امریکہ اور بھارت کے درمیان دس سالہ دفاعی فریم ورک معاہدے پر دستخط جنوبی ایشیا کی سیاست اور سلامتی پر گہرے اثرات ڈالنے والا واقعہ ہے۔ اکتیس اکتوبر دو ہزار پچیس کو طے پانے والا یہ معاہدہ بظاہر دفاعی تعاون کا اعلان ہے، مگر دراصل ایک نئی صف بندی کی شروعات ہے جو آنے والے برسوں میں خطے کے طاقت کے توازن کو بدل سکتی ہے۔ معاہدے کے تحت دونوں ممالک عسکری ٹیکنالوجی کے تبادلے، مشترکہ مشقوں، خفیہ معلومات کے اشتراک اور دفاعی صنعت میں سرمایہ کاری پر متفق ہوئے ہیں۔ واشنگٹن اور نئی دہلی کے وزرائے دفاع نے اسے امن و استحکام کے لیے اہم قرار دیا ہے، مگر عالمی مبصرین کے نزدیک اس کا اصل مقصد چین کے بڑھتے ہوئے اثر کو محدود کرنا ہے جو کسی بھی صورت خطے کے مفاد میں نہیں۔امریکہ ایشیائی خطے میں اپنی برتری برقرار رکھنے کے لیے بھارت کو ایک مرکزی اتحادی کے طور پر دیکھ رہا ہے۔ دوسری جانب بھارت کے لیے یہ معاہدہ جدید امریکی ٹیکنالوجی، ہتھیاروں اور دفاعی سہولتوں تک رسائی کا ذریعہ بنے گا۔ دفاعی ماہرین کے مطابق اس تعاون سے بھارت کو مصنوعی ذہانت، ڈرون، سائبر دفاع اور میزائل نظام میں نمایاں برتری حاصل ہو سکتی ہے۔یہ صورت حال جنوبی ایشیا کے توازن کے لیے چیلنج بن چکی ہے۔ پاکستان کی دفاعی حکمتِ عملی ہمیشہ طاقت کے توازن کے اصول پر مبنی رہی ہے، مگر امریکہ اور بھارت کا بڑھتا ہوا اشتراک اس توازن کو بگاڑ سکتا ہے۔ اسلام آباد کے لیے یہ محض ایک علاقائی پیش رفت نہیں بلکہ ایک نئی سفارتی آزمائش بھی ہے۔ پاکستان کی جانب سے ابھی تک کوئی باضابطہ بیان سامنے نہیں آیا، تاہم وزارتِ خارجہ کے قریبی ذرائع کے مطابق اسلام آباد اس پیشرفت پر گہری نظر رکھے ہوئے ہے۔ ایک غیر رسمی بیان میں کہا گیا ہے کہ پاکستان اسلحے کی دوڑ یا بلاک بندی کی سیاست کا حصہ نہیں بننا چاہتا، لیکن ایسی سرگرمیوں سے علاقائی استحکام متاثر ہونے کا خدشہ موجود ہے۔چین نے بھی اس معاہدے پر محتاط ردِعمل دیا ہے۔ بیجنگ کے مطابق واشنگٹن کا یہ قدم خطے میں تعاون کے بجائے تصادم کی فضا پیدا کرے گا۔ چین کا یہ موقف ظاہر کرتا ہے کہ امریکہ اور چین کے درمیان جاری کشیدگی اب دفاعی اتحادوں کے ذریعے ایک نئی شکل اختیار کر رہی ہے۔ بھارت کے لیے یہ معاہدہ وقتی فائدہ ضرور دے گا، مگر طویل مدت میں اسے بڑی طاقتوں کے تنازعات کے بیچ میں لا سکتا ہے۔پاکستان کے لیے سوال یہ ہے کہ وہ اس نئی تزویراتی ترتیب کے مقابلے میں اپنی حکمتِ عملی کس طرح وضع کرے۔ ایک راستہ یہ ہے کہ پاکستان چین کے ساتھ تعاون کو مزید مضبوط کرے، جبکہ دوسرا راستہ ایک متوازن اور فعال سفارتکاری ہے جو خطے میں استحکام کو ترجیح دے۔ ماہرین کے نزدیک پاکستان کو اپنی دفاعی صنعت، ٹیکنالوجی میں خود انحصاری اور علاقائی روابط کو وسعت دینا ہوگا تاکہ کسی بھی دباؤ کا مؤثر جواب دیا جا سکے۔امریکہ پورے خطے میں جاپان، آسٹریلیا، فلپائن اور جنوبی کوریا جیسے ممالک کے ساتھ اپنے تعلقات بڑھا رہا ہے۔ بھارت کو اس نیٹ ورک میں شامل کر کے وہ چین کے اثر کو محدود کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔ ایسے میں پاکستان کے لیے ضروری ہے کہ وہ اپنے جغرافیائی محلِ وقوع اور اقتصادی شراکت داری کو مؤثر سفارتکاری میں ڈھالے۔یہ معاہدہ صرف ایک رسمی دستاویز نہیں بلکہ جنوبی ایشیا کی طاقت کی نئی ترتیب کا آغاز ہے۔ آنے والے مہینوں میں اگر اس کے عملی نتائج سامنے آئے تو خطے میں نئی صف بندی ناگزیر ہوگی۔ پاکستان کے لیے سب سے بڑا چیلنج یہ ہے کہ وہ اس تیزی سے بدلتی ہوئی عالمی بساط پر اپنے مفادات، خودمختاری اور دفاعی توازن کو برقرار رکھ سکے، کیونکہ یہی اس کی قومی سلامتی کی بنیاد ہے۔ اسی پس منظر میں ایک اور اہم پیش رفت یہ ہے کہ پاکستان اور سعودی عرب کے درمیان بھی دفاعی تعاون کا معاہدہ طے پا چکا ہے۔ دونوں ممالک کے درمیان یہ اشتراک نہ صرف فوجی تربیت اور ساز و سامان تک محدود ہے بلکہ اس کے تزویراتی اثرات بھی دور رس ہو سکتے ہیں۔ اگر آئندہ امریکہ، سعودی عرب کے ساتھ بھی اسی نوعیت کا ایک نیا دفاعی معاہدہ کرتا ہے، تو خطے کی صورت حال یقیناً دلچسپ بلکہ غیر متوقع موڑ اختیار کر سکتی ہے۔ اس طرح مشرقِ وسطیٰ اور جنوبی ایشیا کی دفاعی حرکیات ایک دوسرے سے منسلک ہوتی دکھائی دیں گی، جس کے اثرات عالمی سیاست پر بھی پڑیں گے۔

