدی کے آغاز میں ہوئی جب یورپ میں یہودیوں کو نشانہ بنایا جا رہا تھا۔ ان حالات میں یہودیوں کےلئے الگ ملک کا مطالبہ زور پکڑنے لگا۔ بحیرہ روم اور دریائے اردن کے درمیان واقع فلسطین کا علاقہ مسلمانوں، یہودیوں اور عیسائیوں کےلئے مقدس سمجھا جاتا تھا۔ یہ علاقہ سلطنت عثمانیہ کے زیر کنٹرول تھا اور اس پر زیادہ تر عربوں اور دیگر مسلم کمیونٹیز کا قبضہ تھا۔ پہلی جنگ عظیم کے بعد، سلطنت عثمانیہ بکھر گئی اور برطانیہ نے فلسطین کے انتظامی امور پر قبضہ کرنے کےلئے لیگ آف نیشنز سے منظوری حاصل کی۔ پہلی جنگ عظیم سے پہلے اور اس کے دوران انگریزوں نے عربوں اور یہودیوں سے بہت سے وعدے کیے تھے لیکن وہ ان میں سے ایک چھوٹا سا حصہ بھی پورا نہ کر سکے۔ برطانیہ پہلے ہی فرانس کے ساتھ مشرق وسطیٰ کو تقسیم کر چکا تھا۔ جس کی وجہ سے عربوں اور یہودیوں کے درمیان کشیدگی کی صورتحال پیدا ہو گئی ۔برطانوی سامراج کے صہیونیت نواز وزیر خارجہ آرتھر جیمز بالفور نے 2 نومبر 1917ءکو برطانیہ کے صہیونی لیڈر لارڈ روتھس چائلڈ کو ایک خط لکھا تھا۔ اس نے یقین دلایا کہ برطانیہ فلسطین میں یہودیوں کے قومی گھر (نیشنل ہوم) کے قیام کی حمایت کرتا ہے اور اس مقصد کے حصول کےلئے برطانیہ بھرپور کوشش کرے گا۔ اسی خط کو ”بالفور اعلامیہ “ کہا جاتا ہے۔بالفور اعلامیہ ایک تاریخی دستاویز کی حیثیت اختیار کر گیا ہے۔ یہودی اسی اعلامیے کو اسرائیل کے قیام کی بنیاد بتاتے ہیں۔ حالانکہ اس اعلامیے میں صاف لکھا گیا تھا کہ ایسا کوئی کام نہیں کیا جائے گا جس سے فلسطین کی غیر یہودی آبادی کے شہری اور مذہبی حقوق پامال ہوں۔ اس میں یہ بھی تحریر کیا گیا کہ ایسا کچھ بھی نہیں کیا جائے گا جس سے دیگر ملکوں میں آباد یہودیوں کے حقوق اور سیاسی حیثیت متاثر ہوں۔پہلی جنگ عظیم کے دوران 1915ءمیں یہودی وفد نے جرمنی کے ہٹلر سے ملاقات میں پیش کش کی کہ اگر وہ اسرائیل کو تسلیم کریں تو یہودی جنگ میں جرمنی کا ساتھ دیں گے مگر ہٹلر نے ان کی پیشکش ٹھکرادی۔ یہودی وفد نے برطانوی وزیر اعظم کے سامنے بھی یہی پیشکش رکھی تو وہ مان گیا لہٰذا برطانوی حکومت کے صہیونی حلقوں نے کھل کر صہیونی اہداف کی حمایت حاصل کرنے کےلئے اس مسئلے کو کابینہ میں پیش کیا ۔دوسری جنگ عظیم اور نازیوں کے ہاتھوں یہودیوں کی وسیع پیمانے پر نسل کشی کے بعد، یہودیوں کےلئے علیحدہ ملک کا مطالبہ کرنے کےلئے دباو¿ بڑھنا شروع ہوا۔ اس وقت یہ منصوبہ بنایا گیا تھا کہ برطانوی زیر کنٹرول علاقے کو فلسطینیوں اور یہودیوں کے درمیان تقسیم کر دیا جائے گا۔یہودیوں کا خیال ہے کہ آج جہاں اسرائیل واقع ہے وہ وہی علاقہ ہے جس کا وعدہ خدا نے ان کے پہلے آباﺅ اجداد ابراہیم اور ان کی اولاد سے کیا تھا۔ قدیم زمانے میں اس علاقے پر بابلیوں، فارس، مقدونیہ اور رومیوں نے حملہ کیا۔ اس علاقے کو رومی سلطنت کے دور میں فلسطین کا نام دیا گیا اور مسیح کے سات دہائیوں بعد اس علاقے سے یہودیوں کو بے دخل کر دیا گیا۔ اسلام کے عروج کے ساتھ، فلسطین ساتویں صدی میں عربوں کے قبضے میں آیا اور پھر یورپی حملہ آوروں نے اسے فتح کر لیا۔ سال 1516 ءمیں یہ ترکی کے کنٹرول میں آیا اور پھر پہلی جنگ عظیم کے دوران برطانیہ کے کنٹرول میں آنے تک یہ جمود برقرار رہا۔فلسطین اسرائیل جنگ میں امریکا سب سے منفی کردار ادا کررہا ہے ۔ اسرائیلی افواج نے حماس کے ٹھکانوں کے ساتھ ساتھ فلسطینی آبادیوں اور سکولوں پر بھی بمباری کی ۔غزہ میں پناہ گزینوں کے کیمپوں کو وحشیانہ بمباری کا نشانہ بنایا اور درجنوں عمارتیں ملبے کا ڈھیر بن چکی ہیں ۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے